باب: امام عید کے خطبے میں لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو
)
Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: The Imam faces the people while delivering the Khutna (religious talk) of Eid)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابوسعید فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺلوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے۔۔
976.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ عیدالاضحیٰ کے دن نکلے اور دو رکعت نماز عید ادا کی، پھر ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’ہماری اس دن سب سے پہلی عبادت یہ ہونی چاہئے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر واپس ہوں اور قربانی کریں۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا ہے، قربانی نہیں ہے۔‘‘اس دوران میں ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے تو (نماز سے پہلے قربانی) ذبح کر دی ہے اور اب میرے پاس ایک سالہ بھیڑ کا بچہ ہے جو دو دانتے سے کہیں بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اسی کو ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لیے کافی نہیں ہو گا۔‘‘
تشریح:
(1) ’’پھر ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے‘‘ ان الفاظ سے امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان ثابت ہوتا ہے۔ (2) ایک روایت میں ہے کہ نماز کے بعد لوگ صفوں میں بیٹھے رہتے اور رسول اللہ ﷺ ان کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:956) ابن حبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جہاں نماز پڑھتے وہیں لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے۔ (فتح الباري:579/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
962
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
976
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
976
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
976
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
کتاب الجمعہ میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کا عنوان قائم کیا تھا، پھر تکرار کی کیا ضرورت تھی؟ خطبے تو سب برابر ہوتے ہیں لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک وہم کو دور کیا ہے کہ عید میں منبر وغیرہ نہیں ہوتا ممکن ہے کہ خطبۂ عید کا طریقہ خطبۂ جمعہ سے مختلف ہو، اس وہم کا ازالہ مقصود ہے۔ (فتح الباری: 2/599) اس تعلیق کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،العیدین،حدیث:956)
ابوسعید فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے۔۔
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ عیدالاضحیٰ کے دن نکلے اور دو رکعت نماز عید ادا کی، پھر ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’ہماری اس دن سب سے پہلی عبادت یہ ہونی چاہئے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر واپس ہوں اور قربانی کریں۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا ہے، قربانی نہیں ہے۔‘‘اس دوران میں ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے تو (نماز سے پہلے قربانی) ذبح کر دی ہے اور اب میرے پاس ایک سالہ بھیڑ کا بچہ ہے جو دو دانتے سے کہیں بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اسی کو ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لیے کافی نہیں ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ’’پھر ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے‘‘ ان الفاظ سے امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان ثابت ہوتا ہے۔ (2) ایک روایت میں ہے کہ نماز کے بعد لوگ صفوں میں بیٹھے رہتے اور رسول اللہ ﷺ ان کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:956) ابن حبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جہاں نماز پڑھتے وہیں لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے۔ (فتح الباري:579/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوسعید خدری ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن طلحہ نے بیان کیا، ان سے زبید نے، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب ؓ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ عید الاضحی کے دن بقیع کی طرف تشریف لے گئے اور دو رکعت عید کی نماز پڑھائیں۔ پھر ہماری طرف چہرہ مبارک کر کے فرمایا کہ سب سے مقدم عبادت ہمارے اس دن کی یہ ہے کہ پہلے ہم نماز پڑھیں پھر (نماز اور خطبے سے) لوٹ کر قربانی کریں۔ اس لیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو وہ ایسی چیز ہے جسے اس نے اپنے گھر والوں کے کھلانے کے لیے جلدی سے مہیا کر دیا ہے اور اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو پہلے ہی ذبح کردیا۔ لیکن میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ دوندی بکری سے زیادہ بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خیر تم اسی کو ذبح کرلو لیکن تمہارے بعد کسی کی طرف سے ایسی پٹھیا جائز نہ ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
سوال کرنے والے ابو بردہ بن نیار انصاری ؓ تھے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara': The Prophet (ﷺ) went towards Al-Baqi (the grave-yard at Medina) on the day of Id-ul-Adha and offered a two-Rakat prayer (of 'Id-ul-Adha) and then faced us and said, "On this day of ours, our first act of worship is the offering of prayer and then we will return and slaughter the sacrifice, and whoever does this concords with our Sunna; and whoever slaughtered his sacrifice before that (i.e. before the prayer) then that was a thing which he prepared earlier for his family and it would not be considered as a Nusuk (sacrifice.)" A man stood up and said, "O, Allah's Apostle (ﷺ) ! I slaughtered (the animal before the prayer) but I have a young she-goat which is better than an older sheep." The Prophet (ﷺ) said to him, "Slaughter it. But a similar sacrifice will not be sufficient for anybody else after you."