Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: The mark of the Musall)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
977.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، ان سے پوچھا گیا: کیا آپ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز عید میں شریک ہوئے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر میرا چھوٹے ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے ہاں مرتبہ اور مقام نہ ہوتا تو میں عید کا مشاہدہ نہ کر سکتا، بہرحال آپ (نماز عید کے لیے) نکلے یہاں تک کہ اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے گھر کے پاس تھا، نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا، اس کے بعد آپ عورتوں کے پاس تشریف لائے، آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ بھی تھے، آپ نے ان عورتوں کو وعظ و نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا، چنانچہ میں نے عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ جھکا کر اپنے زیورات حضرت بلال ؓ کے کپڑے میں ڈالتی تھیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ اور حضرت بلال ؓ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
تشریح:
(1) اگر عید گاہ کی چار دیواری وغیرہ نہ ہو تو اس کی شناخت کے لیے کسی قسم کی علامت مقرر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگرچہ جو ’’نشان‘‘ کثیر بن صلت کی حویلی کے پاس تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہ تھا لیکن امام بخاری ؒ نے حدیث کے ظاہری الفاظ سے عنوان کو ثابت کیا ہے۔ آپ نے اس تحقیق کو ضروری خیال نہیں کیا کہ وہ نشان عہد نبوی میں موجود تھا یا نہیں۔ (2) واضح رہے کہ کثیر بن صلت کے گھر کے پاس ایک اونچا سا نشان تھا جس سے اس جگہ کی پہچان ہوتی تھی اور ان کا گھر عیدگاہ کے قبلے کی طرف تھا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے کافی عرصہ بعد تعمیر کیا تھا۔ اس دور میں اس کی کافی شہرت ہو چکی تھی، اس لیے عیدگاہ کا تعارف ان کے گھر کے پاس ہونے سے کرایا جاتا تھا۔ اس کا نام قلیل بن صلت تھا، حضرت عمر ؓ نے اس کا نام کثیر رکھا۔ اس نے مروان بن حکم کے لیے کچھ اینٹوں اور مٹی سے وہاں ایک منبر بھی تعمیر کیا تھا۔ (فتح الباري:579/2) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ چونکہ مجاہد قسم کے آدمی تھے، اس لیے انہوں نے شرح تراجم بخاری میں اپنے مزاج کے مطابق اس حدیث کی تشریح کی ہے، فرماتے ہیں: صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عیدگاہ کے اندر کوئی جھنڈا وغیرہ نصب نہیں تھا، اس لیے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جہاں ہمارے زمانے میں جھنڈا گاڑا جاتا ہے، وہاں رسول اللہ ﷺ نماز عید پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ ظاہر حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں وہاں جھنڈا نصب ہوتا تھا، اس لیے مصنف (امام بخاری رحمہ اللہ) نے انہی الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے۔ میرے نزدیک واضح بات یہ ہے کہ مصنف عیدگاہ میں جھنڈا نصب کرنے کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
963
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
977
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
977
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
977
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، ان سے پوچھا گیا: کیا آپ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز عید میں شریک ہوئے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر میرا چھوٹے ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے ہاں مرتبہ اور مقام نہ ہوتا تو میں عید کا مشاہدہ نہ کر سکتا، بہرحال آپ (نماز عید کے لیے) نکلے یہاں تک کہ اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے گھر کے پاس تھا، نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا، اس کے بعد آپ عورتوں کے پاس تشریف لائے، آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ بھی تھے، آپ نے ان عورتوں کو وعظ و نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا، چنانچہ میں نے عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ جھکا کر اپنے زیورات حضرت بلال ؓ کے کپڑے میں ڈالتی تھیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ اور حضرت بلال ؓ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگر عید گاہ کی چار دیواری وغیرہ نہ ہو تو اس کی شناخت کے لیے کسی قسم کی علامت مقرر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگرچہ جو ’’نشان‘‘ کثیر بن صلت کی حویلی کے پاس تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہ تھا لیکن امام بخاری ؒ نے حدیث کے ظاہری الفاظ سے عنوان کو ثابت کیا ہے۔ آپ نے اس تحقیق کو ضروری خیال نہیں کیا کہ وہ نشان عہد نبوی میں موجود تھا یا نہیں۔ (2) واضح رہے کہ کثیر بن صلت کے گھر کے پاس ایک اونچا سا نشان تھا جس سے اس جگہ کی پہچان ہوتی تھی اور ان کا گھر عیدگاہ کے قبلے کی طرف تھا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے کافی عرصہ بعد تعمیر کیا تھا۔ اس دور میں اس کی کافی شہرت ہو چکی تھی، اس لیے عیدگاہ کا تعارف ان کے گھر کے پاس ہونے سے کرایا جاتا تھا۔ اس کا نام قلیل بن صلت تھا، حضرت عمر ؓ نے اس کا نام کثیر رکھا۔ اس نے مروان بن حکم کے لیے کچھ اینٹوں اور مٹی سے وہاں ایک منبر بھی تعمیر کیا تھا۔ (فتح الباري:579/2) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ چونکہ مجاہد قسم کے آدمی تھے، اس لیے انہوں نے شرح تراجم بخاری میں اپنے مزاج کے مطابق اس حدیث کی تشریح کی ہے، فرماتے ہیں: صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عیدگاہ کے اندر کوئی جھنڈا وغیرہ نصب نہیں تھا، اس لیے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جہاں ہمارے زمانے میں جھنڈا گاڑا جاتا ہے، وہاں رسول اللہ ﷺ نماز عید پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ ظاہر حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں وہاں جھنڈا نصب ہوتا تھا، اس لیے مصنف (امام بخاری رحمہ اللہ) نے انہی الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے۔ میرے نزدیک واضح بات یہ ہے کہ مصنف عیدگاہ میں جھنڈا نصب کرنے کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے سفیان ثوری سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن عابس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے سنا، ان سے دریافت کیا گیا تھا کہ کیا آپ نبی کریم ﷺ کے ساتھ عیدگاہ گئے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں اور اگر باوجود کم عمری کے میری قدر ومنزلت آپ کے یہاں نہ ہوتی تو میں جا نہیں سکتا تھا۔ آپ اس نشان پر آئے جو کثیر بن صلت کے گھر کے قریب ہے۔ آپ نے وہاں نماز پڑھائی پھر خطبہ سنایا۔ اس کے بعد عورتوں کی طرف آئے۔ آپ کے ساتھ بلال ؓ بھی تھے۔ آپ نے انہیں وعظ اور نصیحت کی اور صدقہ کے لیے کہا۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ عورتیں اپنے ہاتھوں سے بلال ؓ کے کپڑے میں ڈالے جا رہی تھیں۔ پھر آنحضور ﷺ اور بلال ؓ گھر واپس ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
کثیربن صلت کا مکان آنحضرت ﷺ کے بعد بنایا گیا۔ ابن عباس ؓ نے لوگوں کو عید گاہ کا مقام بتانے کے لیے اس کا پتہ دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur Rahman bin 'Abis (RA): Ibn Abbas (RA) was asked whether he had joined the Prophet (ﷺ) in the 'Id prayer. He said, "Yes. And I could not have joined him had I not been young. (The Prophet (ﷺ) came out) till he reached the mark which was near the house of Kathir bin As-Salt, offered the prayer, delivered the Khutba and then went towards the women. Bilal (RA) was accompanying him. He preached to them and advised them and ordered them to give alms. I saw the women putting their ornaments with their outstretched hands into Bilal (RA) 's garment. Then the Prophet (ﷺ) along with Bilal (RA) returned home.