Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: The preaching to the woman by the Imam on Eid day)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
978.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ عیدالفطر کے دن نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی، یعنی نماز سے آغاز کیا، پھر خطبہ دیا، جب فارغ ہوئے تو اترے اور عورتوں کی طرف تشریف لے گئے، انہیں نصیحت فرمائی جبکہ آپ حضرت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے اور حضرت بلال ؓ اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے جس میں عورتیں خیرات ڈال رہی تھیں۔ (راوی کہتا ہے: ) میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا: وہ صدقہ فطر ڈال رہی تھیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں اس وقت ایسے ہی خیرات کر رہی تھیں۔ اگر ایک عورت اپنی انگوٹھی ڈالتی تو دوسری عورتیں بھی ڈالتی تھیں۔ میں نے (عطاء سے) دریافت کیا: آپ کے خیال کے مطابق کیا امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ فرمایا؛ ہاں، ان کے ذمے تو ہے لیکن نہ معلوم وہ کیوں نہیں کرتے؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
964
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
978
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
978
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
978
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ عیدالفطر کے دن نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی، یعنی نماز سے آغاز کیا، پھر خطبہ دیا، جب فارغ ہوئے تو اترے اور عورتوں کی طرف تشریف لے گئے، انہیں نصیحت فرمائی جبکہ آپ حضرت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے اور حضرت بلال ؓ اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے جس میں عورتیں خیرات ڈال رہی تھیں۔ (راوی کہتا ہے: ) میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا: وہ صدقہ فطر ڈال رہی تھیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں اس وقت ایسے ہی خیرات کر رہی تھیں۔ اگر ایک عورت اپنی انگوٹھی ڈالتی تو دوسری عورتیں بھی ڈالتی تھیں۔ میں نے (عطاء سے) دریافت کیا: آپ کے خیال کے مطابق کیا امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ فرمایا؛ ہاں، ان کے ذمے تو ہے لیکن نہ معلوم وہ کیوں نہیں کرتے؟
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن نصر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ا بن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطاء نے خبر دی کہ جابر بن عبد اللہ ؓ کو میں نے یہ کہتے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے عید الفطر کی نماز پڑھی۔ پہلے آپ نے نماز پڑھی اس کے بعد خطبہ دیا۔ جب آپ خطبہ سے فارغ ہوگئے تو اترے اور عورتوں کی طرف آئے۔ پھر انہیں نصیحت فرمائی۔ آپ اس وقت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ بلال ؓ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ میں نے عطاء سے پوچھا کیا یہ صدقہ فطر دے رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ صدقہ کے طور پر دے رہی تھیں۔ اس وقت عورتیں اپنے چھلے (وغیرہ) برابر ڈال رہی تھیں۔ پھر میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا آپ اب بھی امام پر اس کا حق سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ان پر یہ حق ہے اور کیا وجہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Juraij (RA): 'Ata' told me that he had heard Jabir bin 'Abdullah saying, "The Prophet (ﷺ) stood up to offer the prayer of the 'Id ul Fitr. He first offered the prayer and then delivered the Khutba. After finishing it he got down (from the pulpit) and went towards the women and advised them while he was leaning on Bilal (RA) 's hand. Bilal (RA) was spreading out his garment where the women were putting their alms." I asked 'Ata' whether it was the Zakat of 'Id ul Fitr. He said, "No, it was just alms given at that time. Some lady put her finger ring and the others would do the same." I said, (to 'Ata'), "Do you think that it is incumbent upon the Imam to give advice to the women (on 'Id day)?" He said, "No doubt, it is incumbent upon the Imams to do so and why should they not do so?" Al-Hasan bin Muslim told me that Ibn Abbas (RA) had said, "I join the Prophet, Abu Bakr, Umar and 'Uthman in the 'Id ul Fitr prayers. They used to offer the prayer before the Khutba and then they used to deliver the Khutba afterwards. Once the Prophet (ﷺ) I came out (for the 'Id prayer) as if I were just observing him waving to the people to sit down. He, then accompanied by Bilal (RA) , came crossing the rows till he reached the women. He recited the following verse: 'O Prophet! When the believing women come to you to take the oath of fealty to you . . . (to the end of the verse) (60.12).' After finishing the recitation he said, "O ladies! Are you fulfilling your covenant?" None except one woman said, "Yes." Hasan did not know who was that woman. The Prophet (ﷺ) said, "Then give alms." Bilal (RA) spread his garment and said, "Keep on giving alms. Let my father and mother sacrifice their lives for you (ladies)." So the ladies kept on putting their Fatkhs (big rings) and other kinds of rings in Bilal (RA) 's garment." Abdur-Razaq said, " 'Fatkhs' is a big ring which used to be worn in the (Pre-lslamic) period of ignorance.