باب: عیدگاہ میں عید کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد نفل نماز پڑھنا کیسا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: Salat before or after the Eid prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابومعلی یحییٰ بن میمون نے کہا کہ میں نے سعید سے سنا، وہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے تھے کہ آپ عید سے پہلے نفل نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے۔
989.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عیدالفطر کے دن باہر تشریف لے گئے۔ ہاں دو رکعت نماز عید پڑھی لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد کچھ نہیں پڑھا۔ آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ تھے۔
تشریح:
(1) عیدگاہ میں نماز عید سے پہلے اور نماز عید کے بعد نوافل پڑھنے مکروہ ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے عیدگاہ میں نوافل پڑھنا ثابت نہیں، البتہ گھر آ کر وہ نفل پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عید سے پہلے نوافل نہیں پڑھتے تھے، جب گھر واپس آ جاتے تو دو رکعت ادا کرتے۔ (سنن ابن ماجة، إقامةالصلوات، حدیث:1293) حاصل کلام یہ ہے کہ نماز عید سے پہلے اور نماز عید کے بعد اس کی کوئی سنتیں ثابت نہیں ہیں۔ (فتح الباري:614/2) (2) عیدگاہ میں صرف تین کام مشروع ہیں: ٭ نماز عید ٭ خطبۂ عید ٭ دعائے خیر۔ اسوۂ رسول ﷺ یہی ہے اور اس پر عمل کرنے میں اجروثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
975
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
989
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
989
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
989
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
ابو معلیٰ کا نام یحییٰ بن دینار العطار ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اس مقام پر ان کا ذکر کیا ہے۔ ان کا سعید بن جبیر سے سماع ثابت ہے۔ (عمدۃالقاری:5/211)
اور ابومعلی یحییٰ بن میمون نے کہا کہ میں نے سعید سے سنا، وہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے تھے کہ آپ عید سے پہلے نفل نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عیدالفطر کے دن باہر تشریف لے گئے۔ ہاں دو رکعت نماز عید پڑھی لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد کچھ نہیں پڑھا۔ آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عیدگاہ میں نماز عید سے پہلے اور نماز عید کے بعد نوافل پڑھنے مکروہ ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے عیدگاہ میں نوافل پڑھنا ثابت نہیں، البتہ گھر آ کر وہ نفل پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عید سے پہلے نوافل نہیں پڑھتے تھے، جب گھر واپس آ جاتے تو دو رکعت ادا کرتے۔ (سنن ابن ماجة، إقامةالصلوات، حدیث:1293) حاصل کلام یہ ہے کہ نماز عید سے پہلے اور نماز عید کے بعد اس کی کوئی سنتیں ثابت نہیں ہیں۔ (فتح الباري:614/2) (2) عیدگاہ میں صرف تین کام مشروع ہیں: ٭ نماز عید ٭ خطبۂ عید ٭ دعائے خیر۔ اسوۂ رسول ﷺ یہی ہے اور اس پر عمل کرنے میں اجروثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
ابو معلیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر کو حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کرتے ہوئے سنا، وہ عید سے پہلے نماز کو مکروہ خیال کرتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ ابن عباس ؓ سے بیان کر تے تھے کہ نبی کریم ﷺ عید الفطر کے دن نکلے اور (عید گاہ) میں دو رکعت نماز عید پڑھی۔ آپ نے نہ اس سے پہلے نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ آپ ﷺ کے ساتھ بلال ؓ بھی تھے۔
حدیث حاشیہ:
علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں: قَوْلُهُ: (لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا) فِيهِ وَفِي بَقِيَّةِ أَحَادِيثِ الْبَابِ دَلِيلٌ عَلَى كَرَاهَةِ الصَّلَاةِ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِيدِ وَبَعْدَهَا، وَإِلَى ذَلِكَ ذَهَبَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ ابْنُ قَدَامَةَ: وَهُوَ مَذْهَبُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ.(نیل الأوطار)یعنی اس حدیث اور اس بارے میں دیگر احادیث سے ثابت ہوا کہ عید کی نماز کے پہلے اور بعد نفل نماز پڑھنی مکروہ ہے۔ امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مسلک ہے اور بقول ابن قدامہ حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت علی وحضرت عبد اللہ بن مسعود اور بہت سے اکابر صحابہ وتابعین کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام زہری ؒ فرماتے ہیں: لم أسمع أحدا من علماء نا یذکر أن أحدا من سلف ھذہ الأمة کان یصلي قبل تلك الصلوة ولا بعدھا۔(نیل الأوطار)یعنی اپنے زمانہ کے علماءمیں میں نے کسی عالم سے نہیں سنا کہ سلف امت میں سے کوئی بھی عید سے پہلے یا بعد میں کوئی نفل نماز پڑھتا ہو۔ ہاں عید کی نماز پڑھ کر اور واپس گھر آکر گھر میں دو رکعت نفل پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ وہ فرماتے ہیں: عن النبي صلی اللہ علیه وسلم أنه کان لا یصلي قبل العید شیئا فإذا رجع إلی منزله صلی رکعتین رواہ ابن ماجة وأحمد بمعناہ۔یعنی آنحضرت ﷺ نے عید سے پہلے کوئی نماز نفل نہیں پڑھی جب آپ اپنے گھر واپس ہوئے تو آپ نے دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ اس کو ابن ماجہ اور احمد نے بھی اس کے قریب قریب روایت کیا ہے۔ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں: وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ أَخْرَجَهُ أَيْضًا الْحَاكِمُ وَصَحَّحَهُ، وَحَسَّنَهُ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ، وَفِي إسْنَادِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ وَفِيهِ مَقَالٌ. وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عِنْدَ ابْنِ مَاجَهْ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ الخز(نیل الأوطار)یعنی ابو سعید والی حدیث کو حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور اس کو صحیح بتلایا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی تحسین کی ہے اور اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ایک راوی ہے جن کے متعلق کچھ کہا گیا ہے اور اس مسئلہ میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی بھی ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کی مانند ہے۔ خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں صرف نماز عید اورخطبہ نیز دعا کرنا مسنون ہے عیدگاہ مزید نفل نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ تو وہ مقام ہے جس کی حاضری ہی اللہ کو اس قدر محبوب ہے کہ وہ اپنے بندوں اور بندیوں کو میدان عید گاہ میں دیکھ کر اس قدر خوش ہوتا ہے کہ جملہ حالات جاننے کے باوجود اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ یہ میرے بندے اور بندیاں آج یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ تیرے مزدور ہیں جنہوں نے رمضان میں تیرا فرض ادا کیا ہے، تیرے رضا کے لیے روزے رکھے ہیں اور اب میدان میں تجھ سے مزدوری مانگنے آئے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ اے فرشتو!گواہ رہو میں نے ان کو بخش دیا اور ان کے روزوں کو قبول کیا اور ان کی دعاؤں کو بھی شرف قبولیت تا قیامت عطا کیا۔ پھر اللہ کی طرف سے ندا ہوتی ہے کہ میرے بندو! جاؤ اس حال میں کہ تم بخش دیئے گئے ہو۔ خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں بجزدوگانہ عید کے کوئی نماز نفل نہ پڑھی جائے یہی اسوہ حسنہ ہے اور اسی میں اجروثواب ہے۔ واللہ أعلم وعلمه أتم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) went out and offered a two Rakat prayer on the Day of 'Id ul Fitr and did not offer any other prayer before or after it and at that time Bilal (RA) was accompanying him.