Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: What is said regarding the Witr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
992.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے ہاں رات بسر کی، فرماتے ہیں: میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ محترمہ اس کے طول میں محوِ استراحت ہوئے۔ آپ آدھی یا اس کے لگ بھگ رات تک سوئے رہے، پھر جب بیدار ہوئے تو چہرے پر ہاتھ پھیر کر نیند کے اثرات دور کیے۔ اس کے بعد آپ نے سورہ آل عمران کی دس آیات تلاوت فرمائیں، پھر آپ پانی سے بھری ہوئی آویزاں پرانی مشک کی طرف آئے، اس سے اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں بھی اسی طرح کرتا ہوا آپ کے پہلو میں جا کھڑا ہوا۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد دو رکعت، پھر دو رکعت، بعد ازاں دو رکعت، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں مزید ادا کیں، پھر وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے تاآنکہ آپ کے پاس مؤذن (نماز کی اطلاع دینے) آیا تو آپ کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں (سنت فجر) پڑھیں۔ پھر باہر تشریف لے گئے اور فجر کی نماز پڑھائی۔
تشریح:
(1) اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے تیرہ رکعات ادا کیں، چنانچہ دیگر روایات میں اس کی صراحت بھی ہے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث:6316) روایات میں یہ بھی وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے۔ (فتح الباري:623/2) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ دو رکعت کے بعد مسواک کرتے اور وضو فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1799 (763)) لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کی ان رکعات کو گیارہ بتایا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4569) یہ روایت شریک بن عبداللہ سے مروی ہے جنہوں نے حضرت کریب سے بیان کیا ہے جبکہ کریب کے باقی شاگرد تیرہ رکعات ہی بیان کرتے ہیں، اس بنا پر شریک کی روایت مرجوح ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے بھی صلاۃ اللیل کی تعداد تیرہ ہی مروی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کے متعلق متعدد روایات ہیں۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1720 (737)) اصل تعداد گیارہ رکعت ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ اللیل رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1147) (2) تیرہ رکعات کی چند ایک صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ رسول اللہ صلاۃ اللیل سے پہلے ہلکی سی دو رکعت بطور افتتاح پڑھتے تھے، پھر گیارہ رکعت پڑھتے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1366) ٭ وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے۔ انہیں شمار کر کے تیرہ رکعت ہوتی ہیں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1724 (738)) ٭ نماز صبح کی دو سنتوں کو شمار کر کے تیرہ رکعت بیان کی گئی ہیں۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1365) دراصل حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کرنے والے متعدد راوی ہیں، بعض تو تعداد کا ذکر نہیں کرتے، جنہوں نے تعداد بیان کی ہے وہ تیرہ سے زیادہ اور گیارہ سے کم بیان نہیں کرتے۔ (فتح الباري:624/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
978
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
992
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
992
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
992
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے ہاں رات بسر کی، فرماتے ہیں: میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ محترمہ اس کے طول میں محوِ استراحت ہوئے۔ آپ آدھی یا اس کے لگ بھگ رات تک سوئے رہے، پھر جب بیدار ہوئے تو چہرے پر ہاتھ پھیر کر نیند کے اثرات دور کیے۔ اس کے بعد آپ نے سورہ آل عمران کی دس آیات تلاوت فرمائیں، پھر آپ پانی سے بھری ہوئی آویزاں پرانی مشک کی طرف آئے، اس سے اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں بھی اسی طرح کرتا ہوا آپ کے پہلو میں جا کھڑا ہوا۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد دو رکعت، پھر دو رکعت، بعد ازاں دو رکعت، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں مزید ادا کیں، پھر وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے تاآنکہ آپ کے پاس مؤذن (نماز کی اطلاع دینے) آیا تو آپ کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں (سنت فجر) پڑھیں۔ پھر باہر تشریف لے گئے اور فجر کی نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے تیرہ رکعات ادا کیں، چنانچہ دیگر روایات میں اس کی صراحت بھی ہے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث:6316) روایات میں یہ بھی وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے۔ (فتح الباري:623/2) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ دو رکعت کے بعد مسواک کرتے اور وضو فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1799 (763)) لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کی ان رکعات کو گیارہ بتایا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4569) یہ روایت شریک بن عبداللہ سے مروی ہے جنہوں نے حضرت کریب سے بیان کیا ہے جبکہ کریب کے باقی شاگرد تیرہ رکعات ہی بیان کرتے ہیں، اس بنا پر شریک کی روایت مرجوح ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے بھی صلاۃ اللیل کی تعداد تیرہ ہی مروی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کے متعلق متعدد روایات ہیں۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1720 (737)) اصل تعداد گیارہ رکعت ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ اللیل رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1147) (2) تیرہ رکعات کی چند ایک صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ رسول اللہ صلاۃ اللیل سے پہلے ہلکی سی دو رکعت بطور افتتاح پڑھتے تھے، پھر گیارہ رکعت پڑھتے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1366) ٭ وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے۔ انہیں شمار کر کے تیرہ رکعت ہوتی ہیں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1724 (738)) ٭ نماز صبح کی دو سنتوں کو شمار کر کے تیرہ رکعت بیان کی گئی ہیں۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1365) دراصل حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کرنے والے متعدد راوی ہیں، بعض تو تعداد کا ذکر نہیں کرتے، جنہوں نے تعداد بیان کی ہے وہ تیرہ سے زیادہ اور گیارہ سے کم بیان نہیں کرتے۔ (فتح الباري:624/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے خبر دی کہ آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ ؓ کے یہاں سوئے (آپ ؓ نے کہا کہ) میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سرپر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
بعض محدثین نے لکھا ہے کہ چونکہ ابن عباس ؓ بچے تھے۔ اس لیے لا علمی کی وجہ سے بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔ آنحضور ﷺ نے آپ کا کان بائیں طرف سے دائیں طرف کرنے کے لیے پکڑا تھا۔ اس تفصیل کے ساتھ بھی روایتوں میں ذکر ہے۔ لیکن ایک دوسری روایت میں ہے کہ میرا کان پکڑ کر آپ ﷺ اس لیے ملنے لگے تھے تاکہ رات کی تاریکی میں آپ کے دست مبارک سے میں مانوس ہو جاؤں اور گھبراہٹ نہ ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں الگ ہیں۔ آپ نے ابن عباس ؓ کا کان بائیں سے دائیں طرف کرنے کے لیے بھی پکڑا تھا اور پھر تاریکی میں انہیں مانوس کرنے کے لیے آپ کا کان ملنے بھی لگے تھے۔ آپ کو آپ کے والد حضرت عباس ؓ نے آنحضور ﷺ کے گھر سونے کے لیے بھیجا تھا تاکہ آپ کی رات کے وقت کی عبادت کی تفصیل ایک عینی شاہد کے ذریعہ معلوم کریں، چونکہ آپ بچے تھے اور پھر آنحضور ﷺ کی ان کے یہاں سونے کی باری تھی۔ آپ بے تکلفی کے ساتھ چلے گئے اور وہیں رات بھر رہے۔ بچپنے کے باوجود انتہائی ذکی فہیم تھے۔ اس لیے ساری تفصیلات یادرکھیں (تفہیم البخاری) یہ نماز تہجد تھی جس میں آپ ﷺ نے دو دوکعت کرکے بارہ رکعت کی تکمیل فرمائی، پھر ایک رکعت وتر پڑھا۔ اس طرح آپ نے تہجد کی تیرہ رکعتیں ادا کیں مطابق بیان حضرت عائشہ ؓ آپ کی رات کی نماز گیارہ اور تیرہ سے کبھی زیادہ نہیں ہوئی۔ رمضان شریف میں اس کو تراویح کی شکل میں ادا کیا گیا، اس کی بھی ہمیشہ آٹھ رکعت سنت تین وتر یعنی کل گیارہ رکعات کا ثبوت ہے۔ جیسا کہ پارہ میں مفصل گزر چکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): Once I passed the night in the house of Maimuna (his aunt). I slept across the bed while Allah's Apostle (ﷺ) and his wife slept length-wise. The Prophet (ﷺ) slept till midnight or nearly so and woke up rubbing his face and recited ten verses from Surat "Aal-Imran." Allah's Apostle (ﷺ) went towards a leather skin and performed ablution in the most perfect way and then stood for the prayer. I did the same and stood beside him. The Prophet (ﷺ) put his right hand on my head, twisted my ear and then prayed two Rakat five times and then ended his prayer with Witr. He laid down till the Muadh-dhin came then he stood up and offered two Rakat (Sunna of Fajr prayer) and then went out and offered the Fajr prayer. (See Hadith No. 183, Vol. 1)