Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: What is said regarding the Witr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
993.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’نماز شب دو دو رکعت ہے۔ جب تو نماز ختم کرنے کا ارادہ کرے تو ایک رکعت پڑھ لے، یہ رکعت تیری سابقہ نماز کو وتر بنا دے گی۔‘‘ قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں: ہم نے جوان ہونے تک لوگوں کو دیکھا کہ وہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ یقینا (تین یا ایک) ہر ایک میں وسعت ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس میں چنداں حرج نہیں۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کا ایک طریق پہلے بیان کیا تھا کہ نماز شب دو دو رکعت ہے۔ اگر اضطراری حالت ہو کہ اسے صبح ہونے کا خدشہ لاحق ہو جائے تو ایک رکعت پڑھ کر سابقہ نماز کو وتر بنا لے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اضطراری حالت کے علاوہ بھی اپنے ارادہ و اختیار سے سابقہ ادا شدہ نماز کو ایک رکعت پڑھ کر وتر بنایا جا سکتا ہے۔ ثابت ہوا کہ اضطراری و اختیاری ہر دو صورتوں میں سابقہ ادا شدہ نماز کو ایک رکعت کے ذریعے وتر بنایا جا سکتا ہے۔ اور صرف ایک وتر پڑھنا بھی جائز ہے بایں طور کہ اس سے قبل کوئی دو دو رکعت ادا نہ کی گئی ہوں۔ (2) اس روایت کے آخر میں حضرت قاسم بن محمد کا ارشاد ذکر ہوا ہے، یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پوتے ہیں۔ بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ ان کے بیان کردہ موقف سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز وتر کے سلسلے میں ان کے ہاں تنگی نہیں ہے، یعنی تین اور ایک وتر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز وتر کی ایک رکعت پڑھنا جائز نہیں بلکہ منسوخ ہے، حالانکہ نماز وتر کی ایک رکعت پڑھنا صحیح ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1758(752)) اس کے علاوہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک وتر پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1718(738))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
979
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
993
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
993
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
993
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’نماز شب دو دو رکعت ہے۔ جب تو نماز ختم کرنے کا ارادہ کرے تو ایک رکعت پڑھ لے، یہ رکعت تیری سابقہ نماز کو وتر بنا دے گی۔‘‘ قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں: ہم نے جوان ہونے تک لوگوں کو دیکھا کہ وہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ یقینا (تین یا ایک) ہر ایک میں وسعت ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس میں چنداں حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کا ایک طریق پہلے بیان کیا تھا کہ نماز شب دو دو رکعت ہے۔ اگر اضطراری حالت ہو کہ اسے صبح ہونے کا خدشہ لاحق ہو جائے تو ایک رکعت پڑھ کر سابقہ نماز کو وتر بنا لے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اضطراری حالت کے علاوہ بھی اپنے ارادہ و اختیار سے سابقہ ادا شدہ نماز کو ایک رکعت پڑھ کر وتر بنایا جا سکتا ہے۔ ثابت ہوا کہ اضطراری و اختیاری ہر دو صورتوں میں سابقہ ادا شدہ نماز کو ایک رکعت کے ذریعے وتر بنایا جا سکتا ہے۔ اور صرف ایک وتر پڑھنا بھی جائز ہے بایں طور کہ اس سے قبل کوئی دو دو رکعت ادا نہ کی گئی ہوں۔ (2) اس روایت کے آخر میں حضرت قاسم بن محمد کا ارشاد ذکر ہوا ہے، یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پوتے ہیں۔ بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ ان کے بیان کردہ موقف سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز وتر کے سلسلے میں ان کے ہاں تنگی نہیں ہے، یعنی تین اور ایک وتر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز وتر کی ایک رکعت پڑھنا جائز نہیں بلکہ منسوخ ہے، حالانکہ نماز وتر کی ایک رکعت پڑھنا صحیح ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1758(752)) اس کے علاوہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک وتر پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1718(738))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبد الرحمن بن قاسم نے اپنے باپ قاسم سے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، رات کی نمازیں دو دو رکعتیں ہیں اور جب تو ختم کرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو ساری نماز کوطاق بنا دے گی۔ قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ ہم نے بہت سوں کو تین رکعت وتر پڑھتے بھی پایا ہے اور تین یا ایک سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
یہ قاسم حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پوتے تھے۔ بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ ان کے کلام سے اس شخص کی غلطی معلوم ہوگئی جو ایک رکعت وتر کو نا درست جا نتا ہے اور مجھ کو حیرت ہے کہ صحیح حدیثیں دیکھ کر پھر کوئی مسلمان یہ کیسے کہے گا کہ ایک رکعت وتر نا درست ہے۔ اس روایت سے گو عبد اللہ بن عمر کا تین رکعتیں وتر پڑھنا ثابت ہوتا ہے مگر حنفیہ کے لیے کچھ بھی مفید نہیں کیونکہ اس میں یہ نہیں ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ ہمیشہ وتر کی تین ہی رکعتیں پڑھتے۔ علاوہ بھی اس کے دو سلام سے تین رکعتیں وتر کی ثابت ہیں اور حنفیہ ایک سلام سے کہتے ہیں (مولانا وحیدی) یہی عبد اللہ بن عمر ؓ ہیں جن سے صحیح مسلم شریف ص 257 میں صراحتاً ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ عن عبد اللہ بن عمر ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الوتررکعة من آخر اللیل رواہ مسلم۔حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔ دوسری حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔عن أیوب رضي اللہ عنه قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الوتر حق علی کل مسلم ومن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل۔ ( رواہ ابو داؤد والنسائی او ابن ماجہ ) یعنی حضرت ابوایوب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وتر کی نماز حق ہے جو ہر مسلم کے لیے ضروری ہے اور جو چاہے پانچ رکعات وتر پڑھ لے اور جوچاہے تین رکعات اور جو چاہے ایک رکعت وتر ادا کر لے۔ اور بھی اس قسم کی کئی روایات مختلفہ کتب احادیث میں موجود ہیں۔ اسی لیے حضرت مولانا عبید اللہ شیخ الحدیث بذیل حدیث حضرت عائشہ صدیقہ لفظ :ویوتر بواحدة۔(آپ ایک رکعت وتر پڑھتے ) فرماتے ہیں: فیه أن أقل الوتر رکعة وأن الرکعة الفردة صلوة صحیحة وھو مذھب الأئمة الثلاثه وھو الحق وقال أبو حنیفة لا یصح الإیتار بواحدة فلا تکون الرکعة الواحدة صلوة قط قال النووي والأحادیث الصحیحة ترد علیه۔ (مرعاة ج:2ص:158) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے اور یہ کہ ایک رکعت پڑھنا بھی نماز صحیح ہے، ائمہ ثلاثہ کا یہی مذہب ہے اور یہی حق ہے ( ائمہ ثلاثہ سے حضرت امام شافعی، امام مالک، امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ مراد ہیں ) حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ ایک رکعت وتر صحیح نہیں، کیونکہ ایک رکعت نماز ہی نہیں ہوتی۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے حضرت امام کے اس قول کی تردید ہوتی ہے۔ وتر کے واجب فرض سنت ہونے کے متعلق بھی اختلاف ہے، اس بارے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں: والحق أن الوتر سنة ھو أوکد السنن بینه علی وابن عمر وعبادة ابن الصامت رضي اللہ عنهم۔اور حق یہ ہے کہ نماز وتر سنت ہے اور وہ سب سنتوں سے زیادہ مؤکد ہے۔ حضرت علی،حضرت عبد اللہ عمر، حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی بیان فرمایا ہے۔(حجة البالغة، ج:2ص :24) وتر تین رکعت پڑھنے کی صورت میں پہلی رکعت میں سورۃ ﴿سبح اسم ربك الأعلی﴾ اور دوسری میں ﴿قل یأیھا الکفرون﴾ اور تیسری میں ﴿قل ھو اللہ أحد﴾ پڑھنا مسنون ہے۔ وتر کے بعد بآواز بلند تین مرتبہ سبحان الملك القدوس کا لفظ ادا کرنا مسنون ہے۔ ایک رکعت وتر کے بارے میں مزید تفصیلات حضرت نواب صدیق حسن صاحب ؒ کی مشہور کتاب ھدایة السائل إلی أدلة المسائل مطبوعہ بھوپال، ص:255 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin ‘Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Night prayer is offered as two Rakat followed by two Rakat and so on, and if you want to finish it, pray only one Raka which will be Witr for all the previous Rakat." Al-Qasim said, "Since we attained the age of puberty we have seen some people offering a three-Rakat prayer as Witr and all that is permissible. I hope there will be no harm in it."