Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: The timing of the Salat-ul-Witr (Witr prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اور ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ` مجھے رسول اللہﷺنے یہ وصیت فرمائی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔
996.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصے میں نماز وتر ادا کی ہے، بالآخر آپ کی نماز وتر وقت سحر تک پہنچ گئی۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے مختلف حالات کے پیش نظر مختلف اوقات میں وتر ادا کیے ہیں، شاید تکلیف اور مرض کے وقت اول شب میں، بحالت سفر درمیان شب میں جبکہ عام معمول آخر شب میں پڑھنے کا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ؓ نے رات کے ہر حصے، یعنی اول شب، درمیان رات اور آخر شب میں وتر ادا کیے ہیں لیکن آخر کار ان کی ادائیگی وقت سحر تک پہنچ گئی۔ جامع الترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ جب آپ فوت ہوئے تو آخر شب نماز وتر پڑھا کرتے تھے۔ (جامع الترمذي، الوتر، حدیث:456) آخر شب سے مراد فجر اول ہے۔ جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت سے واضح ہوتا ہے۔ (فتح الباري:2/628،627) البتہ امت کی آسانی کے پیش نظر عشاء کے بعد جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔ (2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: حدیث عائشہ کے دو معنی ہیں: ٭ رسول اللہ ﷺ آخری عمر میں نماز وتر سحری کے وقت پڑھتے اور اسی پر آپ نے دوام کیا تاآنکہ آپ فوت ہو گئے، قبل ازیں نماز وتر عشاء کے بعد رات کے تمام حصوں میں پڑھنے کا معمول تھا۔ ٭ دوسری توجیہ یہ ہے کہ اوقات وتر کی آخری حد سحری تک ہے، اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
982
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
996
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
996
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
996
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،التھجد،حدیث:1178)
´اور ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ` مجھے رسول اللہﷺنے یہ وصیت فرمائی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصے میں نماز وتر ادا کی ہے، بالآخر آپ کی نماز وتر وقت سحر تک پہنچ گئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے مختلف حالات کے پیش نظر مختلف اوقات میں وتر ادا کیے ہیں، شاید تکلیف اور مرض کے وقت اول شب میں، بحالت سفر درمیان شب میں جبکہ عام معمول آخر شب میں پڑھنے کا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ؓ نے رات کے ہر حصے، یعنی اول شب، درمیان رات اور آخر شب میں وتر ادا کیے ہیں لیکن آخر کار ان کی ادائیگی وقت سحر تک پہنچ گئی۔ جامع الترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ جب آپ فوت ہوئے تو آخر شب نماز وتر پڑھا کرتے تھے۔ (جامع الترمذي، الوتر، حدیث:456) آخر شب سے مراد فجر اول ہے۔ جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت سے واضح ہوتا ہے۔ (فتح الباري:2/628،627) البتہ امت کی آسانی کے پیش نظر عشاء کے بعد جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔ (2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: حدیث عائشہ کے دو معنی ہیں: ٭ رسول اللہ ﷺ آخری عمر میں نماز وتر سحری کے وقت پڑھتے اور اسی پر آپ نے دوام کیا تاآنکہ آپ فوت ہو گئے، قبل ازیں نماز وتر عشاء کے بعد رات کے تمام حصوں میں پڑھنے کا معمول تھا۔ ٭ دوسری توجیہ یہ ہے کہ اوقات وتر کی آخری حد سحری تک ہے، اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کروں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے مسلم بن کیسان نے بیان کیا، ان سے مسروق نے، ان سے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصہ میں بھی وتر پڑھی ہے اور اخیر میں آپ کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایتوں میں ہے کہ آپ نے وتر اول شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی اور آخر شب میں بھی۔ گویا عشاءکے بعد سے صبح صادق کے پہلے تک وتر پڑھنا آپ سے ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مختلف حالات میں آپ نے وتر مختلف اوقات میں پڑھے۔ غالباً تکلیف اور مرض وغیرہ میں اول شب میں پڑھتے تھے اور مسافرت کی حالت میں درمیان شب میں لیکن عام معمول آپ کا اسے آخر شب ہی میں پڑھنے کا تھا (تفہیم البخاری) رسول اللہ ﷺ نے امت کی آسانی کے لیے عشاء کے بعد رات میں جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) offered Witr prayer at different nights at various hours extending (from the 'Isha' prayer) up to the last hour of the night.