باب: اس بیان میں کہ حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے!
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: (What is said as regards): To be shy (Al-Haya) while learning (religious) knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مجاہد کہتے ہیں کہ متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل نہیں کر سکتا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کا ارشاد ہے کہ انصار کی عورتیں اچھی عورتیں ہیں کہ شرم انھیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی۔متکبر اپنے تکبر کی حماقت میں مبتلا ہے جو کسی سے تحصیل علم اپنی کسرشان سمجھتا ہے اور شرم کرنے والا اپنی کم عقلی سے ایسی جگہ حیادار بن رہا ہے، جہاں حیا وشرم کا کوئی مقام نہیں۔
127.
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، ام سلیم ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا، کیا عورت کو احتلام ہو تو اسے غسل کرنا چاہئے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں جبکہ (اپنے کپڑے پر) پانی دیکھے۔‘‘ ام سلمہ ؓ نے (شرم سے) اپنا منہ چھپا لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں تیرا ہاتھ خاک آلود ہو، پھر بچے کی صورت ماں سے کیوں کر ملتی ہے؟‘‘
تشریح:
1۔ اخلاقیات کے باب میں حیا ایک قابل تعریف وصف ہے۔ احادیث میں اسے ایمان کا شعبہ قراردیا گیا ہے، نیز یہ کل خیرو برکت ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 157(37)) اس کے نتائج بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات انسان اچھی چیز کا استعمال غلط کرتا ہے اور استعمال کی غلطی برے نتائج پیدا کردیتی ہے۔ مثلاً: حیا کو بہانہ بنا کر بعض اوقات علم سے محروم رہتا ہے، اس لیے حیا کا دامن تھامتے ہوئے سوال کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بے حیا بن کر سوال نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا اثر ابو نعیم نے الحلیۃ (3/328) میں موصولاً ذکر کیا اور اس کا مطلب ہے کہ حیا کو بطور بہانہ استعمال کرنے والا علم سے محروم رہتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حیا اور طلب علم دونوں برقرار رہنے چاہئیں۔ انصار کی عورتیں اسی طرز عمل کو اپنائے ہوئے تھیں۔ یعنی حیا کا دامن بھی برقرار اور علم کا حصول بھی اپنی جگہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حدیث صحیح مسلم وغیرہ میں موصولاً مروی ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 748(332)) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حیا طالب علم کے لیے محرومی علم کا سبب نہیں بننی چاہیے نیز شرم پر مبنی مسائل دریافت کرنے میں حیا داری کو برقراررکھنا چاہیے گویا حیا بھی باقی رہے اور مقصد برآری بھی ہو جائے۔ 2۔ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اندر حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ حیا تھی کہ انھوں نے مارے شرم کے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ جب عورت کو یہ حالت پیش آجائے تو یہ تقوی اور دینداری کے خلاف تو نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکمل حیاداری کو برقرار رکھتے ہوئے جواب دیا کہ عورت اور مرد کے اندر اللہ تعالیٰ نے جوہر رکھا ہے، اس کے اشتراک سے اولاد ہوتی ہے اور اولاد ماں پر باپ پر یا دونوں پر جاتی ہے۔ بے شمار بچے ایسے ہوتے ہیں جو رنگ ماں کا رکھتے ہیں لیکن حلیہ باپ کا ہو تا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوا کہ احتلام ہونا ایک فطری حالت ہے تقوی اور دینداری کے خلاف نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
132
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
130
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
130
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
130
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
مجاہد کہتے ہیں کہ متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل نہیں کر سکتا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کا ارشاد ہے کہ انصار کی عورتیں اچھی عورتیں ہیں کہ شرم انھیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی۔متکبر اپنے تکبر کی حماقت میں مبتلا ہے جو کسی سے تحصیل علم اپنی کسرشان سمجھتا ہے اور شرم کرنے والا اپنی کم عقلی سے ایسی جگہ حیادار بن رہا ہے، جہاں حیا وشرم کا کوئی مقام نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، ام سلیم ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا، کیا عورت کو احتلام ہو تو اسے غسل کرنا چاہئے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں جبکہ (اپنے کپڑے پر) پانی دیکھے۔‘‘ ام سلمہ ؓ نے (شرم سے) اپنا منہ چھپا لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں تیرا ہاتھ خاک آلود ہو، پھر بچے کی صورت ماں سے کیوں کر ملتی ہے؟‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اخلاقیات کے باب میں حیا ایک قابل تعریف وصف ہے۔ احادیث میں اسے ایمان کا شعبہ قراردیا گیا ہے، نیز یہ کل خیرو برکت ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 157(37)) اس کے نتائج بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات انسان اچھی چیز کا استعمال غلط کرتا ہے اور استعمال کی غلطی برے نتائج پیدا کردیتی ہے۔ مثلاً: حیا کو بہانہ بنا کر بعض اوقات علم سے محروم رہتا ہے، اس لیے حیا کا دامن تھامتے ہوئے سوال کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بے حیا بن کر سوال نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا اثر ابو نعیم نے الحلیۃ (3/328) میں موصولاً ذکر کیا اور اس کا مطلب ہے کہ حیا کو بطور بہانہ استعمال کرنے والا علم سے محروم رہتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حیا اور طلب علم دونوں برقرار رہنے چاہئیں۔ انصار کی عورتیں اسی طرز عمل کو اپنائے ہوئے تھیں۔ یعنی حیا کا دامن بھی برقرار اور علم کا حصول بھی اپنی جگہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حدیث صحیح مسلم وغیرہ میں موصولاً مروی ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 748(332)) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حیا طالب علم کے لیے محرومی علم کا سبب نہیں بننی چاہیے نیز شرم پر مبنی مسائل دریافت کرنے میں حیا داری کو برقراررکھنا چاہیے گویا حیا بھی باقی رہے اور مقصد برآری بھی ہو جائے۔ 2۔ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اندر حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ حیا تھی کہ انھوں نے مارے شرم کے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ جب عورت کو یہ حالت پیش آجائے تو یہ تقوی اور دینداری کے خلاف تو نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکمل حیاداری کو برقرار رکھتے ہوئے جواب دیا کہ عورت اور مرد کے اندر اللہ تعالیٰ نے جوہر رکھا ہے، اس کے اشتراک سے اولاد ہوتی ہے اور اولاد ماں پر باپ پر یا دونوں پر جاتی ہے۔ بے شمار بچے ایسے ہوتے ہیں جو رنگ ماں کا رکھتے ہیں لیکن حلیہ باپ کا ہو تا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوا کہ احتلام ہونا ایک فطری حالت ہے تقوی اور دینداری کے خلاف نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت مجاہد کہتے ہیں: حیا کرنے والا اور تکبر کرنے والا علم حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: انصار کی عورتیں کیا خوب ہیں، انہیں دین میں سمجھ حاصل کرنے میں شرم دامن گیر نہیں ہوتی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے ہشام نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے زینب بنت ام سلمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ (اپنی والدہ) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت کرتی ہیں کہ ام سلیم (نامی ایک عورت) رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا (اس لیے میں پوچھتی ہوں کہ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (ہاں) جب عورت پانی دیکھ لے۔ (یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو) تو (یہ سن کر) حضرت ام سلمہ ؓ نے (شرم کی وجہ سے) اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا، یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا، ہاں! تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کے مشابہ ہوتا ہے (یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے)۔
حدیث حاشیہ:
انصار کی عورتیں ان مخصوص مسائل کے دریافت کرنے میں کسی قسم کی شرم سے کام نہیں لیتی تھیں، جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مسائل کو وضاحت کے ساتھ دریافت نہ کرتیں توآج مسلمان عورتوں کو اپنی زندگی کے اس گوشے کے لیے رہنمائی کہاں سے ملتی، اسی طرح مذکورہ حدیث میں حضرت ام سلیم نے نہایت خوب صورتی کے ساتھ پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت خاص بیان فرمائی کہ وہ حق بات کے بیان میں نہیں شرماتا، پھر وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے تعلق رکھتا ہے، مگرمسئلہ ہونے کی حیثیت میں اپنی جگہ دریافت طلب تھا، پس پوری امت پر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا احسان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی زندگی سے متعلق بھی وہ باتیں کھول کر بیان فرما دیں جنھیں عام طور پر لوگ بے جا شرم کے سہارے بیان نہیں کرتے اور دوسری طرف صحابیہ عورتوں کی بھی یہ امت بے حد ممنون ہے کہ انھوں نے آپ سے سب مسائل دریافت کر ڈالے، جن کی ہرعورت کو ضرورت پیش آتی ہے۔ حضرت زینب بنت عبداللہ بن الاسد مخزومی اپنے زمانہ کی بڑی فاضلہ عالمہ خاتون تھیں، ان کی والدہ ماجدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند عبداللہ کی وفات بعد غزوۂ احد کے عدت گزارنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے مشرف ہوئیں توان کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس ہوئی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اسلام میں پہلی خاتون ہیں جنھوں نے مدینہ طیبہ کو ہجرت کی، ان کے خاوند ابوسلمہ بدر میں شریک تھے، احد میں یہ مجروح ہوئے اور بعد میں وفات پائی، جن کے جنازے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نو تکبیروں سے نماز جنازہ ادا فرمائی تھی، اس وقت ام سلمہ حاملہ تھیں۔ وضع حمل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں ان کو شرف حاصل ہوا۔ حضرت ام سلیم حضرت انس کی والدہ محترمہ ہیں اور حضرت ابو طلحہ انصاری کی زوجہ مطہرہ ہیں، اسلام میں ان کا بھی بڑا اونچا مقام ہے رضی اللہ عنہم اجمعین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA): Um-Sulaim came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "Verily, Allah is not shy of (telling you) the truth. Is it necessary for a woman to take a bath after she has a wet dream (nocturnal sexual discharge?) The Prophet (ﷺ) replied, "Yes, if she notices a discharge." Um Salama, then covered her face and asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Does a woman get a discharge?" He replied, "Yes, let your right hand be in dust (An Arabic expression you say to a person when you contradict his statement meaning "you will not achieve goodness"), and that is why the son resembles his mother."