باب: اس بارے میں کہ (گندگی پاک کرنے کے بعد) ہاتھ مٹی سے ملنا تاکہ وہ خوب صاف ہو جائیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: The rubbing of hands with earth in ore to clean them thoroughly)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
252.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت میمونہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے بایں طور غسل جنابت کیا کہ پہلے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے دھویا، پھر ہاتھ کو دیوار سے رگڑا اور اسے دھویا، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا۔ اور جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو اچھی طرح دھونے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے۔ حالانکہ یہ بات پہلے باب میں معلوم ہو چکی تھی۔ یہ تکرار نہیں، کیونکہ پہلے باب میں ہاتھ کو مٹی پر رگڑنے اور یہاں دیوار پر مارنے کا ذکر ہے، ان دونوں میں فرق ہے۔ (عمدة القاري:27/3) اس کے علاوہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اپنے مختلف شیوخ کے استنباط و استخراج کی طرف اشارہ فرمایا ہے، مثلاً:عبد اللہ بن زبیر حمیدی نے مسح الید بالتراب ثابت کرنے کے لیے حدیث میمونہ کو بیان کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے امام بخاری ؒ کے استاد عمر بن حفص بن غیاث نے اس حدیث سے مضمضة اور استنشاق کا استخراج کیا تھا۔ لہٰذا دونوں روایات کو ایک دوسرے سے قوت و تائید بھی حاصل ہوگئی۔ (شرح الکرماني:123/1) 2۔ مام بخاری ؒ کے علاوہ امام ابو داؤد ؒ نے بھی حدیث میمونہ پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: "استنجاء سے فراغت کے بعد آدمی کا اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑنے کا بیان" فرق صرف اتنا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اسے کتاب الغسل میں بیان کیا ہے، جبکہ امام ابو داود ؒ نے کتاب الطهارة میں ذکر کیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عناوین کی دو قسمیں ہیں: * عنوان ایک دعوی کی قبیل سے ہوتا ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث اس دعوی کی دلیل ہوتی ہے. صحیح بخاری کے بیشتر عنوان اسی قسم سے متعلق ہیں۔ * عنوان بعد میں آنے والی حدیث کی شرح اور وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔ مذکورہ عنوان اسی قسم سے ہے، کیونکہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے استنجے سے فراغت كے بعد اپنے ہاتھ کو دیوار پر رگڑا۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضاحت کردی کہ ہاتھ کو دیوار پر رگڑنے سے مقصود صفائی کا حصول تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اس مقام پر ایک اختلاف کی طرف اشارہ کر کے اپنا رجحان بیان کررہے ہیں، اختلاف یہ ہے کہ ہاتھ کو زمین پر رگڑنے سے مقصود حصول نظافت ہے يا حصول طہارت ؟ اس اختلاف کی بنیاد ایک دوسرے نظریاتی اختلاف پر ہے، وہ اس طرح کہ بعض حضرات کے نزدیک استنجا کرنے کے بعد جس بد بو کو دور کرنے کے لیے ہاتھوں کو زمین پر رگڑ اجاتا ہے، وہ درحقیقت نجاست کے ان اجزاء کو دور کرنے کے لیے ہے جو نظر نہیں آتے، لیکن ہاتھ میں تحلیل ہو جاتے ہیں، یہ حضرات اپنے اس موقف کی تائید میں کہتے ہیں کہ خروج ریح سے وضو اسی لیے ٹوٹتا ہے کہ نجاست کے اجزا ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جن کے خروج سے طہارت ساقط ہو جاتی ہے، ان کے نزدیک استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو مٹی سے رگڑنا ضروری ہے تاکہ نجس اجزا سے طہارت ہو جائے، جبکہ دوسرے حضرات کا موقف ہے کہ ہوا میں نجاست کے اجزا نہیں ہوتے بلکہ ان کے قریب سے ہوا کے گزرنے کی بنا پر اس میں بوکی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، ان ہوائی کیفیات کا زائل کرنا ضروری نہیں، بلکہ حصول نظافت کے لیے یہ عمل کیا جا تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر گیلے کپڑے پر بدبو دار ہوا گزر ے تو اس سے کپڑا نجس نہیں ہوتا، اگر اس ہوا میں نجاست آلود اجزاء ہوتے تو اس گندی ہوا کے گزرنے سے کپڑا پلید ہونا چاہیے تھا۔ باقی رہا خروج ریح سے نقض طہارت کا مسئلہ تو یہ شریعت کے ایک منصوص حکم کی وجہ سے ہے۔ وہ اس لیے نہیں کہ نجاست کے اجزاء اس ہوا میں شامل ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کی ہوا ناقض وضو ہے، خواہ اس سے بدبو آئے یا نہ آئے، اس لیے ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس اختلاف پر تنبیہ فرمائی ہواور اس امر کو ترجیح دی ہو کہ ہاتھ کو مٹی پر رگڑ کر دھونا طہارت کے لیے نہیں بلکہ نظافت کے لیے ہے، تاکہ ازالہ عین نجاست کے بعد جو بدبو کے اثرات باقی رہ گئے ہیں انھیں بھی دور کردیا جائے، کیونکہ ان کی موجود گی باقی اعضائے جسم دھونے کے لیے نفرت کا باعث ہے۔ (فتح الباري:483/1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل جنابت کیا تو اپنی شرمگاہ کو دھویا (فغسل فرجه) کی ’’فا‘‘ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہاں ’’فا‘‘ تعقیب کے لیے نہیں، بلکہ تفسیر کے لیے ہے، کیونکہ استنجا غسل سے فراغت کے بعد نہیں ہوا۔ (عمدة القاري:27/3) دراصل یہ’’فا‘‘ عاطفہ ہے جو بیان ترتیب کے لیے استعمال ہوئی ہے اور حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل فرمایا تو اپنے غسل کی ترتیب اس طرح فرمائی کہ پہلے غسل فرج کیا، پھر ہاتھ کو مٹی پر رگڑ کر دھویا، پھر وضو فرمایا، بعد ازیں غسل فرما کر اپنے پاؤں وہاں سے الگ ہو کردھوئے۔(شرح الکرماني:123/1) علامہ کرمانی ؒ نے لکھا ہے کہ ’’فا‘‘ تفصیل کے لیے ہے، کیونکہ غسل کے اجمال کو اس’’فا‘‘ کے بعد تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ہمیشہ تفصیل اجمال کے بعد ہوتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
262
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
260
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
260
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
260
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت میمونہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے بایں طور غسل جنابت کیا کہ پہلے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے دھویا، پھر ہاتھ کو دیوار سے رگڑا اور اسے دھویا، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا۔ اور جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو اچھی طرح دھونے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے۔ حالانکہ یہ بات پہلے باب میں معلوم ہو چکی تھی۔ یہ تکرار نہیں، کیونکہ پہلے باب میں ہاتھ کو مٹی پر رگڑنے اور یہاں دیوار پر مارنے کا ذکر ہے، ان دونوں میں فرق ہے۔ (عمدة القاري:27/3) اس کے علاوہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اپنے مختلف شیوخ کے استنباط و استخراج کی طرف اشارہ فرمایا ہے، مثلاً:عبد اللہ بن زبیر حمیدی نے مسح الید بالتراب ثابت کرنے کے لیے حدیث میمونہ کو بیان کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے امام بخاری ؒ کے استاد عمر بن حفص بن غیاث نے اس حدیث سے مضمضة اور استنشاق کا استخراج کیا تھا۔ لہٰذا دونوں روایات کو ایک دوسرے سے قوت و تائید بھی حاصل ہوگئی۔ (شرح الکرماني:123/1) 2۔ مام بخاری ؒ کے علاوہ امام ابو داؤد ؒ نے بھی حدیث میمونہ پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: "استنجاء سے فراغت کے بعد آدمی کا اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑنے کا بیان" فرق صرف اتنا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اسے کتاب الغسل میں بیان کیا ہے، جبکہ امام ابو داود ؒ نے کتاب الطهارة میں ذکر کیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عناوین کی دو قسمیں ہیں: * عنوان ایک دعوی کی قبیل سے ہوتا ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث اس دعوی کی دلیل ہوتی ہے. صحیح بخاری کے بیشتر عنوان اسی قسم سے متعلق ہیں۔ * عنوان بعد میں آنے والی حدیث کی شرح اور وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔ مذکورہ عنوان اسی قسم سے ہے، کیونکہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے استنجے سے فراغت كے بعد اپنے ہاتھ کو دیوار پر رگڑا۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضاحت کردی کہ ہاتھ کو دیوار پر رگڑنے سے مقصود صفائی کا حصول تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اس مقام پر ایک اختلاف کی طرف اشارہ کر کے اپنا رجحان بیان کررہے ہیں، اختلاف یہ ہے کہ ہاتھ کو زمین پر رگڑنے سے مقصود حصول نظافت ہے يا حصول طہارت ؟ اس اختلاف کی بنیاد ایک دوسرے نظریاتی اختلاف پر ہے، وہ اس طرح کہ بعض حضرات کے نزدیک استنجا کرنے کے بعد جس بد بو کو دور کرنے کے لیے ہاتھوں کو زمین پر رگڑ اجاتا ہے، وہ درحقیقت نجاست کے ان اجزاء کو دور کرنے کے لیے ہے جو نظر نہیں آتے، لیکن ہاتھ میں تحلیل ہو جاتے ہیں، یہ حضرات اپنے اس موقف کی تائید میں کہتے ہیں کہ خروج ریح سے وضو اسی لیے ٹوٹتا ہے کہ نجاست کے اجزا ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جن کے خروج سے طہارت ساقط ہو جاتی ہے، ان کے نزدیک استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو مٹی سے رگڑنا ضروری ہے تاکہ نجس اجزا سے طہارت ہو جائے، جبکہ دوسرے حضرات کا موقف ہے کہ ہوا میں نجاست کے اجزا نہیں ہوتے بلکہ ان کے قریب سے ہوا کے گزرنے کی بنا پر اس میں بوکی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، ان ہوائی کیفیات کا زائل کرنا ضروری نہیں، بلکہ حصول نظافت کے لیے یہ عمل کیا جا تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر گیلے کپڑے پر بدبو دار ہوا گزر ے تو اس سے کپڑا نجس نہیں ہوتا، اگر اس ہوا میں نجاست آلود اجزاء ہوتے تو اس گندی ہوا کے گزرنے سے کپڑا پلید ہونا چاہیے تھا۔ باقی رہا خروج ریح سے نقض طہارت کا مسئلہ تو یہ شریعت کے ایک منصوص حکم کی وجہ سے ہے۔ وہ اس لیے نہیں کہ نجاست کے اجزاء اس ہوا میں شامل ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کی ہوا ناقض وضو ہے، خواہ اس سے بدبو آئے یا نہ آئے، اس لیے ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس اختلاف پر تنبیہ فرمائی ہواور اس امر کو ترجیح دی ہو کہ ہاتھ کو مٹی پر رگڑ کر دھونا طہارت کے لیے نہیں بلکہ نظافت کے لیے ہے، تاکہ ازالہ عین نجاست کے بعد جو بدبو کے اثرات باقی رہ گئے ہیں انھیں بھی دور کردیا جائے، کیونکہ ان کی موجود گی باقی اعضائے جسم دھونے کے لیے نفرت کا باعث ہے۔ (فتح الباري:483/1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل جنابت کیا تو اپنی شرمگاہ کو دھویا (فغسل فرجه) کی ’’فا‘‘ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہاں ’’فا‘‘ تعقیب کے لیے نہیں، بلکہ تفسیر کے لیے ہے، کیونکہ استنجا غسل سے فراغت کے بعد نہیں ہوا۔ (عمدة القاري:27/3) دراصل یہ’’فا‘‘ عاطفہ ہے جو بیان ترتیب کے لیے استعمال ہوئی ہے اور حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل فرمایا تو اپنے غسل کی ترتیب اس طرح فرمائی کہ پہلے غسل فرج کیا، پھر ہاتھ کو مٹی پر رگڑ کر دھویا، پھر وضو فرمایا، بعد ازیں غسل فرما کر اپنے پاؤں وہاں سے الگ ہو کردھوئے۔(شرح الکرماني:123/1) علامہ کرمانی ؒ نے لکھا ہے کہ ’’فا‘‘ تفصیل کے لیے ہے، کیونکہ غسل کے اجمال کو اس’’فا‘‘ کے بعد تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ہمیشہ تفصیل اجمال کے بعد ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا سالم بن ابی الجعد کے واسطہ سے، انھوں نے کریب سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے، انھوں نے حضرت میمونہ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے غسل جنابت کیا تو پہلے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے دھویا۔ پھر ہاتھ کو دیوار پر رگڑ کر دھویا۔ پھر نماز کی طرح وضو کیا اور جب آپ اپنے غسل سے فارغ ہو گئے تو دونوں پاؤں دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے، مگر یہاں دوسری سند سے مروی ہے۔ حضرت امام ؒ ایک ہی حدیث کو کئی بار مختلف مسائل نکالنے کے لیے بیان کرتے ہیں، مگرجداجدا اسنادوں سے تاکہ تکرار بے فائدہ نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA): The Prophet (ﷺ) took the bath of Janaba. (sexual relation or wet dream). He first cleaned his private parts with his hand, and then rubbed it(that hand) on the wall (earth) and washed it. Then he performed ablution like that for the prayer, and after the bath he washed his feet.