باب : عورتوں کا جنگ کرنا اور مردوں کے ساتھ لڑائی میں شرکت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The Jihad of women and their fighting along with men)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2667.
حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب احد کی جنگ ہوئی تو کچھ لوگ شکست خوردہ ہوکر نبی کریم ﷺ سے جدا ہوگئے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ بنت ابن بکر اور حضرت ام سلیم ؓ کو دیکھا کہ یہ اپنے ازار سمیٹے ہوئے تھیں۔ میں ان کی پنڈلیوں کے پازیب دیکھ رہا تھا، وہ پانی کے مشکیزے بھر کر لاتیں۔ حضرت انس ؓ کے علاوہ دوسروں کا بیان ہے کہ وہ اپنی کمر پر پانی کے مشکیزے اٹھا کر لاتیں، پھر انھیں مجاہدین کے مونہوں میں ڈالتی تھیں، پھر واپس آتیں اور مشکیزے بھر کر لے جاتیں، پھر آکر لوگوں کے مونہوں میں پانی ڈالتی تھیں۔
تشریح:
1۔زندہ قوموں کی عورتوں میں بھی جذبہ آزادی بدرجہ اتم موجودہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ میدان جنگ میں بھی ایسے نمایاں کار نامے کر گزرتی ہیں کہ انھیں دیکھ کر دوسری قومیں حیرت زدہ ہو جاتی ہیں چنانچہ غزوہ اُحد میں خواتین اسلام نے ایسے کار نامے دکھائے جو آئندہ عورتوں کے لیے قابل تقلید نمونہ بن گئے۔وہ مدینہ طیبہ سے اپنے کندھوں پر مشکیزے اٹھا کر لاتیں اور زخموں سے چور مجاہدین کے مونہوں میں پانی ڈالتیں۔دوسری روایات میں ہے کہ کچھ خواتین زخمی مجاہدین کی مراہم پٹی کرنے پر مامور تھیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد و السیر، حدیث 1775)خواتین کے یہ کام لڑائی کے حکم میں تھے نیز یہ عورتیں اپنا دفاع بھی کرتی تھیں۔ اسے خواتین کے لیے قتال کا درجہ دیا گیا ۔ 2۔بہر حال خواتین کا جہاد کے لیے نکلنا جائز ہے تو ان کے لیے قتال بھی۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب احد کی جنگ ہوئی تو کچھ لوگ شکست خوردہ ہوکر نبی کریم ﷺ سے جدا ہوگئے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ بنت ابن بکر اور حضرت ام سلیم ؓ کو دیکھا کہ یہ اپنے ازار سمیٹے ہوئے تھیں۔ میں ان کی پنڈلیوں کے پازیب دیکھ رہا تھا، وہ پانی کے مشکیزے بھر کر لاتیں۔ حضرت انس ؓ کے علاوہ دوسروں کا بیان ہے کہ وہ اپنی کمر پر پانی کے مشکیزے اٹھا کر لاتیں، پھر انھیں مجاہدین کے مونہوں میں ڈالتی تھیں، پھر واپس آتیں اور مشکیزے بھر کر لے جاتیں، پھر آکر لوگوں کے مونہوں میں پانی ڈالتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔زندہ قوموں کی عورتوں میں بھی جذبہ آزادی بدرجہ اتم موجودہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ میدان جنگ میں بھی ایسے نمایاں کار نامے کر گزرتی ہیں کہ انھیں دیکھ کر دوسری قومیں حیرت زدہ ہو جاتی ہیں چنانچہ غزوہ اُحد میں خواتین اسلام نے ایسے کار نامے دکھائے جو آئندہ عورتوں کے لیے قابل تقلید نمونہ بن گئے۔وہ مدینہ طیبہ سے اپنے کندھوں پر مشکیزے اٹھا کر لاتیں اور زخموں سے چور مجاہدین کے مونہوں میں پانی ڈالتیں۔دوسری روایات میں ہے کہ کچھ خواتین زخمی مجاہدین کی مراہم پٹی کرنے پر مامور تھیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد و السیر، حدیث 1775)خواتین کے یہ کام لڑائی کے حکم میں تھے نیز یہ عورتیں اپنا دفاع بھی کرتی تھیں۔ اسے خواتین کے لیے قتال کا درجہ دیا گیا ۔ 2۔بہر حال خواتین کا جہاد کے لیے نکلنا جائز ہے تو ان کے لیے قتال بھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقع پر مسلمان نبی کریم ﷺ کے پاس سے جدا ہوگئے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم ؓ (انس ؓ کی والدہ) کو دیکھا کہ یہ اپنے ازار سمیٹے ہوئے تھیں اور (تیز چلنے کی وجہ سے) پانی کے مشکیزے چھلکاتی ہوئی لیے جارہی تھیں اور ابو معمر کے علاوہ جعفر بن مہران نے بیان کیا کہ مشکیزے کو اپنی پشت پر ادھر سے ادھر جلدی جلدی لیے پھرتی تھیں اور قوم کو اس میں سے پانی پلاتی تھیں، پھر واپس آتی تھیں اور مشکیزوں کو بھر کر لے جاتی تھیں اور قوم کو پانی پلاتی تھیں، میں ان کے پاؤں کی پازیبیں دیکھ رہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
زندہ قوموں کی عورتوں میں بھی جذبہ آزادی بدرجۂ اتم موجود ہوتا ہے جس کے سہارے وہ بعض دفعہ میدان جنگ میں ایسے کارہائے نمایاں کر گزرتی ہیں کہ ان کو دیکھ کر ساری دنیا حیرت زدہ ہو جاتی ہے جیسا کہ آج کل یہودیوں کے خلاف مجاہدین فلسطین بہت سے مسلمانوں کے مجاہدانہ کارناموں کی شہرت ہے۔ حضرت ام سلیم مشہور صحابیہ ملحان کی بیٹی ہیں جو مالک بن نضر کے نکاح میں تھیں۔ ان ہی کے بطن سے مشہور صحابی حضرت انسؓ پیدا ہوئے۔ مالک بن نضر حالت کفر ہی میں وفات پاگئے تھے۔ بعد میں ان کا نکاح ابو طلحہ سے ہوا۔ ان سے بہت سے صحابہ نے احادیث روایت کی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): On the day (of the battle) of Uhad when (some) people retreated and left the Prophet, I saw 'Aisha bint Abu Bakr (RA) and Um Sulaim, with their robes tucked up so that the bangles around their ankles were visible hurrying with their water skins (in another narration it is said, "carrying the water skins on their backs"). Then they would pour the water in the mouths of the people, and return to fill the water skins again and came back again to pour water in the mouths of the people.