صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
32. قبلے کے متعلق کیا منقول ہے، اور جس نے یہ کہا کہ اگر کوئی بھول سے قبلہ کے علاوہ کسی دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس پر نماز کا لوٹانا واجب نہیں ہے۔
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
32. Chapter: What has been said about (facing) the Qiblah (Kabah at Makkah) and wherever considered that there was no need to repeat the Salat (prayer) if someone offered prayers by mistake facing a direction other than that of the Qiblah
قبلے کے متعلق کیا منقول ہے، اور جس نے یہ کہا کہ اگر کوئی بھول سے قبلہ کے علاوہ کسی دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس پر نماز کا لوٹانا واجب نہیں ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: What has been said about (facing) the Qiblah (Kabah at Makkah) and wherever considered that there was no need to repeat the Salat (prayer) if someone offered prayers by mistake facing a direction other than that of the Qiblah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ظہر کی دو رکعت کے بعد ہی سلام پھیر دیا۔ اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو گئے، پھر ( یاد دلانے پر ) باقی نماز پوری کی۔تشریح : یہ ایک حدیث کا حصہ ( ٹکڑا ) ہے جسے خود حضرت امام بخاری نے روایت کیاہے۔ مگراس میں آپ کا لوگوں کی طرف منہ کرنے کا ذکرنہیں ہے اوریہ فقرہ مؤطا امام مالک کی روایت میں ہے۔ اس حدیث سے ترجمہ باب اس طرح نکلا کہ جب آپ نے بھولے سے لوگوں کی طرف منہ کرلیا تو قبلہ کی طرف آپ کی پیٹھ ہوگئی، باوجود اس کے آپ نے نماز کو نئے سرے سے نہیں لوٹایا بلکہ جو باقی رہ گئی تھی اتنی ہی پڑھی۔
388.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک آنے والا آیا اور اس نے اطلاع دی کہ آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور اس میں آپ کو استقبال کعبہ کا حکم دے دیا گیا ہے، لہذا تم بھی کعبے کی طرف اپنا رخ کر لو، چنانچہ وہ (سنتے ہی) کعبے کی طرف گھوم گئے جب کہ اس وقت ان کا رخ شام کی طرف تھا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ جہل نسیان کو عذرٹھہرانے میں کچھ زیادہ ہی وسیع النظر ہیں، چنانچہ انھوں نے اس مقام پر ایک مستقل عنوان قائم کرکے بتایاگیا کہ اگرسہوونسیان کی وجہ سے کوئی شخص غیر قبلہ کی طرف بھی نماز پڑھ لے گا تو اس کی نماز درست ہوگی۔ حدیث ابن عمر ؓ سے یہی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ کعبہ معظمہ کی طرف رخ کرنے کا حکم آجانے کے باوجود اہل قباء نے لاعلمی کی وجہ سے نماز قبلہ منسوخہ کی طرف منہ کرکے ادا کی اور ناواقفیت کی وجہ سے وہ بھولنے والے کے حکم میں تھے، اس لیے انھیں نمازکے اعادے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اسی طرح یہ حدیث عنوان کے پہلے جز پر بھی دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس میں بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ (فتح الباري:657/1) حضرت ثویلہ بنت اسلم ؓ دوران نماز میں تحویل کی کی کیفیت بیان کرتی ہیں کہ عورتیں مردوں کی جگہ اور مردعورتوں کی جگہ پر منتقل ہوگئے اور ہم نے دورکعت استقبال کعبہ کے ساتھ ادا کیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ذرا تفصیل بیان کی ہے کہ امام مسجد کے اگل حصے سے پچھلے حصے کی طرف آیا، کیونکہ اسی مقام پر تحویل کے لیے جگہ ناکافی تھی، اس کے بعد آدمی اور پھر عورتیں ایک دوسرے کے پیچھے ہوگئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مکلف کے لیے ناسخ کے حکم کی پابندی اس وقت ہوگی جب اسے معلوم ہوگا، اس سے پہلے وہ اس کا پابند نہیں ہے۔ (فتح الباري:656/1) 3۔ اہل قباء نے نماز کا کچھ حصہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے ادا کیا، ان کا یہ عمل ان کے یقین کے مطابق صحیح اوردرست تھا، اس لیے اس حصے کا اعادہ نہیں کرایا گیا۔ تحری میں بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان غوروفکر کے بعد ایک سمت کو قبلہ قراردیتا ہے اور اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے۔ جیساکہ اہل قباء نے اپنے یقین کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز کا کچھ حصہ اداکیا اور اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کبھی سوال نہیں ہوا اور نہ آپ نے انھیں اعادے ہی کا حکم دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
402
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
403
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
403
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
403
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ظہر کی دو رکعت کے بعد ہی سلام پھیر دیا۔ اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو گئے، پھر ( یاد دلانے پر ) باقی نماز پوری کی۔تشریح : یہ ایک حدیث کا حصہ ( ٹکڑا ) ہے جسے خود حضرت امام بخاری نے روایت کیاہے۔ مگراس میں آپ کا لوگوں کی طرف منہ کرنے کا ذکرنہیں ہے اوریہ فقرہ مؤطا امام مالک کی روایت میں ہے۔ اس حدیث سے ترجمہ باب اس طرح نکلا کہ جب آپ نے بھولے سے لوگوں کی طرف منہ کرلیا تو قبلہ کی طرف آپ کی پیٹھ ہوگئی، باوجود اس کے آپ نے نماز کو نئے سرے سے نہیں لوٹایا بلکہ جو باقی رہ گئی تھی اتنی ہی پڑھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک آنے والا آیا اور اس نے اطلاع دی کہ آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور اس میں آپ کو استقبال کعبہ کا حکم دے دیا گیا ہے، لہذا تم بھی کعبے کی طرف اپنا رخ کر لو، چنانچہ وہ (سنتے ہی) کعبے کی طرف گھوم گئے جب کہ اس وقت ان کا رخ شام کی طرف تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ جہل نسیان کو عذرٹھہرانے میں کچھ زیادہ ہی وسیع النظر ہیں، چنانچہ انھوں نے اس مقام پر ایک مستقل عنوان قائم کرکے بتایاگیا کہ اگرسہوونسیان کی وجہ سے کوئی شخص غیر قبلہ کی طرف بھی نماز پڑھ لے گا تو اس کی نماز درست ہوگی۔ حدیث ابن عمر ؓ سے یہی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ کعبہ معظمہ کی طرف رخ کرنے کا حکم آجانے کے باوجود اہل قباء نے لاعلمی کی وجہ سے نماز قبلہ منسوخہ کی طرف منہ کرکے ادا کی اور ناواقفیت کی وجہ سے وہ بھولنے والے کے حکم میں تھے، اس لیے انھیں نمازکے اعادے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اسی طرح یہ حدیث عنوان کے پہلے جز پر بھی دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس میں بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ (فتح الباري:657/1) حضرت ثویلہ بنت اسلم ؓ دوران نماز میں تحویل کی کی کیفیت بیان کرتی ہیں کہ عورتیں مردوں کی جگہ اور مردعورتوں کی جگہ پر منتقل ہوگئے اور ہم نے دورکعت استقبال کعبہ کے ساتھ ادا کیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ذرا تفصیل بیان کی ہے کہ امام مسجد کے اگل حصے سے پچھلے حصے کی طرف آیا، کیونکہ اسی مقام پر تحویل کے لیے جگہ ناکافی تھی، اس کے بعد آدمی اور پھر عورتیں ایک دوسرے کے پیچھے ہوگئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مکلف کے لیے ناسخ کے حکم کی پابندی اس وقت ہوگی جب اسے معلوم ہوگا، اس سے پہلے وہ اس کا پابند نہیں ہے۔ (فتح الباري:656/1) 3۔ اہل قباء نے نماز کا کچھ حصہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے ادا کیا، ان کا یہ عمل ان کے یقین کے مطابق صحیح اوردرست تھا، اس لیے اس حصے کا اعادہ نہیں کرایا گیا۔ تحری میں بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان غوروفکر کے بعد ایک سمت کو قبلہ قراردیتا ہے اور اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے۔ جیساکہ اہل قباء نے اپنے یقین کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز کا کچھ حصہ اداکیا اور اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کبھی سوال نہیں ہوا اور نہ آپ نے انھیں اعادے ہی کا حکم دیا۔
ترجمۃ الباب:
نبیﷺ نے ایک دفعہ نماز ظہر میں دو رکعت پر سلام پھیر دیا اور لوگوں کی طرف اپنا چہرہ کر لیا، پھر (یاد دلانے پر) باقی نماز کو پورا کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ لوگ قبا میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک آنے والا آیا۔ اس نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ پر کل وحی نازل ہوئی ہے اور انھیں کعبہ کی طرف ( نماز میں ) منہ کرنے کا حکم ہو گیا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے بھی کعبہ کی جانب منہ کر لیے جب کہ اس وقت وہ شام کی جانب منہ کئے ہوئے تھے، اس لیے وہ سب کعبہ کی جانب گھوم گئے۔
حدیث حاشیہ:
ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ عورتیں مردوں کی جگہ آگئیں اورمرد گھوم کر عورتوں کی جگہ چلے گئے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس کی صورت یہ ہوئی کہ امام جو مسجد کے آگے کی جانب تھا گھوم کر مسجد کے پیچھے کی جانب آگیا، کیونکہ جو کوئی مدینہ میں کعبہ کی طرف منہ کرے گا توبیت المقدس اس کے پیٹھ کی طرف ہوجائے گا اور اگرامام اپنی جگہ پر رہ کر گھوم جاتا تو اس کے پیچھے صفوں کی جگہ کہاں سے نکلتی اور جب امام گھوما تو مقتدی بھی اس کے ساتھ گھوم گئے اور عورتیں بھی یہاں تک کہ وہ مردوں کے پیچھے آگئیں۔ ضرورت کے تحت یہ کیا گیا۔ جیسا کہ وقت آنے پر سانپ مارنے کے لیے مسجد میں بحالت نماز گھومنا پھرنا درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): While the people were offering the Fajr prayer at Quba (near Medina), someone came to them and said: "It has been revealed to Allah's Apostle (ﷺ) tonight, and he has been ordered to pray facing the Ka’bah." So turn your faces to the Ka’bah. Those people were facing Sham (Jerusalem) so they turned their faces towards Ka’bah (at Makkah).