Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Not feel shy of the truth to comprehend the religion)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5656.
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدہ ام سلیم ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی حق (کے اظہار) سے نہیں شرماتا کیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب ہے؟ آپ نے فرمایا : ”ہاں اگر وہ پانی (مادہ منویہ کی تری) دیکھے تو غسل واجب ہے۔“
تشریح:
دینی امور کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے حیا مانع نہیں ہونی چاہیے، چنانچہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بطور تعریف و حمد پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت بیان کی کہ وہ حق بات بیان کرنے سے حیا نہیں کرتا، پھر ہمیں بھی حق کے متعلق سوال کرنے سے نہیں شرمانا چاہیے، پھر انہوں نے زندگی میں پیش آنے والا ایک سوال کیا جو سراسر شرم و حیا پر مبنی ہے لیکن انہوں نے اس قسم کی حیا کو ایک طرف رکھا، پھر سوال کیا کیونکہ اس قسم کا سوال حصول دین کا ذریعہ تھا۔ اگر وہ حیا کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال نہ کرتیں تو ہم اس دینی امر سے محروم رہتے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5895
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6121
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6121
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6121
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
اس میں کوئی شک نہیں کہ حیا خیر ہی خیر ہے لیکن دینی مسائل اور حقائق کے متعلق سوال کرنے سے حیا کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کی حیا کو اس عنوان کے تحت بیان کیا ہے اور اس کے قابل مذمت ہونے کو احادیث سے ثابت کیا ہے۔ گویا حیا کے قابل تعریف ہونے سے کچھ صورتیں مستثنیٰ ہیں جو اس عنوان کے تحت بیان کی جائیں گی۔ واللہ المستعان
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدہ ام سلیم ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی حق (کے اظہار) سے نہیں شرماتا کیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب ہے؟ آپ نے فرمایا : ”ہاں اگر وہ پانی (مادہ منویہ کی تری) دیکھے تو غسل واجب ہے۔“
حدیث حاشیہ:
دینی امور کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے حیا مانع نہیں ہونی چاہیے، چنانچہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بطور تعریف و حمد پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت بیان کی کہ وہ حق بات بیان کرنے سے حیا نہیں کرتا، پھر ہمیں بھی حق کے متعلق سوال کرنے سے نہیں شرمانا چاہیے، پھر انہوں نے زندگی میں پیش آنے والا ایک سوال کیا جو سراسر شرم و حیا پر مبنی ہے لیکن انہوں نے اس قسم کی حیا کو ایک طرف رکھا، پھر سوال کیا کیونکہ اس قسم کا سوال حصول دین کا ذریعہ تھا۔ اگر وہ حیا کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال نہ کرتیں تو ہم اس دینی امر سے محروم رہتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ابی سلمہ ؓ نے اور ان سے ام سلمہ ؓ نے بیان کیا کہ حضرت ام سلیم ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ حق بات سے حیاء نہیں کرتا کیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اگر عورت منی کی تری دیکھے تو اس پر بھی غسل واجب ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حضرت زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ربیبہ تھیں، ان کے والد ابو سلمہ تھے جن کا نام عبداللہ ابن عبدالاسد مخزومی ہے اور کنیت ابو سلمہ ہے۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پھوپھی زاد بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام بوہ بنت عبدالمطلب ہے اور ابو سلمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھی ہیں۔ ان کی بیوی ام سلمہ نے ان کے ساتھ حبشہ کی ہجرت کی تھی مگر مکہ واپس آ گئے جب دوبارہ مدینہ منورہ کو ہجرت کی تو ان کے بچے سلمہ کو ددھیال والوں نے چھین لیا اور حضرت ام سلمہ کو ان کے میکے والوں نے جبراً روک لیا۔ ابوسلمہ دل مسوس کر بیوی اوربچوں کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مدینہ چلے گئے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ایک سال تک برابر روتی رہی اورروزانہ اس جگہ آ کر بیٹھ جاتی جہاں شوہر سے الگ کی گئی تھیں، ان کی اس بے قراری اورگریہ وزاری نے سنگ دل عزیزوں کو بھی رحم پرمجبور کر دیا اور انہوں نے ان کو ان کے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ یہ اکیلی مدینہ منورہ کو چل کھڑی ہوئیں، جنگ احد میں ابو سلمہ سخت زخمی ہو گئے اور جمادی الآخر3ھ میں ان زخموں کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت انہوں نے دعا کی تھی کہ یا اللہ! میرے اہل وعیال کی اچھی طرح نگہداشت کیجیو یہ دعا قبول ہوئی اور ابو سلمہ کے اہل وعیال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا سرپرست عطا ہوا اور حضرت ام سلمہ کو ام المؤمنین کا لقب ومنصب عطا کیا گیا۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے بچوں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تعلیم وتربیت فرمائی کہ عمر بن ابو سلمہ سے سعید بن مسیب، ابو امامہ بن سہل اور عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ حدیث کی روایت کرتے ہیں اور حضرت علی ان کو فارس اور بحرین کا حاکم مقرر کرتے ہیں۔ ابو سلمہ کی بیٹی زینب اپنے زمانہ کی سب عورتوں سے زیادہ فقیہ تھیں، یہ بچہ ہی تھیں کہ ایک دن کھیلتے کھیلتے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئیں آپ غسل فرما رہے تھے آپ نے پیار سے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، چہرے کی تازگی بڑھاپے میں بھی جوانی جیسی قائم رہی۔ ان کا انتقال مدینہ منورہ میں84 سال کی عمر میں 60ھ میں ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA) : Um Sulaim came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Verily, Allah does not feel shy to tell the truth. If a woman gets a nocturnal sexual discharge (has a wet dream), is it essential for her to take a bath? He replied, "Yes if she notices a discharge."