Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The demolishing of the Ka'bah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓنے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”ایک فوج بیت اللہ پر چڑھائی کرے گی اور وہ زمین میں دھنسا دی جائے گی۔“
1596.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کعبہ شریف کو چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی منہدم کر دے گا۔‘‘
تشریح:
(1) یہ واقعہ حضرت ؑ کے دوبارہ آنے اور ان کے وفات پانے کے بعد ہو گا جب قرآنی تعلیمات کو سینوں سے اٹھا لیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کو انہدام کعبہ کا منظر دکھایا گیا، پھر آپ نے اس چشم دید واقعہ سے اپنی امت کو آگاہ فرمایا کہ کعبہ کو گرانے والا سیاہ فام حبشی تکبر و غرور سے چلتا ہوا آئے گا۔ چلنے میں اس کے دونوں پنجے تو نزدیک، البتہ ایڑیوں میں فاصلہ ہو گا۔ سر سے گنجا، ناک پھیلی ہوئی، پیٹ بڑا، اپنے ہاتھ میں بھالا پکڑے ہوئے آئے گا۔ اس کے ساتھ اس قماش کے دوسرے لوگ بھی ہوں گے جو اس کی سربراہی میں بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور اس کا ایک ایک پتھر اکھاڑ کر سمندر میں پھینک دیں گے۔ اور ایسا عین قرب قیامت کے وقت ہو گا۔ (2) مسند احمد میں یہ روایت ذرا تفصیل سے بیان ہوئی ہے کہ ایک آدمی کی مقام ابراہیم اور رکن یمانی کے درمیان بیعت لی جائے گی اور اس بیت اللہ کو خود مسلمان ہی سب سے پہلے اپنے لیے حلال خیال کریں گے۔ جب ایسے واقعات رونما ہوں گے تو عرب کی تباہی قریب ہو گی۔ پھر اس کے بعد حبشی آئیں گے جو اس کے ایک ایک پتھر کو اکھاڑ پھینکیں گے اور اس کے خزانے نکال لیں گے۔ اس کے بعد کعبہ کبھی آباد نہیں ہو گا۔ (مسندأحمد:291/2، والصحیحة، حدیث:2743) ایک روایت میں ہے کہ اس میں موجود سونے چاندی کے زیورات نکال لیں گے اور اس کا غلاف بھی اتار پھینکیں گے، گویا میں اب بھی اس گنجے سیاہ فام چھوٹی پنڈلیوں والے حبشی کو دیکھ رہا ہوں، اس کے ہاتھ میں بھالا ہے، جس سے وہ بیت اللہ کے پتھر اکھاڑ رہا ہے۔ (مسندأحمد:220/2) (3) واضح رہے کہ انہدام کا یہ واقعہ عین قرب قیامت کے وقت ہو گا جب زمین پر کوئی بھی اللہ کا نام لینے والا باقی نہیں رہے گا، اس لیے یہ واقعہ کعبہ کے امن و امان کا گہوارہ ہونے کے خلاف نہیں کیونکہ اس کا امن و امان قیامت تک رہنے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ (فتح الباري؛583/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1555
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1596
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1596
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1596
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس تعلیق کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی کتاب البیوع، حدیث: 2118 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک لشکر بیت اللہ پر چڑھائی کی نیت سے روانہ ہو گا۔ جب وہ بیداء میدان میں پہنچے گا تو اس میں شامل تمام لوگوں کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن وہ اپنی اپنی نیت کے مطابق اٹھیں گے۔" امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ قرب قیامت کے وقت انہدام کعبہ ہو گا۔ بعض اوقات اس قسم کی نازیبا حرکت کرنے والے ناکام ہو جائیں گے جیسا کہ اس حدیث میں ذکر ہے اور بعض اوقات وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے جیسا کہ آئندہ حدیث میں بیان ہو گا۔ (فتح الباری:3/581) پہلی دفعہ وہ خود ہلاک ہو جائیں گے اور دوسری دفعہ بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ (عمدۃالقاری:2/162)
اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓنے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”ایک فوج بیت اللہ پر چڑھائی کرے گی اور وہ زمین میں دھنسا دی جائے گی۔“
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کعبہ شریف کو چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی منہدم کر دے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہ واقعہ حضرت ؑ کے دوبارہ آنے اور ان کے وفات پانے کے بعد ہو گا جب قرآنی تعلیمات کو سینوں سے اٹھا لیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کو انہدام کعبہ کا منظر دکھایا گیا، پھر آپ نے اس چشم دید واقعہ سے اپنی امت کو آگاہ فرمایا کہ کعبہ کو گرانے والا سیاہ فام حبشی تکبر و غرور سے چلتا ہوا آئے گا۔ چلنے میں اس کے دونوں پنجے تو نزدیک، البتہ ایڑیوں میں فاصلہ ہو گا۔ سر سے گنجا، ناک پھیلی ہوئی، پیٹ بڑا، اپنے ہاتھ میں بھالا پکڑے ہوئے آئے گا۔ اس کے ساتھ اس قماش کے دوسرے لوگ بھی ہوں گے جو اس کی سربراہی میں بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور اس کا ایک ایک پتھر اکھاڑ کر سمندر میں پھینک دیں گے۔ اور ایسا عین قرب قیامت کے وقت ہو گا۔ (2) مسند احمد میں یہ روایت ذرا تفصیل سے بیان ہوئی ہے کہ ایک آدمی کی مقام ابراہیم اور رکن یمانی کے درمیان بیعت لی جائے گی اور اس بیت اللہ کو خود مسلمان ہی سب سے پہلے اپنے لیے حلال خیال کریں گے۔ جب ایسے واقعات رونما ہوں گے تو عرب کی تباہی قریب ہو گی۔ پھر اس کے بعد حبشی آئیں گے جو اس کے ایک ایک پتھر کو اکھاڑ پھینکیں گے اور اس کے خزانے نکال لیں گے۔ اس کے بعد کعبہ کبھی آباد نہیں ہو گا۔ (مسندأحمد:291/2، والصحیحة، حدیث:2743) ایک روایت میں ہے کہ اس میں موجود سونے چاندی کے زیورات نکال لیں گے اور اس کا غلاف بھی اتار پھینکیں گے، گویا میں اب بھی اس گنجے سیاہ فام چھوٹی پنڈلیوں والے حبشی کو دیکھ رہا ہوں، اس کے ہاتھ میں بھالا ہے، جس سے وہ بیت اللہ کے پتھر اکھاڑ رہا ہے۔ (مسندأحمد:220/2) (3) واضح رہے کہ انہدام کا یہ واقعہ عین قرب قیامت کے وقت ہو گا جب زمین پر کوئی بھی اللہ کا نام لینے والا باقی نہیں رہے گا، اس لیے یہ واقعہ کعبہ کے امن و امان کا گہوارہ ہونے کے خلاف نہیں کیونکہ اس کا امن و امان قیامت تک رہنے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ (فتح الباري؛583/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ ؓنے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "ایک لشکر خانہ کعبہ پر چڑھائی کرے گا تو اسے زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحٰی بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے کہ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا حبشی خراب کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
اوپر والی حدیث میں أفحج کا لفظ ہے اورافحج وہ ہے جو اکڑتا ہوا چلے یا چلتے میں اس کے دونوں پنجے تو نزدیک رہیں اور دونوں ایڑیوں میں فاصلہ رہے۔ وہ حبشی مردود جو قیامت کے قریب کعبہ ڈھائے گا وہ اسی شکل کا ہوگا۔ دوسری روایت میں ہے اس کی آنکھیں نیلی، ناک پھیلی ہوئی ہوگی، پیٹ بڑا ہوگا۔ اس کے ساتھ اور لوگ ہوںگے، وہ کعبہ کا ایک ایک پتھر اکھاڑ ڈالیں گے اور سمندر میں لے جاکر پھینک دیں گے۔ یہ قیامت کے بالکل نزدیک ہوگا۔ اللہ ہرفتنے سے بچائے آمین۔ ووقع هذا الحديث عند أحمد من طريق سعيد بن سمعان عن أبي هريرة بأتم من هذا السياق ولفظه يبايع للرجل بين الركن والمقام ولن يستحل هذا البيت إلا أهله فإذا استحلوه فلا تسأل عن هلكة العرب ثم تجيء الحبشة فيخربونه خرابا لا يعمر بعده أبدا وهم الذين يستخرجون كنزه ولأبي قرة في السنن من وجه آخر عن أبي هريرة مرفوعا لا يستخرج كنز الكعبة إلا ذو السويقتين من الحبشة ونحوه لأبي داود من حديث عبد الله بن عمرو بن العاص وزاد أحمد والطبراني من طريق مجاهد عنه فيسلبها حليتها ويجردها من كسوتها كأني أنظر إليه أصيلع أفيدع يضرب عليها بمسحاته أو بمعوله۔
قيل هذا الحديث يخالف قوله تعالى أو لم يروا أنا جعلنا حرما آمنا ولأن الله حبس عن مكة الفيل ولم يمكن أصحابه من تخريب الكعبة ولم تكن إذ ذاك قبلة فكيف يسلط عليها الحبشة بعد أن صارت قبلة للمسلمين وأجيب بأن ذلك محمول على أنه يقع في آخر الزمان قرب قيام الساعة حيث لا يبقى في الأرض أحد يقول الله الله كما ثبت في صحيح مسلم لا تقوم الساعة حتى لا يقال في الأرض الله الله واعترض بعض الملحدین علی الحدیث الماضه فقال کیف سودتخ خطایا المشرکین ولم تبیضخ طاعات أهل التوحید وأجیب بما قال ابن قتیبة لوشاءاللہ لکان ذلك وإنما أجری اللہ العادة بأن السواد یصبغ علی العکس من البیاض۔(فتح الباري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "DhusSuwaiqatain (the thin legged man) from Ethiopia will demolish the Ka’bah."