Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Providing oneself with food)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ’’ اپنے ساتھ توشہ لے جایا کرو‘‘ پس بے شک عمدہ ترین توشہ تقویٰ ہے ۔‘‘
2979.
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو میں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے گھر میں آپ کے لیے سفری کھانا تیار کیا۔ انھوں نےفرمایا: جب مجھے آپ کے توشہ دان اور پانی کے مشکیزے باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو میں نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اپنے کمر بند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملتی جس سے میں انھیں باندھوں تو حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: تم اپنے کمر بند کے دو حصے کر لو۔ ایک سے پانی کے ظرف کو باندھوں اور دوسرے سے توشہ دان کو۔ میں نے ایسا ہی کیا تو اس وجہ سے میرا نام ذات النطاقین رکھا گیا۔
تشریح:
(سُفره) وہ کھانا ہے جسے مسافر لوگ سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ اس وقت اسے عموماً چمڑے کے بنے ہوئے توشہ دان میں رکھا جاتا تھا اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے اس نیک خاتون نے سفر ہجرت کے لیے کھانا تیار کیا۔ اس سے ہر سفر میں خواہ وہ حج کا سفر ہو یا جہاد کا راشن ساتھ لے جانے کا اثبات ہوا اور ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں جیسا کہ بعض صوفیا کا خیال ہے۔ یہ سفرہجرت تھا۔ سفر جہادکو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ فوج کے لیے راشن کا پورا انتظام کرنا ہر مہذب حکومت کے لیے ضروری ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اہل یمن حج کے لیے آتے لیکن زادراہ ساتھ لاتے اور کہتے کہ ہم تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں پھر مدینہ طیبہ پہنچ کر لوگوں سے مانگنا شروع کر دیتے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح البخاری الحج حدیث 1523)مطلب یہ ہے کہ سفر میں جاتے وقت اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان ہمراہ لے لیا کرو تاکہ تمھیں کسی سے مانگنانہ پڑے۔ یہ بہترین توشہ ہے جیسا کے ذریعے سے تم لوگوں سے مانگنا چھوڑدو گے اور تمھیں تقوی حاصل ہو جائے گا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے اشارہ کیا ہے کہ سفر میں زاد سفر ساتھ لے جانا تو کل کے منافی نہیں ۔(فتح الباری:6/157)
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ’’ اپنے ساتھ توشہ لے جایا کرو‘‘ پس بے شک عمدہ ترین توشہ تقویٰ ہے ۔‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو میں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے گھر میں آپ کے لیے سفری کھانا تیار کیا۔ انھوں نےفرمایا: جب مجھے آپ کے توشہ دان اور پانی کے مشکیزے باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو میں نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اپنے کمر بند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملتی جس سے میں انھیں باندھوں تو حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: تم اپنے کمر بند کے دو حصے کر لو۔ ایک سے پانی کے ظرف کو باندھوں اور دوسرے سے توشہ دان کو۔ میں نے ایسا ہی کیا تو اس وجہ سے میرا نام ذات النطاقین رکھا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(سُفره) وہ کھانا ہے جسے مسافر لوگ سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ اس وقت اسے عموماً چمڑے کے بنے ہوئے توشہ دان میں رکھا جاتا تھا اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے اس نیک خاتون نے سفر ہجرت کے لیے کھانا تیار کیا۔ اس سے ہر سفر میں خواہ وہ حج کا سفر ہو یا جہاد کا راشن ساتھ لے جانے کا اثبات ہوا اور ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں جیسا کہ بعض صوفیا کا خیال ہے۔ یہ سفرہجرت تھا۔ سفر جہادکو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ فوج کے لیے راشن کا پورا انتظام کرنا ہر مہذب حکومت کے لیے ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "زادراہ ہمراہ رکھو۔ بلا شبہ عمدہ زادراہ تو تقویٰ ہی ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، نیز مجھ سے فاطمہ نے بھی بیان کیا، اور ان سے اسماء بنت ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی ہجرت کا ارادہ کیا تو میں نے (والد ماجد حضرت) ابوبکر ؓ کے گھر آپ کے لیے سفر کا ناشتہ تیار کیا تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب آپ کے ناشتے اور پانی کو باندھنے کے لیے کوئی چیز نہیں ملی، تو میں نے ابوبکر ؓ سے کہا کہ بجز میرے کمر بند کے اور کوئی چیز اسے باندھنے کے لیے نہیں ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ پھر اسی کے دو ٹکڑے کر لو۔ ایک سے ناشتہ باند ھ دینا اور دوسرے سے پانی، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، اور اسی وجہ سے میرا نام ''ذات الناطقین'' (دو کمربندوں والی) پڑگیا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی کا نام اسماء ؓ ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی والدہ ہیں۔ مکہ ہی میں اسلام لائیں۔ اس وقت تک صرف سترہ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ حضرت عائشہ ؓ سے دس برس بڑی تھیں۔ اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شہادت کے بعد ۷۳ھ میں بعمر ایک سو سال آپ نے مکہ ہی میں انتقال فرمایا۔ باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کے لئے اس نیک خاتون نے ہجرت کے سفر کے وقت ناشتہ تیار کیا۔ اسی سے ہر سفر میں خواہ حج کا سفر ہو یا جہاد کا راشن ساتھ لے جانے کا اثبات ہوا۔ خاص طور پر فوجوں کے لئے راشن کا پورا انتظام کرنا ہر متمدن حکومت کے لئے ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma (RA): I prepared the journey-food for Allah's Apostle (ﷺ) in Abu Bakr's house when he intended to emigrate to Medina. I could not find anything to tie the food-container and the water skin with. So, I said to Abu Bakr, "By Allah, I do not find anything to tie (these things) with except my waist belt." He said, "Cut it into two pieces and tie the water-skin with one piece and the food-container with the other (the sub-narrator added, "She did accordingly and that was the reason for calling her Dhatun-Nitaqain (i.e. two-belted woman))."