صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
49. باب: ایک شخص نے امامت شروع کر دی پھر پہلا امام آ گیا اب پہلا شخص (مقتدیوں میں ملنے کے لیے) پیچھے سرک گیا یا نہیں سرکا، بہرحال اس کی نماز جائز ہو گی۔
Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
49. Chapter: If somebody is leading the Salat (prayer) and (in the meanwhile) the first (usual) Imam comes, the Salat is valid whether the former retreats or does not retreat
باب: ایک شخص نے امامت شروع کر دی پھر پہلا امام آ گیا اب پہلا شخص (مقتدیوں میں ملنے کے لیے) پیچھے سرک گیا یا نہیں سرکا، بہرحال اس کی نماز جائز ہو گی۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: If somebody is leading the Salat (prayer) and (in the meanwhile) the first (usual) Imam comes, the Salat is valid whether the former retreats or does not retreat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس بارے میں حضرت عائشہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے۔
684.
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرو بن عوف قبیلے میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو مؤذن نے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آ کر کہا: اگر آپ نماز پڑھائیں تو میں اقامت کہہ دوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے لگے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے جبکہ لوگ نماز میں مصروف تھے۔ آپ صفوں میں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ اس پر لوگوں نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں، لیکن ابوبکر ؓ اپنی نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے عادی نہ تھے۔ جب لوگوں نے مسلسل تالیاں بجائیں تو حضرت ابوبکر ؓ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ ﷺ پر ان کی نظر پڑی (وہ پیچھے ہٹنے لگے) تو رسول اللہ ﷺ نے اشارہ کیا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں امامت کا اعزاز بخشا ہے، تاہم وہ پیچھے ہٹ کر لوگوں کی صف میں شامل ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تم کھڑے کیوں نہ رہے؟‘‘ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا: ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے آگے نماز پڑھائے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں بکثرت تالیاں بجاتے ہوئے دیکھا؟ (دیکھو!) جب کسی کو دوران نماز میں کوئی بات پیش آئے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ دی جائے گی اور تالی بجانا تو صرف عورتوں کے لیے ہے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوان کی دونوں صورتوں کو اس حدیث سے ثابت کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی:’’اپنی جگہ پر قائم رہو‘‘ سے ثابت ہوا کہ اگر دوسرے امام کے آنے پر پہلا امام جماعت کرانے میں مصروف رہے تو اس کی نماز درست ہے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پیچھے ہٹ جانے اور رسول اللہ ﷺ کے اس پر انکار نہ کرنے سے ثابت ہوا کہ دوسرے امام کے آنے پر اگر پہلا امام پیچھے ہٹ جائے تو بھی اس کی نماز درست ہوگی۔ (حاشیة السندي:125/1) (2) یہ نماز جس میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں امامت کا اعزاز ملا، عصر کی نماز تھی اور حضرت ابو بکر ؓ کو نماز پڑھانے کی درخواست کرنے والے حضرت بلال ؓ تھے۔ خود رسول اللہ ﷺ حضرت بلال ؓ کو یہ ہدایت دے کر گئے تھے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند احمد، ابو داود اور ابن حبان کے حوالے سے مندرجہ ذیل حدیث نقل کی ہے جس میں ان تمام امور کی صراحت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ سے کہا کہ اگر نماز عصر کا وقت ہوجائے اور میں نہ آسکوں تو ابو بکر صدیق ؓ سے کہنا کہ لوگوں کو نماز پڑھادیں۔ (فتح الباري:218/2) (3) رسول اللہ ﷺ کے ایام علالت میں بھی ایک مرتبہ اس قسم کا واقعہ پیش آیا تھا، لیکن اس وقت حضرت ابوبکر ؓ بدستور امام رہے اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اقتدا میں نماز فجر کی دوسری رکعت ادا کی تھی جبکہ اس موقع پر آپ پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر جماعت کرائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نماز فجر کے موقع پر نماز کا بیشتر حصہ ادا ہوچکا تھا، اس لیے حضرت ابو بکر ؓ نے امامت جاری رکھی جبکہ نماز عصر کے موقع پر ابھی نماز کا آغاز ہی ہوتھا، لہٰذا آپ پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر جماعت کرائی۔ اس طرح جنگ تبوک کے موقع پر ایک مرتبہ ایسا ہی واقعہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے ساتھ پیش آیاتھا۔ چونکہ نماز فجر کی ایک رکعت ادا ہوچکی تھی، اس لیے حضرت عبدالرحمٰن ؓ نے جماعت جاری رکھی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی امامت میں دوسری رکعت ادا کی۔ (فتح الباري:220/2) (4) دوران نماز میں صفوں کو کاٹنے اور لوگوں کی گردنوں کو پھلانگنے کی ممانعت ہے کیونکہ ایسا کرنا نمازیوں کی تکلیف کا باعث ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت ایسا کرنا جائز ہے، مثلاً: وہ اہل علم وفضل جسے امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تھا تاکہ امام بوقت ضرورت اسے اپنا نائب بنا سکے یا وہ شخص جو اگلی صف میں موجود خلا کو پر کرنا چاہتا ہوتو ایسی صورتیں امتناعی حکم میں شمار نہیں ہوں گی. (فتح الباري:221/2) نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنی جگہ سے ہٹ کر پہلی صف میں شامل ہوگئے تھے، واضح رہے کہ اگر کسی کو اس طرح کی صورت حال سے واسطہ پڑے تو اسے الٹے پاؤں پیچھے ہٹنا چاہیے، تاکہ قبلے کی طرف پیٹھ نہ ہو اور نہ کسی دوسری طرف ہی منہ کرنا پڑے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1534(673))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
675
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
684
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
684
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
684
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی اس روایت سے مراد باب سابق میں مذکور حضرت عروہ سے مروی روایت ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹے۔(حدیث:683) اور نہ ہٹنے کی صورت میں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ہے جسے ان سے حضرت اسود نے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع کردیا۔(حدیث:664)
اس بارے میں حضرت عائشہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرو بن عوف قبیلے میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو مؤذن نے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آ کر کہا: اگر آپ نماز پڑھائیں تو میں اقامت کہہ دوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے لگے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے جبکہ لوگ نماز میں مصروف تھے۔ آپ صفوں میں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ اس پر لوگوں نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں، لیکن ابوبکر ؓ اپنی نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے عادی نہ تھے۔ جب لوگوں نے مسلسل تالیاں بجائیں تو حضرت ابوبکر ؓ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ ﷺ پر ان کی نظر پڑی (وہ پیچھے ہٹنے لگے) تو رسول اللہ ﷺ نے اشارہ کیا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں امامت کا اعزاز بخشا ہے، تاہم وہ پیچھے ہٹ کر لوگوں کی صف میں شامل ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تم کھڑے کیوں نہ رہے؟‘‘ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا: ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے آگے نماز پڑھائے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں بکثرت تالیاں بجاتے ہوئے دیکھا؟ (دیکھو!) جب کسی کو دوران نماز میں کوئی بات پیش آئے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ دی جائے گی اور تالی بجانا تو صرف عورتوں کے لیے ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوان کی دونوں صورتوں کو اس حدیث سے ثابت کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی:’’اپنی جگہ پر قائم رہو‘‘ سے ثابت ہوا کہ اگر دوسرے امام کے آنے پر پہلا امام جماعت کرانے میں مصروف رہے تو اس کی نماز درست ہے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پیچھے ہٹ جانے اور رسول اللہ ﷺ کے اس پر انکار نہ کرنے سے ثابت ہوا کہ دوسرے امام کے آنے پر اگر پہلا امام پیچھے ہٹ جائے تو بھی اس کی نماز درست ہوگی۔ (حاشیة السندي:125/1) (2) یہ نماز جس میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں امامت کا اعزاز ملا، عصر کی نماز تھی اور حضرت ابو بکر ؓ کو نماز پڑھانے کی درخواست کرنے والے حضرت بلال ؓ تھے۔ خود رسول اللہ ﷺ حضرت بلال ؓ کو یہ ہدایت دے کر گئے تھے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند احمد، ابو داود اور ابن حبان کے حوالے سے مندرجہ ذیل حدیث نقل کی ہے جس میں ان تمام امور کی صراحت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ سے کہا کہ اگر نماز عصر کا وقت ہوجائے اور میں نہ آسکوں تو ابو بکر صدیق ؓ سے کہنا کہ لوگوں کو نماز پڑھادیں۔ (فتح الباري:218/2) (3) رسول اللہ ﷺ کے ایام علالت میں بھی ایک مرتبہ اس قسم کا واقعہ پیش آیا تھا، لیکن اس وقت حضرت ابوبکر ؓ بدستور امام رہے اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اقتدا میں نماز فجر کی دوسری رکعت ادا کی تھی جبکہ اس موقع پر آپ پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر جماعت کرائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نماز فجر کے موقع پر نماز کا بیشتر حصہ ادا ہوچکا تھا، اس لیے حضرت ابو بکر ؓ نے امامت جاری رکھی جبکہ نماز عصر کے موقع پر ابھی نماز کا آغاز ہی ہوتھا، لہٰذا آپ پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر جماعت کرائی۔ اس طرح جنگ تبوک کے موقع پر ایک مرتبہ ایسا ہی واقعہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے ساتھ پیش آیاتھا۔ چونکہ نماز فجر کی ایک رکعت ادا ہوچکی تھی، اس لیے حضرت عبدالرحمٰن ؓ نے جماعت جاری رکھی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی امامت میں دوسری رکعت ادا کی۔ (فتح الباري:220/2) (4) دوران نماز میں صفوں کو کاٹنے اور لوگوں کی گردنوں کو پھلانگنے کی ممانعت ہے کیونکہ ایسا کرنا نمازیوں کی تکلیف کا باعث ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت ایسا کرنا جائز ہے، مثلاً: وہ اہل علم وفضل جسے امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تھا تاکہ امام بوقت ضرورت اسے اپنا نائب بنا سکے یا وہ شخص جو اگلی صف میں موجود خلا کو پر کرنا چاہتا ہوتو ایسی صورتیں امتناعی حکم میں شمار نہیں ہوں گی. (فتح الباري:221/2) نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنی جگہ سے ہٹ کر پہلی صف میں شامل ہوگئے تھے، واضح رہے کہ اگر کسی کو اس طرح کی صورت حال سے واسطہ پڑے تو اسے الٹے پاؤں پیچھے ہٹنا چاہیے، تاکہ قبلے کی طرف پیٹھ نہ ہو اور نہ کسی دوسری طرف ہی منہ کرنا پڑے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1534(673))
ترجمۃ الباب:
اس سلسلے میں نبیﷺسے حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت موجود ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوحازم سلمہ بن دینار سے خبر دی، انہوں نے سہل بن سعد ساعدی (صحابی ؓ ) سے کہ رسول اللہ ﷺ بنی عمرو بن عوف میں (قبا میں) صلح کرانے کے لیے گئے، پس نماز کا وقت آ گیا۔ مؤذن (حضرت بلال ؓ نے) ابوبکر ؓ سے آ کر کہا کہ کیا آپ نماز پڑھائیں گے۔ میں تکبیر کہوں۔ ابوبکر رضی اللہ نے فرمایا کہ ہاں چنانچہ ابوبکر صدیق ؓ نے نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول کریم ﷺ تشریف لے آئے تو لوگ نماز میں تھے۔ آپ صفوں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا (تا کہ حضرت ابوبکر ؓ آنحضور ﷺ کی آمد پر آگاہ ہو جائیں) لیکن ابوبکر ؓ نماز میں کسی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب لوگوں نے متواتر ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا تو صدیق اکبر ؓ متوجہ ہوئے اور رسول کریم ﷺ کو دیکھا۔ آپ نے اشارہ سے انھیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ (کہ نماز پڑھائے جاؤ) لیکن انھوں نے اپنے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو امامت کا اعزاز بخشا، پھر بھی وہ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں شامل ہو گئے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا کہ ابوبکر جب میں نے آپ کو حکم دے دیا تھا پھر آپ ثابت قدم کیوں نہ رہے۔ حضرت ابوبکر ؓ بولے کہ ابوقحافہ کے بیٹے (یعنی ابوبکر) کی یہ حیثیت نہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے نماز پڑھا سکیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی طرف خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عجیب بات ہے۔ میں نے دیکھا کہ تم لوگ بکثرت تالیاں بجا رہے تھے۔ (یاد رکھو) اگر نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے جب وہ یہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ کی جائے گی اور یہ تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔
حدیث حاشیہ:
بنی عمرو بن عوف ساکنان قبا قبیلہ اوس کی ایک شاخ تھی۔ ان میں آپس میں تکرار ہو گئی۔ ان میں صلح کرانے کی غرض سے آنحضرت ﷺ وہاں تشریف لے گئے اور چلتے وقت بلال ؓ سے فرما گئے تھے کہ اگر عصر کا وقت آجائے اور میں نہ آسکوں تو ابوبکر ؓ سے کہنا وہ نماز پڑھا دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کو وہاں کافی وقت لگ گیا۔ یہاں تک کہ جماعت کا وقت آگیا اور حضرت صدیق اکبر ؓ مصلے پر کھڑے کر دیے گئے۔ اتنے ہی میں آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے اور معلوم ہونے پر حضڑت صدیق اکبر پیچھے ہو گئے اور آنحضرت ﷺ نے نماز پڑھائی۔ حضرت صدیق اکبر ؓ نے تواضع و انکساری کی بنا پر اپنے آپ کو ابوقحافہ کا بیٹا کہا۔ کیوں کہ ان کے باپ ابوقحافہ کو دوسرے لوگوں پر کوئی خاص فضیلت نہ تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر مقررہ امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص امام بن جائے اور نماز شروع کرتے ہی فوراً دوسرا امام مقررہ آجائے تو اس کو اختیار ہے کہ خواہ خود امام بن جائے اور دوسرا شخص جو امامت شروع کراچکا تھا وہ مقتدی بن جائے یا نئے امام کا مقتدی رہ کر نماز ادا کرے کسی حال میں نماز میں خلل نہ ہوگا اور نہ نماز میں کوئی خرابی آئے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کو اگر امام کو لقمہ دینا پڑے تو باآواز بلند سبحان اللہ کہنا چاہئے۔ اگر کوئی عورت لقمہ دے تو اسے تالی بجا دینا کافی ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sa'd As-Sa'idi (RA): Allah's Apostle (ﷺ) went to establish peace among Bani 'Amr bin 'Auf. In the meantime the time of prayer was due and the Mu'adh-dhin went to Abu Bakr (RA) and said, "Will you lead the prayer, so that I may pronounce the Iqama?" Abu Bakr (RA) replied in the affirmative and led the prayer. Allah's Apostle (ﷺ) came while the people were still praying and he entered the rows of the praying people till he stood in the (first row). The people clapped their hands. Abu Bakr (RA) never glanced sideways in his prayer but when the people continued clapping; Abu Bakr (RA) looked and saw Allah's Apostle. Allah's Apostle (ﷺ) beckoned him to stay at his place. Abu Bakr (RA) raised his hands and thanked Allah for that order of Allah's Apostle (ﷺ) and then he retreated till he reached the first row. Allah's Apostle (ﷺ) went forward and led the prayer. When Allah's Apostle (ﷺ) finished the prayer, he said, "O Abu Bakr! What prevented you from staying when I ordered you to do so?" Abu Bakr (RA) replied, "How can Ibn Abi Quhafa (Abu Bakr) dare to lead the prayer in the presence of Allah's Apostle?" Then Allah's Apostle (ﷺ) said, "Why did you clap so much? If something happens to anyone during his prayer he should say Subhan Allah. If he says so he will be attended to, for clapping is for women."