باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا اللہ نے کعبہ کو عزت والا گھر اور لوگوں کے قیام کی جگہ بنایا ہے اور اس طرح حرمت والے مہینہ کو بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «وأن الله بكل شىء عليم» تک۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Statement of Allah Ta'ala)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1514.
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’کعبہ کو باریک پنڈلیوں والا حبشی خراب کرے گا۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنی طرف سے کوئی عنوان قائم کرنے کے بجائے قرآنی آیت ہی کو عنوان کے لیے منتخب کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے بقا کا ذریعہ بنایا ہے۔ (2) ہمارے نزدیک (قِيَامًا لِّلنَّاسِ) کے تین مطلب ہو سکتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ الناس سے مراد مکہ اور اس کے اردگرد کے لوگ لیے جائیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اس بے آب و گیاہ وادی میں کعبہ کا وجود مکہ اور آس پاس کے تمام لوگوں کی معاش کا ذریعہ ہے۔ اقصائے عالم سے آنے والے لوگوں کو قیام و طعام اور نقل و حرکت کی خدمات مہیا کرنے کے عوض انہیں اس قدر آمدنی ہو جاتی ہے جسے وہ ہر سال بھر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ٭ الناس سے مراد صرف عرب کے لوگ ہیں۔ یہ لوگ حرمت والے مہینوں میں بڑی آزادی سے سفر کرتے ہیں۔ کعبہ پورے ملک کی تمدنی اور معاشی زندگی کا سہارا بنا ہوا ہے۔ ٭ الناس سے مراد اس دور سے لے کر قیامت تک آنے والے لوگ لیے جائیں۔ اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ کعبہ کا وجود تمام دنیا کے لیے قیام اور بقا کا باعث ہے۔ دنیا کا وجود اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔ جب اللہ کو منظور ہو گا کہ یہ کارخانہ عالم ختم کر دیا جائے تو اس وقت بیت اللہ کو اٹھا لیا جائے گا۔ امام بخاری ؒ نے اس آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کے تحت حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی وہ حدیث بیان کی ہے جس میں ایک حبشی کے ہاتھوں انہدام کعبہ کا ذکر ہے۔ (3) اس سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوا کہ اس حبشی کے ناپاک عمل سے پہلے کوئی مضبوط اور طاقتور دشمن کعبہ کو منہدم نہیں کر سکے گا اور اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے گا جیسا کہ اصحاب الفیل کا واقعہ اس کے لیے شاہد عدل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ ہر اس شخص، قوم یا حکومت کو ہلاک کر دے گا جو تخریب کعبہ کی مذموم حرکت کرے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1550
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1591
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1591
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1591
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’کعبہ کو باریک پنڈلیوں والا حبشی خراب کرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنی طرف سے کوئی عنوان قائم کرنے کے بجائے قرآنی آیت ہی کو عنوان کے لیے منتخب کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے بقا کا ذریعہ بنایا ہے۔ (2) ہمارے نزدیک (قِيَامًا لِّلنَّاسِ) کے تین مطلب ہو سکتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ الناس سے مراد مکہ اور اس کے اردگرد کے لوگ لیے جائیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اس بے آب و گیاہ وادی میں کعبہ کا وجود مکہ اور آس پاس کے تمام لوگوں کی معاش کا ذریعہ ہے۔ اقصائے عالم سے آنے والے لوگوں کو قیام و طعام اور نقل و حرکت کی خدمات مہیا کرنے کے عوض انہیں اس قدر آمدنی ہو جاتی ہے جسے وہ ہر سال بھر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ٭ الناس سے مراد صرف عرب کے لوگ ہیں۔ یہ لوگ حرمت والے مہینوں میں بڑی آزادی سے سفر کرتے ہیں۔ کعبہ پورے ملک کی تمدنی اور معاشی زندگی کا سہارا بنا ہوا ہے۔ ٭ الناس سے مراد اس دور سے لے کر قیامت تک آنے والے لوگ لیے جائیں۔ اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ کعبہ کا وجود تمام دنیا کے لیے قیام اور بقا کا باعث ہے۔ دنیا کا وجود اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔ جب اللہ کو منظور ہو گا کہ یہ کارخانہ عالم ختم کر دیا جائے تو اس وقت بیت اللہ کو اٹھا لیا جائے گا۔ امام بخاری ؒ نے اس آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کے تحت حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی وہ حدیث بیان کی ہے جس میں ایک حبشی کے ہاتھوں انہدام کعبہ کا ذکر ہے۔ (3) اس سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوا کہ اس حبشی کے ناپاک عمل سے پہلے کوئی مضبوط اور طاقتور دشمن کعبہ کو منہدم نہیں کر سکے گا اور اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے گا جیسا کہ اصحاب الفیل کا واقعہ اس کے لیے شاہد عدل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ ہر اس شخص، قوم یا حکومت کو ہلاک کر دے گا جو تخریب کعبہ کی مذموم حرکت کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زیاد بن سعد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا ایک حقیر حبشی تباہ کردے گا۔
حدیث حاشیہ:
مگر یہ قیامت کے قریب اس وقت ہوگا جب زمین پر ایک بھی مسلمان باقی نہ رہے گا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی کلمہ گو مسلمان باقی ہے کعبہ شریف کی طرف کوئی دشمن آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اہل اسلام بلحاظ تعداد ہر زمانہ میں بڑھتے ہی رہے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج بھی ساٹھ ستر کروڑ مسلمان دنیا میں موجود ہیں۔ کثر اللہ أمة الإسلام آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet;; said, "Dhus-Suwaiqa-tain (literally: One with two lean legs) from Ethiopia will demolish the Ka’bah."