Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Fasting is obligatory in (the month of) Ramadan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے ایمان والو ! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم گناہوں سے بچو۔ “
1839.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘
تشریح:
(1) یہ دونوں احادیث رمضان کے روزوں کی فرضیت کے لیے واضح دلیل ہیں۔ ان میں صراحت ہے کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہو گئی۔ (عمدۃالقاري:8/7) (2) اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہمارے لیے عاشوراء کا روزہ سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فرض تھا یا سنت؟ اس میں اختلاف ہے۔ روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشوراء کا روزہ واجب تھا، پھر رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے، البتہ جن ایام میں انہیں روزہ رکھنے کی عادت تھی اگر ان دنوں میں عاشوراء آ جاتا تو روزہ رکھ لیتے۔ اس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ روزہ متروک ہے لیکن ایسا نہیں کیونکہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے صاف ظاہر ہے کہ عاشوراء کا روزہ منسوخ ہو جانے کے بعد اس دن کا روزہ رکھنے کے متعلق اختیار دے دیا گیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘ اس روایت سے عاشوراء کے روزے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ آئے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1839
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1893
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1893
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1893
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ سے رمضان کے روزوں کی فرضیت کو ثابت کیا ہے۔ جو شخص اس فرضیت کا انکار کرے وہ بالاتفاق دین اسلام سے خارج ہے۔ فریضۂ رمضان، شعبان 2ھ میں نازل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو سال ماہ رمضان کے روزے رکھے۔( عمدۃالقاری:4/8)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے ایمان والو ! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم گناہوں سے بچو۔ “
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہ دونوں احادیث رمضان کے روزوں کی فرضیت کے لیے واضح دلیل ہیں۔ ان میں صراحت ہے کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہو گئی۔ (عمدۃالقاري:8/7) (2) اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہمارے لیے عاشوراء کا روزہ سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فرض تھا یا سنت؟ اس میں اختلاف ہے۔ روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشوراء کا روزہ واجب تھا، پھر رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے، البتہ جن ایام میں انہیں روزہ رکھنے کی عادت تھی اگر ان دنوں میں عاشوراء آ جاتا تو روزہ رکھ لیتے۔ اس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ روزہ متروک ہے لیکن ایسا نہیں کیونکہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے صاف ظاہر ہے کہ عاشوراء کا روزہ منسوخ ہو جانے کے بعد اس دن کا روزہ رکھنے کے متعلق اختیار دے دیا گیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘ اس روایت سے عاشوراء کے روزے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ آئے گی۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے اور ان سے عراک بن مالک نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی کہ ام المومنین عائشہ ؓ نے فرمایا، قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): (The tribe of) Quraish used to fast on the day of Ashura' in the Pre-lslamic period, and then Allah's Apostle (ﷺ) ordered (Muslims) to fast on it till the fasting in the month of Ramadan was prescribed; whereupon the Prophet (ﷺ) said, "He who wants to fast (on 'Ashura') may fast, and he who does not want to fast may not fast."