باب: ایسے بستر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جس پر حائضہ عورت ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer Salat (prayer) facing a bed occupied by a menstruatng woman)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
514.
حضرت میمونہ ؓ ہی سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں: نبی ﷺ اس طرح نماز پڑھتے تھے کہ میں آپ کے برابر سوئی ہوتی۔ جب آپ سجدے میں جاتے تو آپ کا کپڑا میرے جسم پر آ جاتا جبکہ میں بحالت حیض ہوتی تھی۔
تشریح:
1۔ اس سے پہلے بچی کا معاملہ تھا پاکی اور ناپاکی کا ذکر نہیں تھا اس باب میں بالغ عورت کا معاملہ ہے وہ بھی بحالت حیض نمازی کے قریب ہی یعنی اگر بالغ عورت اسی بستر پر ہو جس پر نمازی نماز پڑھ رہا ہے تو عورت سامنے ہو یا برابر حالت حیض میں ہو یا حالت طہر میں نمازی کی نماز میں کوئی نقصان نہیں آئے گا بلکہ اگر نمازی کے کپڑوں کا اتصال بھی عورت سے ہو جائے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں۔علامہ ابن بطال لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اور سابقہ احادیث جن میں عورت کے نمازی اور قبلے کے درمیان لیٹنے کا ذکر ہے اس بات کی دلیل ہیں کہ عورت نمازی کے سامنے بیٹھ سکتی ہے مگر اس کا سامنے سے گزرنا توکسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ حالانکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد مُرور(گزرنے) کا غیر قاطع ہونا ثابت کرنا ہے۔ (شرح ابن بطال: 2/ 145) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عنوان اس مقصد کے لیے نہیں ہے جو ابن بطال نے سمجھا ہے کیونکہ نمازی کے آگے لیٹنے کا مسئلہ تو پہلے بیان ہو چکا ہے اس مقام پر توصرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حائضہ عورت اگر نمازی کے پہلو میں ہو اور اس کا کپڑا بھی اسے چھورہا ہو تب بھی اس کی نماز میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس میں یہ بیان نہیں ہے کہ حائضہ نمازی اور اس کے قبلے کے درمیان ہو کیونکہ (اليٰ فِرَاش) کا مطلب صرف سامنے ہونا ہی نہیں بلکہ اگر دائیں یا بائیں ہوتو بھی لفظ (اليٰ) استعمال کیا جا سکتا ہے علاوہ ازیں دوسری حدیث میں وضاحت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں لیٹی ہوئی تھیں۔ (فتح الباري: 1/ 766) 2۔ پہلی روایت میں "حیال" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی مقابل اور سامنے کے ہیں لیکن دوسری روایت میں اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے لفظ جنب آیا ہے جس کے معنی پہلو کے ہیں اس لیے حیال کا مفہوم بھی بالکل مقابل یا سامنے ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر ترچھی ہو کر لیٹی ہو اور کچھ حصہ سامنے ہوتو اس پر لفظ "حیال" صادق آتا ہے اور "علی جنبه" بھی صادق آجائے گا اس سے معلوم ہوا کہ عورت محاذات میں ہو یا برابر میں حالت حیض میں ہو یا طہر میں خواہ نمازی کا کپڑا اسے مس بھی کر رہا ہو کسی بھی صورت میں نمازی کی نماز کے لیے نقصان دہ نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
514
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
518
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
518
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
518
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت میمونہ ؓ ہی سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں: نبی ﷺ اس طرح نماز پڑھتے تھے کہ میں آپ کے برابر سوئی ہوتی۔ جب آپ سجدے میں جاتے تو آپ کا کپڑا میرے جسم پر آ جاتا جبکہ میں بحالت حیض ہوتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس سے پہلے بچی کا معاملہ تھا پاکی اور ناپاکی کا ذکر نہیں تھا اس باب میں بالغ عورت کا معاملہ ہے وہ بھی بحالت حیض نمازی کے قریب ہی یعنی اگر بالغ عورت اسی بستر پر ہو جس پر نمازی نماز پڑھ رہا ہے تو عورت سامنے ہو یا برابر حالت حیض میں ہو یا حالت طہر میں نمازی کی نماز میں کوئی نقصان نہیں آئے گا بلکہ اگر نمازی کے کپڑوں کا اتصال بھی عورت سے ہو جائے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں۔علامہ ابن بطال لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اور سابقہ احادیث جن میں عورت کے نمازی اور قبلے کے درمیان لیٹنے کا ذکر ہے اس بات کی دلیل ہیں کہ عورت نمازی کے سامنے بیٹھ سکتی ہے مگر اس کا سامنے سے گزرنا توکسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ حالانکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد مُرور(گزرنے) کا غیر قاطع ہونا ثابت کرنا ہے۔ (شرح ابن بطال: 2/ 145) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عنوان اس مقصد کے لیے نہیں ہے جو ابن بطال نے سمجھا ہے کیونکہ نمازی کے آگے لیٹنے کا مسئلہ تو پہلے بیان ہو چکا ہے اس مقام پر توصرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حائضہ عورت اگر نمازی کے پہلو میں ہو اور اس کا کپڑا بھی اسے چھورہا ہو تب بھی اس کی نماز میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس میں یہ بیان نہیں ہے کہ حائضہ نمازی اور اس کے قبلے کے درمیان ہو کیونکہ (اليٰ فِرَاش) کا مطلب صرف سامنے ہونا ہی نہیں بلکہ اگر دائیں یا بائیں ہوتو بھی لفظ (اليٰ) استعمال کیا جا سکتا ہے علاوہ ازیں دوسری حدیث میں وضاحت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں لیٹی ہوئی تھیں۔ (فتح الباري: 1/ 766) 2۔ پہلی روایت میں "حیال" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی مقابل اور سامنے کے ہیں لیکن دوسری روایت میں اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے لفظ جنب آیا ہے جس کے معنی پہلو کے ہیں اس لیے حیال کا مفہوم بھی بالکل مقابل یا سامنے ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر ترچھی ہو کر لیٹی ہو اور کچھ حصہ سامنے ہوتو اس پر لفظ "حیال" صادق آتا ہے اور "علی جنبه" بھی صادق آجائے گا اس سے معلوم ہوا کہ عورت محاذات میں ہو یا برابر میں حالت حیض میں ہو یا طہر میں خواہ نمازی کا کپڑا اسے مس بھی کر رہا ہو کسی بھی صورت میں نمازی کی نماز کے لیے نقصان دہ نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبانی سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن شداد بن ہاد نے بیان کیا، کہا ہم نے حضرت میمونہ ؓ سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ نماز پڑھتے ہوتے اور میں آپ ﷺ کے برابر میں سوتی رہتی۔ جب آپ ﷺ سجدہ میں جاتے تو آپ کا کپڑا مجھے چھو جاتا حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
اوپر کی حدیث میں حضرت میمونہ ؓ کے حائضہ ہونے کی وضاحت نہ تھی۔ اس لیے حضرت امام ؒ دوسری حدیث لائے جس میں ان کے حائضہ ہونے کی وضاحت موجود ہے۔ ان سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت سامنے لیٹی ہو تو بھی نماز میں کوئی نقص لازم نہیں آتا۔ یہی حضرت امام کا مقصد باب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA): The Prophet (ﷺ) used to pray while I used to sleep beside him during my periods (menses) and in prostrations his garment used to touch me.