Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To shave the head and to have the head-hair cut short on finishing the Ihram)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1730.
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے بال قینچی سے چھوٹے کیے تھے۔
تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے سر کے بال حجۃ الوداع کے موقع پر منڈوائے تھے اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں چھوٹا کرایا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4411) حضرت امیر معاویہ ؓ نے عمرۂ جعرانه کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک قینچی سے چھوٹے کیے تھے کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے بال منڈوائے تھے۔ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نے آپ کے بال مبارک لوگوں میں تقسیم کیے تھے۔ اور عمرۂ قضاء جو سات ہجری میں ہوا اس وقت حضرت معاویہ ؓ مسلمان نہیں ہوئے تھے، اس لیے عمرۂ جعرانه میں انہوں نے یہ خدمت سر انجام دی ہو گی۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ صلح حدیبیہ اور عمرۃ القضاء کے درمیان مسلمان ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے والدین سے ڈرتے ہوئے اپنا اسلام پوشیدہ رکھا اور جب رسول اللہ ﷺ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اہل مکہ نے مکہ خالی کر دیا تھا تاکہ وہ اہل اسلام کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھ نہ سکیں، ممکن ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ اس وقت کسی وجہ سے مکہ مکرمہ ہی میں رہے ہوں اور رسول اللہ ﷺ کے بال چھوٹے کرنے کا موقع انہی حالات میں پیش آیا ہو۔ اور جن حضرات نے اس واقعے کو عمرۂ جعرانه سے متعلق بیان کیا ہے وہ اس لیے صحیح نہیں کہ جو حضرات اس وقت آپ ﷺ کے ہمراہ تھے ان میں حضرت معاویہ ؓ موجود نہیں تھے، پھر اس موقع پر آپ کا سر مونڈنے والا بنو بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند ہے۔ (فتح الباري:713/3) بہرحال امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ احرام کھولتے وقت بالوں کا مونڈنا اور چھوٹے کرنا دونوں جائز ہیں۔ اور مونڈنا افضل ہے کیونکہ اس میں بالکل زینت ختم ہو جاتی ہے اور حاجی کو ترک زینت ہی کا حکم ہے جبکہ بال چھوٹے کرانے میں زینت کا کچھ نہ کچھ حصہ سر پر باقی رہ جاتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1682
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1730
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1730
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1730
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے بال قینچی سے چھوٹے کیے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے سر کے بال حجۃ الوداع کے موقع پر منڈوائے تھے اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں چھوٹا کرایا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4411) حضرت امیر معاویہ ؓ نے عمرۂ جعرانه کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک قینچی سے چھوٹے کیے تھے کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے بال منڈوائے تھے۔ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نے آپ کے بال مبارک لوگوں میں تقسیم کیے تھے۔ اور عمرۂ قضاء جو سات ہجری میں ہوا اس وقت حضرت معاویہ ؓ مسلمان نہیں ہوئے تھے، اس لیے عمرۂ جعرانه میں انہوں نے یہ خدمت سر انجام دی ہو گی۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ صلح حدیبیہ اور عمرۃ القضاء کے درمیان مسلمان ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے والدین سے ڈرتے ہوئے اپنا اسلام پوشیدہ رکھا اور جب رسول اللہ ﷺ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اہل مکہ نے مکہ خالی کر دیا تھا تاکہ وہ اہل اسلام کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھ نہ سکیں، ممکن ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ اس وقت کسی وجہ سے مکہ مکرمہ ہی میں رہے ہوں اور رسول اللہ ﷺ کے بال چھوٹے کرنے کا موقع انہی حالات میں پیش آیا ہو۔ اور جن حضرات نے اس واقعے کو عمرۂ جعرانه سے متعلق بیان کیا ہے وہ اس لیے صحیح نہیں کہ جو حضرات اس وقت آپ ﷺ کے ہمراہ تھے ان میں حضرت معاویہ ؓ موجود نہیں تھے، پھر اس موقع پر آپ کا سر مونڈنے والا بنو بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند ہے۔ (فتح الباري:713/3) بہرحال امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ احرام کھولتے وقت بالوں کا مونڈنا اور چھوٹے کرنا دونوں جائز ہیں۔ اور مونڈنا افضل ہے کیونکہ اس میں بالکل زینت ختم ہو جاتی ہے اور حاجی کو ترک زینت ہی کا حکم ہے جبکہ بال چھوٹے کرانے میں زینت کا کچھ نہ کچھ حصہ سر پر باقی رہ جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے حسن بن مسلم نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے بیان کیا، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور ان سے معاویہ ؓ نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے بال قینچی سے کاٹے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ارکان حج کی بجا آوری کے بعد حاجی کو سر کے بال منڈانے ہیں یا کتروانے، ہر دو صورتیں جائز ہیں، مگر منڈانے والوں کے لیے آپ ﷺ نے تین بار مغفرت کی دعا فرمائی اور کتروانے والوں کے لیے ایک بار، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنداللہ اس موقع پر بالوں کا منڈوانا زیادہ محبوب ہے۔ اس روایت میں حضرت معاویہ کا بیان وارد ہوتا ہے، اس کے وقت کی تعیین کرنے میں شارحین کے مختلف اقوال ہیں۔ یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے متعلق نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہو کیوں کہ اصحاب سیر کے بیان کے مطابق آنحضرت ﷺ نے ہجرت سے پہلے بھی حج کئے ہیں۔ علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وقد أخرج بن عساكر في تاريخ دمشق من ترجمة معاوية تصريح معاوية بأنه أسلم بين الحديبية والقضية وأنه كان يخفي إسلامه خوفا من أبويه وكان النبي صلى الله عليه وسلم لما دخل في عمرة القضية مكة خرج أكثر أهلها عنها حتى لا ينظرونه وأصحابه يطوفون بالبيت فلعل معاوية كان ممن تخلف بمكة لسبب اقتضاه ولا يعارضه أيضا قول سعد بن أبي وقاص فيما أخرجه مسلم وغيره فعلناها يعني العمرة في أشهر الحج وهذا يومئذ كافر بالعرش بضمتين يعني بيوت مكة يشير إلى معاوية لأنه يحمل على أنه أخبر بما استصحبه من حاله ولم يطلع على إسلامه لكونه كان يخفيه ويعكر على ما جوزوه أن تقصيره كان في عمرة الجعرانة أن النبي صلى الله عليه وسلم ركب من الجعرانة بعد أن أحرم بعمرة ولم يستصحب أحدا معه إلا بعض أصحابه المهاجرين فقدم مكة فطاف وسعى وحلق ورجع إلى الجعرانة فأصبح بها كبائت فخفيت عمرته على كثير من الناس كذا أخرجه الترمذي وغيره ولم يعد معاوية فيمن صحبه حينئذ ولا كان معاوية فيمن تخلف عنه بمكة في غزوة حنين حتى يقال لعله وجده بمكة بل كان مع القوم وأعطاه مثل ما أعطى أباه من الغنيمة مع جملة المؤلفة وأخرج الحاكم في الإكليل في آخر قصة غزوة حنين أن الذي حلق رأسه صلى الله عليه وسلم في عمرته التي اعتمرها من الجعرانة أبو هند عبد بني بياضة فإن ثبت هذا وثبت أن معاوية كان حينئذ معه أو كان بمكة فقصر عنه بالمروة أمكن الجمع بأن يكون معاوية قصر عنه أولا وكان الحلاق غائبا في بعض حاجته ثم حضر فأمره أن يكمل إزالة الشعر بالحلق لأنه أفضل ففعل وإن ثبت أن ذلك كان في عمرة القضية وثبت أنه صلى الله عليه وسلم حلق فيها جاء هذا الاحتمال بعينه وحصل التوفيق بين الأخبار كلها وهذا مما فتح الله علي به في هذا الفتح ولله الحمد ثم لله الحمد أبدا۔ (فتح الباري)خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ حضرت معاویہ ؓ سال حدیبیہ اور سال عمرۃ القضاء کے درمیان اسلام لا چکے تھے، مگر وہ والدین کے ڈر سے اپنے اسلام کو ظاہر نہیں کر رہے تھے، عمرۃ القضاء میں جب کہ آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب طواف کعبہ میں مشغول تھے تمام کفار مکہ شہر چھوڑ کر باہر چلے گئے تاکہ وہ اہل اسلام کو دیکھ نہ سکیں اس موقع پر شاید حضرت معاویہ ؓ مکہ شریف ہی میں رہ گئے ہوں ( اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ بھی اسی وقت سے تعلق رکھتا ہو ) اور سعد بن وقاص ؓ کا وہ قول جسے مسلم نے روایت کیا ہے اس کے خلاف نہیں ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت معاویہ ؓ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ شریف کے کسی گھر میں چھت پر چھپے ہوئے تھے۔ یہ اس لیے کہ وہ اپنے اسلام کو اپنے رشتہ داروں سے ابھی تک پوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور جس نے اس واقعہ کو عمرہ جعرانہ سے متعلق بتلایا ہے وہ درست نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ اس موقع پر جو صحابہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے ان میں حضرت معاویہ ؓ کا شمار نہیں ہے اور غزوہ حنین کے موقع پر انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مال غنیمت سے مولفین میں شامل ہو کر حصہ لیا تھا۔ غزوہ حنین کے قصہ کے آخر میں حاکم نے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر آپ ﷺ کا سر مونڈنے والا بنی بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند تھا، اگر یہ ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہو جائے کہ حضرت معاویہ ؓ اس دن آپ ﷺ کے ساتھ تھے یا مکہ میں موجود تھے تو یہ امکان ہے کہ انہوں نے پہلے آپ ﷺ کے بال قینچی سے کترے ہوں اور حلاق اس وقت غائب رہاہو پھر اس کے آجانے پر اس سے کرایا ہو کیوں کہ حلق افضل ہے اور اگر یہ عمرۃ القضیہ میں ثابت ہو جب کہ وہاں بھی آپ ﷺ کا حلق ثابت ہے تو یہ احتمال صحیح ہے کہ اس موقع پر انہوں نے یہ خدمت انجام دی ہو۔ مختلف روایات میں تطیبق کی یہ توفیق محض اللہ کے فضل سے حاصل ہوئی ہے۔و للہ الحمد۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muawiyah (RA): I cut short the hair of Allah's Messenger (ﷺ) with a long blade.