Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Whoever refused to accept a present)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ ہدیہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہد یہ تھا، لیکن آج کل تو رشوت ہے۔
2596.
حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ کے صحابی ہیں، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک گورخر تحفے کے طور پر پیش کیا۔ آپ اس وقت ابواء یا ودان میں حالت احرام میں تھے۔ ۔ ۔ آپ نے وہ (گورخر) واپس کردیا۔ جب آپ ﷺ نے ہدیہ واپس کردینے کی وجہ سے میرے چہرے پر ناگواری دیکھی تو فرمایا: ’’تمہارا ہدیہ واپس کرنا مناسب تو نہ تھا لیکن بات یہ ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔‘‘
تشریح:
احادیث میں ہدیہ قبول کرنے کی بہت ترغیب دی گئی ہے لیکن کسی وجہ سے واپس بھی کیا جا سکتا ہے، اس کے کئی ایک اسباب ہیں، مثلاً: ذاتی طور پر کسی حرام چیز کا ہدیہ ہو، جیسے کسی نے شراب کی بوتل بطور ہدیہ دی ہے تو اسے قبول نہ کیا جائے یا ذاتی طور پر وہ حرام نہیں لیکن کسی خارجی سبب کے پیش نظر اس کا استعمال صحیح نہیں، جیسے محرم کے لیے شکار جائز نہیں۔ اگر کوئی محرم کو زندہ شکار پیش کرے تو اس کا قبول کرنا بھی صحیح نہیں جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ یا سرکاری اہل کار کو کوئی تحفہ پیش کیا جائے تاکہ اس سے کسی ناجائز کام میں تعاون لیا جائے تو شریعت میں یہ ہدیہ نہیں بلکہ اسے رشوت کہا گیا ہے جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا ارشاد گرامی پہلے گزر چکا ہے اور آئندہ حدیث میں بھی اس کی وضاحت ہو گی۔ بہرحال کسی معتبر اور شرعی سبب کی بنا پر ہدیہ واپس کیا جا سکتا ہے لیکن واپس کرتے وقت اس کی وجہ بھی بتا دی جائے تاکہ ہدیہ دینے والے کو حوصلہ شکنی کا احساس نہ ہو یا اسے اپنی غلط روش کا پتہ چل جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2506
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2596
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2596
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2596
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس روایت کو ابن سعد نے طبقات میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:5/271،والطبقات الکبریٰ لابن سعد:5/377) ان کے فرمان کا مطلب ہے کہ آج دنیا اس قدر بدل چکی ہے کہ لوگ ہدیہ اللہ کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لیے دیتے ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ ہدیہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہد یہ تھا، لیکن آج کل تو رشوت ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ کے صحابی ہیں، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک گورخر تحفے کے طور پر پیش کیا۔ آپ اس وقت ابواء یا ودان میں حالت احرام میں تھے۔ ۔ ۔ آپ نے وہ (گورخر) واپس کردیا۔ جب آپ ﷺ نے ہدیہ واپس کردینے کی وجہ سے میرے چہرے پر ناگواری دیکھی تو فرمایا: ’’تمہارا ہدیہ واپس کرنا مناسب تو نہ تھا لیکن بات یہ ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
احادیث میں ہدیہ قبول کرنے کی بہت ترغیب دی گئی ہے لیکن کسی وجہ سے واپس بھی کیا جا سکتا ہے، اس کے کئی ایک اسباب ہیں، مثلاً: ذاتی طور پر کسی حرام چیز کا ہدیہ ہو، جیسے کسی نے شراب کی بوتل بطور ہدیہ دی ہے تو اسے قبول نہ کیا جائے یا ذاتی طور پر وہ حرام نہیں لیکن کسی خارجی سبب کے پیش نظر اس کا استعمال صحیح نہیں، جیسے محرم کے لیے شکار جائز نہیں۔ اگر کوئی محرم کو زندہ شکار پیش کرے تو اس کا قبول کرنا بھی صحیح نہیں جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ یا سرکاری اہل کار کو کوئی تحفہ پیش کیا جائے تاکہ اس سے کسی ناجائز کام میں تعاون لیا جائے تو شریعت میں یہ ہدیہ نہیں بلکہ اسے رشوت کہا گیا ہے جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا ارشاد گرامی پہلے گزر چکا ہے اور آئندہ حدیث میں بھی اس کی وضاحت ہو گی۔ بہرحال کسی معتبر اور شرعی سبب کی بنا پر ہدیہ واپس کیا جا سکتا ہے لیکن واپس کرتے وقت اس کی وجہ بھی بتا دی جائے تاکہ ہدیہ دینے والے کو حوصلہ شکنی کا احساس نہ ہو یا اسے اپنی غلط روش کا پتہ چل جائے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: ہدیہ تو رسول اللہﷺ کے زمانے میں ہوا کرتاتھا، آج کل تو یہ رشوت کا روپ دھا ر چکاہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عباس ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے صعب بن جثامہ لیثی ؓ سے سنا، وہ اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے تھے۔ ان کا بیان تھا کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک گورخر ہدیہ کیا تھا۔ آپ اس وقت مقام ابواء یا ودان میں تھے اور محرم تھے۔ آپ نے وہ گورخر واپس کردیا۔ صعب ؓ نے کہا کہ اس کے بعد جب آپ نے میرے چہرے پر (ناراضی کا اثر) ہد یہ کی واپسی کی وجہ سے دیکھا، تو فرمایا کہ ہدیہ واپس کرنا مناسب تو نہ تھا لیکن بات یہ ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
گویا کسی وجہ کی بنا پر ہدیہ واپس بھی کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ وجہ معقول اور شرعی ہو۔ وہ ہدیہ بھی ناجائز ہے جو کسی ناجائز مقصد کے حصول کے لیے بطور رشوت پیش کیا جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ارشاد کا یہی مقصد ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ فإن کان لمعصیة فلا یحل وهو الرشوة و إن کان لطاعة فیستحب و إن کان لجائز فجائزان کا مطلب بھی وہی ہے جو مذکور ہوا کہ رشوت کسی گناہ کے لیے ہو تو وہ حلال نہیں ہے اور اگر جائز کام کے لیے ہے تو وہ مستحب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA): That he heard As-Sa'b bin Jaththama Al-Laithi, who was one of the companions of the Prophet, saying that he gave the meat of an onager to Allah's Apostle (ﷺ) while he was at a place called Al-Abwa' or Waddan, and was in a state of Ihram. The Prophet (ﷺ) did not accept it. When the Prophet (ﷺ) saw the signs of sorrow on As-Sa'b's face because of not accepting his present, he said (to him), "We are not returning your present, but we are in the state of Ihram." (See Hadith No. 747)