مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3479.
حضرت عقبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت حذیفہ ؓ سے کہا: کیا آپ ہمیں کوئی ایسی حدیث سناتے ہیں جو آپ نے نبی کریم ﷺ سے سنی ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ایک شخص کی موت قریب آگئی۔ جب وہ زندگی سے مایوس ہوگیا تو اپنے اہل خانہ کو اس نے یہ وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میرےلیے بہت سی لکڑیاں جمع کرکے آگ کا ایک الاؤ تیار کرنا۔ جب آگ میرا گوشت کھا جائے اور ہڈیوں تک پہنچ جائے تو ان ہڈیوں کو اکٹھا کرکے خوب پیس لینا۔ پھر کسی گرمی یا آندھی کے دن اسےدریا میں بہا دینا۔ (انھوں نے ایسا ہی کیا۔) اللہ تعالیٰ نے اس کے اجزاء کو جمع کرکے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا: تیرے خوف سے ایسا کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔‘‘ حضرت عقبہ نے کہا: میں نے حضرت حذیفہ ؓ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا۔ ایک روایت میں شک کے بغیر ’’سخت آندھی کے دن‘‘ کے الفاظ ہیں۔
تشریح:
1۔ اس حدیث میں حضرت عقبہ سے مراد حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو بدری ؓ ہیں اور اس سے پہلے حدیث 3478۔ میں عقبہ بن عبدالغافر ہیں یہ دونوں الگ الگ ہیں اس حدیث کی تشریح ہو چکی ہے۔ دیکھیں حدیث 3452۔ وہاں اس آدمی کے متعلق وضاحت تھی کہ وہ کفن چور تھا۔ بہر حال اس شخص نے اپنے خیال کے مطابق اخروی عذاب سے بچنے کا ایک خود ساختہ طریقہ تجویز کیا مگر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اس نے راکھ کے ایک ایک ذرے کو جمع کر کے اس شخص کو حساب کے لیے اپنے سامنے کھڑا کر لیا۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسے باطل خیالات سرا سر فطرت انسانی کے خلاف ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3347
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3479
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3479
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3479
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت بنی اسرائیل کے عجیب و غریب واقعات بیان ہوں گے۔گویا یہ پچھلے عنوان کا تتمہ ہے۔
حضرت عقبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت حذیفہ ؓ سے کہا: کیا آپ ہمیں کوئی ایسی حدیث سناتے ہیں جو آپ نے نبی کریم ﷺ سے سنی ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ایک شخص کی موت قریب آگئی۔ جب وہ زندگی سے مایوس ہوگیا تو اپنے اہل خانہ کو اس نے یہ وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میرےلیے بہت سی لکڑیاں جمع کرکے آگ کا ایک الاؤ تیار کرنا۔ جب آگ میرا گوشت کھا جائے اور ہڈیوں تک پہنچ جائے تو ان ہڈیوں کو اکٹھا کرکے خوب پیس لینا۔ پھر کسی گرمی یا آندھی کے دن اسےدریا میں بہا دینا۔ (انھوں نے ایسا ہی کیا۔) اللہ تعالیٰ نے اس کے اجزاء کو جمع کرکے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا: تیرے خوف سے ایسا کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔‘‘ حضرت عقبہ نے کہا: میں نے حضرت حذیفہ ؓ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا۔ ایک روایت میں شک کے بغیر ’’سخت آندھی کے دن‘‘ کے الفاظ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں حضرت عقبہ سے مراد حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو بدری ؓ ہیں اور اس سے پہلے حدیث 3478۔ میں عقبہ بن عبدالغافر ہیں یہ دونوں الگ الگ ہیں اس حدیث کی تشریح ہو چکی ہے۔ دیکھیں حدیث 3452۔ وہاں اس آدمی کے متعلق وضاحت تھی کہ وہ کفن چور تھا۔ بہر حال اس شخص نے اپنے خیال کے مطابق اخروی عذاب سے بچنے کا ایک خود ساختہ طریقہ تجویز کیا مگر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اس نے راکھ کے ایک ایک ذرے کو جمع کر کے اس شخص کو حساب کے لیے اپنے سامنے کھڑا کر لیا۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسے باطل خیالات سرا سر فطرت انسانی کے خلاف ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سےمسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سےعبدالملک بن عمیر نے، ان سے ربعی بن حراش نےبیان کیا کہ عقبہ بن عمرو ابومسعود انصاری سے کہا کہ آپ نےنبی کریم ﷺ سےجوحدیثیں سنی ہیں وہ آپ ہم سےکیوں بیان نہیں کرتے؟ حذیفہ نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کویہ کہتےسنا تھا کہ ایک شخص کوموت کاوقت جب قریب ہوا اور وہ زندگی سےبالکل نا امید ہوگیا تو اپنے گھر والوں کووصیت کی کہ جب میری موت ہوجائے تو پہلے میرے لیے بہت سی لکڑیاں جمع کرنا اوراس سے آگ جلانا۔ جب آگ میرے جسم کاخاکستر بناچکے اورصرف ہڈیاں باقی رہ جائیں توہڈیوں کوپیس لینا اور کسی سخت گرمی کےدن میں یا (یوں فرمایا کہ) سخت ہوا کےدن میں مجھ کوہوا میں اڑا دینا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے جمع کیا اور پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے کہا کہ تیرے ہی ڈر سے۔ آخر اللہ تعالیٰ نےاس کوبخش دیا۔ عقبہ نے کہا کہ میں نے بھی آنحضرت ﷺ کوفرماتے ہوئےیہ حدیث سنی ہے۔ ہم سے موسیٰ نےبیان کیا، کہا ہم سے اس روایت میں فی یو م راح ہے (سواشک کے) اس کےمعنی بھی کسی تیز ہوا کےدن کےہیں۔
حدیث حاشیہ:
بعض روایتوں میں اس کوکفن چور بتلایا گیاہے۔ بہرحال اس نے خیال باطل میں اخروی عذابوں سےبچنے کایہ راستہ سوچا تھامگر اللہ ہرچیز پرقادر ہے۔ اس نے اس راکھ کےذرے کوجمع فرماکر اس کو حساب کےلیے کھڑا کردیا۔ایسے توہمات باطلہ سرا سر فطرت انسانی کےخلاف ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ribi bin Hirash (RA): 'Uqba said to Hudhaifa, "Won't you narrate to us what you heard from Allah's Apostle (ﷺ) ?" Hudhaifa said, "I heard him saying, 'Death approached a man and when he had no hope of surviving, he said to his family, 'When I die, gather for me much wood and build a fire (to burn me),. When the fire has eaten my flesh and reached my bones, take the bones and grind them and scatter the resulting powder in the sea on a hot (or windy) day.' (That was done.) But Allah collected his particles and asked (him), 'Why did you do so?' He replied, 'For fear of You.' So Allah forgave him."