باب : مہر نبوت کا بیان ( جو آپ کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تھی )
)
Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The seal of Prophethood)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3541.
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کےپاس لے گئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! یہ میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ پھر میں آپ کی پشت کی جانب کھڑا ہوا تو میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا۔ (راوی حدیث) ابن عبید اللہ کہتے ہیں کہ حجله حجة الفرس سے مشتق ہے جو گھوڑے کی اس سفیدی کو کہتے ہیں کہ جو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ہوتی ہے۔ (ایک دوسرے راوی حدیث)ابراہیم بن حمزہ نے کہا: وہ مہر نبوت مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی۔
تشریح:
1۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد احادیث سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ یہ مہر نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر نہیں تھی،فرشتوں نے شق صدر کے وقت علامت کے طور پر دونوں کندھوں کے درمیان لگا دی تھی۔واللہ أعلم۔(فتح الباري:687/6)2۔وہ مہر نبوت زرالحجلہ کی طرح تھی جیسا کہ دوسری روایات میں اس کی صراحت ہے۔(صحیح البخاري، المرضیٰ، حدیث:5670)زرالحجلہ کی تفسیر دوطرح سے کی گئی ہے۔الف۔حجلہ ایک پرندہ ہے جو کبوتر کی مانند ہوتاہے۔اس کی چونچ اورپاؤں سرخ ہوتے ہیں۔اس کاگوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔زر،اس کے انڈے کو کہتے ہیں۔اس معنی کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرنبوت آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان دیکھی جو(مقدار میں) کبوتر کے انڈے جتنی اور (رنگت میں) آپ کے جسم جیسی تھی۔(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6084(2344)ب۔حجلہ دلہن کی ڈولی کو کہتے ہیں جو خوبصورت کپڑوں سے سجائی جاتی ہے۔اس کے بڑے بڑے بٹن ہوتے ہیں،یعنی مہر نبوت مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی جو کبوتر کے انڈے کے برابر بیضوی شکل میں اس پردے پر لگائی جاتی ہیں جو مسہری پر لٹکایا جاتاہے۔اکثر علماء نے اس آخری معنی کو راجح قراردیاہے۔3۔حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل ہوا،نیز مجھے آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا شرف بھی ملا۔میں نے اس علامت،یعنی مہرنبوت کودیکھا جو آپ کے بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس تھی جومقدار میں بند مٹھی کے برابر تھی۔اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹا تھا۔(مسند أحمد:82/5)علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں:بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مہرنبوت آپ کے بائیں کندھے کے پاس ایک ابھری ہوئی چیز تھی۔اس کی مقدار کم ہونے کی صورت میں کبوتر کے انڈے کے برابر زیادہ ہونے کی شکل میں بند مٹھی جتنی تھی۔(فتح الباري:688/6)اس سلسلے میں حضرت ابوزید عمرو بن اخطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک مرتبہ کمر پر ہاتھ پھیرنے کے لیے کہا:میں نے آپ کی کمر پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا تو اچانک میری انگلیاں مہر نبوت سے جالگیں۔راوی کہتا ہے کہ ان سے پوچھا گیا:مہرنبوت کیا چیز تھی؟ توانھوں نے جواب دیا کہ چند بالوں کا مجموعہ تھا۔(مسند أحمد:77/5)4۔حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک تفصیلی روایت مروی ہے فرماتے ہیں :میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت حاضر ہوا جب آپ کے ہاں لوگوں کا جمگھٹا تھا۔میں نے یونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پس پشت چکر لگایا تو آپ میرا مقصد سمجھ گئے۔آپ نے اپنی پشت مبارک سے چادر اُتاری تو میں نے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مٹھی کے برابر مہر نبوت کو دیکھا جس کے چاروں طرف تل تھے جوگویا سوئی کے برابر معلوم ہوتے تھے،پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ تجھے بھی بخش دے۔‘‘لوگوں نے مجھے کہاکہ(آپ خوش نصیب ہیں کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے دعا فرمائی ہے۔میں نے کہا:ہاں! تم سب کے لیے بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!آپ مغفرت کی دعا کریں اپنے لیے بھی اور اہل ایمان مرد وخواتین کے لیے بھی۔(محمد:47/19 و صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6088(2346) 5۔علامہ سہیلی ؒنے لکھا ہے کہ آپ شیطانی وسوسوں سے محفوظ تھے،اس لیے مہرنبوت کو بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس ثبت کیاگیا۔یہی وہ جگہ ہے جہاں سے شیطان کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔(فتح الباري:689/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3408
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3541
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3541
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3541
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کےپاس لے گئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! یہ میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ پھر میں آپ کی پشت کی جانب کھڑا ہوا تو میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا۔ (راوی حدیث) ابن عبید اللہ کہتے ہیں کہ حجله حجة الفرس سے مشتق ہے جو گھوڑے کی اس سفیدی کو کہتے ہیں کہ جو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ہوتی ہے۔ (ایک دوسرے راوی حدیث)ابراہیم بن حمزہ نے کہا: وہ مہر نبوت مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد احادیث سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ یہ مہر نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر نہیں تھی،فرشتوں نے شق صدر کے وقت علامت کے طور پر دونوں کندھوں کے درمیان لگا دی تھی۔واللہ أعلم۔(فتح الباري:687/6)2۔وہ مہر نبوت زرالحجلہ کی طرح تھی جیسا کہ دوسری روایات میں اس کی صراحت ہے۔(صحیح البخاري، المرضیٰ، حدیث:5670)زرالحجلہ کی تفسیر دوطرح سے کی گئی ہے۔الف۔حجلہ ایک پرندہ ہے جو کبوتر کی مانند ہوتاہے۔اس کی چونچ اورپاؤں سرخ ہوتے ہیں۔اس کاگوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔زر،اس کے انڈے کو کہتے ہیں۔اس معنی کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرنبوت آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان دیکھی جو(مقدار میں) کبوتر کے انڈے جتنی اور (رنگت میں) آپ کے جسم جیسی تھی۔(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6084(2344)ب۔حجلہ دلہن کی ڈولی کو کہتے ہیں جو خوبصورت کپڑوں سے سجائی جاتی ہے۔اس کے بڑے بڑے بٹن ہوتے ہیں،یعنی مہر نبوت مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی جو کبوتر کے انڈے کے برابر بیضوی شکل میں اس پردے پر لگائی جاتی ہیں جو مسہری پر لٹکایا جاتاہے۔اکثر علماء نے اس آخری معنی کو راجح قراردیاہے۔3۔حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل ہوا،نیز مجھے آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا شرف بھی ملا۔میں نے اس علامت،یعنی مہرنبوت کودیکھا جو آپ کے بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس تھی جومقدار میں بند مٹھی کے برابر تھی۔اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹا تھا۔(مسند أحمد:82/5)علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں:بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مہرنبوت آپ کے بائیں کندھے کے پاس ایک ابھری ہوئی چیز تھی۔اس کی مقدار کم ہونے کی صورت میں کبوتر کے انڈے کے برابر زیادہ ہونے کی شکل میں بند مٹھی جتنی تھی۔(فتح الباري:688/6)اس سلسلے میں حضرت ابوزید عمرو بن اخطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک مرتبہ کمر پر ہاتھ پھیرنے کے لیے کہا:میں نے آپ کی کمر پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا تو اچانک میری انگلیاں مہر نبوت سے جالگیں۔راوی کہتا ہے کہ ان سے پوچھا گیا:مہرنبوت کیا چیز تھی؟ توانھوں نے جواب دیا کہ چند بالوں کا مجموعہ تھا۔(مسند أحمد:77/5)4۔حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک تفصیلی روایت مروی ہے فرماتے ہیں :میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت حاضر ہوا جب آپ کے ہاں لوگوں کا جمگھٹا تھا۔میں نے یونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پس پشت چکر لگایا تو آپ میرا مقصد سمجھ گئے۔آپ نے اپنی پشت مبارک سے چادر اُتاری تو میں نے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مٹھی کے برابر مہر نبوت کو دیکھا جس کے چاروں طرف تل تھے جوگویا سوئی کے برابر معلوم ہوتے تھے،پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ تجھے بھی بخش دے۔‘‘لوگوں نے مجھے کہاکہ(آپ خوش نصیب ہیں کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے دعا فرمائی ہے۔میں نے کہا:ہاں! تم سب کے لیے بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!آپ مغفرت کی دعا کریں اپنے لیے بھی اور اہل ایمان مرد وخواتین کے لیے بھی۔(محمد:47/19 و صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6088(2346) 5۔علامہ سہیلی ؒنے لکھا ہے کہ آپ شیطانی وسوسوں سے محفوظ تھے،اس لیے مہرنبوت کو بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس ثبت کیاگیا۔یہی وہ جگہ ہے جہاں سے شیطان کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔(فتح الباري:689/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمدبن عبید اللہ نے بیان کیا ، کہاہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ، ان سے جعید بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور انہوں نے سائب بن یزید ؓ سے سنا کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئیں اورانہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرا بھانجا بیمار ہوگیا ہے ۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے میرے سر پر دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی ۔ اس کے بعد آپ نے وضو کیاتو میں نے آپ کے وضو کا پانی پیا ، پھر آپ کی پیٹھ کی طرف جاکے کھڑا ہوگیا اور میں نے مہر نبوت کو آپ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان دیکھا ۔ محمد بن عبید اللہ نے کہا کہ حجلہ ، حجل الفرس سے مشتق ہے جو گھوڑے کی اس سفیدی کو کہتے ہیں جو اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں ہوتی ہے ۔ ابراہیم بن حمزہ نے کہا : مثل رزالحجلۃ یعنی رائے مہملہ پہلے پھر زائے معجمہ ۔ امام بخاری نے کہا کہ صحیح یہ ہے کہ رائے مہملہ پہلے ہے ۔
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب ؒ کہتے ہیں کہ یہ مہر ولادت کے وقت آپ کی پشت پر نہ تھی جیسے بعض نے گمان کیا ہے بلکہ شق صدر کے بعد فرشتوں نے یہ علامت کردی تھی۔ یہ مضمون ابوداود طیالسی اور حارث بن اسامہ نے اپنی مسندوں میں اور ابونعیم نے ’’دلائل النبوۃ ‘‘ میں اور امام احمد اور بیھقی نے روایت کیا ہے۔ مثل رزالحجلة اکثر نسخوں میں حدیث میں نہیں ہے اور صحیح یہ ہے کہ ہے کیوں کہ اگر حدیث میں نہ ہو تا تو محمد بن عبید اللہ اس لفظ کی تفسیر کیوں بیان کرتے اور بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے جیسے حجلہ کا انڈا اور حجلہ ایک پرندہ کانام ہے جو کبوتر سے چھوٹا ہوتا ہے۔ زر بتقدیم زائے معجمہ بر رائے مہملہ یا بتقدیم رائے مہملہ برزائے معجمہ یعنی رز دونوں طرح سے منقول ہے۔ رز سے مراد انڈا ہے۔ ابراہیم بن ہمزہ کی روایت کو خود امام بخاری ؒ نے کتاب الطب میں وارد کیا ہے۔ حافظ ؒنے کہا مجھ کو سائب بن یزید کی خالہ کانام معلوم نہیں ہوا۔ ہاں ان کی ماں کا نام ملبہ بنت شریح تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated As- Scab bin Yazid (RA): My aunt took me to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! My nephew is sick"' The Prophet (ﷺ) passed his hands over my head and blessed me. Then he performed ablution and I drank the remaining water, and standing behind him. A saw the seal in between his shoulders."