باب: جس مرد کا دودھ ہو وہ بھی دودھ پینے والے پر حرام ہو جاتا ہے(کیونکہ شیر خوار کا باپ بن جاتاہے)
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: The milk belongs to the husband)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5103.
سیدہ عائشہ سے روایت ہےکہ ابو قعیس کا بھائی افلح آیا اور اس نے گھر آنے کی اجازت طلب کی جبکہ وہ آپ کا رضاعی چچا تھا۔ یہ پردے کی آیات اترنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ (سیدہ عائشہ ؓ ) فرماتی ہیں: میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا: جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ نے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ اسے اجازت دے دیا کروں۔
تشریح:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ دودھ پینے سے صرف عورت کے ساتھ رشتۂ رضاعت قائم ہوتا ہے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی تفصیل ہے۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس افلح آئے تو میں نے پردہ کر لیا۔انھوں نے کہا: آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں جبکہ میں آپ کا چچا ہوں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: وہ کیسے؟ انھوں نے کہا: آپ کو میرے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ میں نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے اس کے شوہر نے تو نہیں پلایا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا: ’’وہ تیرا چچا ہے اور تیرے پاس آسکتا ہے۔‘‘(سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2057) اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے تمام رشتے داردودھ پینے والے کے عزیز و اقارب بن جاتے ہیں اور عورت کا خاوند اس کا رضاعی باپ بن جاتا ہے۔ (2)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ اگر ایک آدمی کی دو بیویاں ہوں،ان میں سے ایک نے کسی لڑکے کو اور دوسری نے کسی لڑکے کو دودھ پلایا ہو تو اس لڑکے اور لڑکی کا نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں لبن فحل کا اعتبار ہوگا، چونکہ دودھ خاوند کی وجہ سے آتا ہے، اس لیے اس کے اثرات دونوں بیویوں میں ہوں گے اور ان کے دودھ پلانے سے حرمت رضاعت قائم ہوگی۔ (فتح الباري: 190/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4906
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5103
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5103
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5103
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
اگر کوئی بچہ کسی اجنبی عورت کا دودھ پیتا ہے جبکہ اس عورت کا دودھ اس کے خاوند کی وجہ سے ہے تو کیا بچے اور اس خاوند کے درمیان حرمت رضاعت ہوگی یا نہیں؟اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ عورت کا خاوند اس بچے کا رضاعی باپ ہوگا کیونکہ عورت کے دودھ میں اس کا حصہ ہے۔مرد کی طرف دودھ کی نسبت مجازی ہے کیونکہ وہ عورت کے دودھ کا سبب ہے۔لبن فحل کی یہی حقیقت ہے۔
سیدہ عائشہ سے روایت ہےکہ ابو قعیس کا بھائی افلح آیا اور اس نے گھر آنے کی اجازت طلب کی جبکہ وہ آپ کا رضاعی چچا تھا۔ یہ پردے کی آیات اترنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ (سیدہ عائشہ ؓ ) فرماتی ہیں: میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا: جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ نے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ اسے اجازت دے دیا کروں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ دودھ پینے سے صرف عورت کے ساتھ رشتۂ رضاعت قائم ہوتا ہے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی تفصیل ہے۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس افلح آئے تو میں نے پردہ کر لیا۔انھوں نے کہا: آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں جبکہ میں آپ کا چچا ہوں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: وہ کیسے؟ انھوں نے کہا: آپ کو میرے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ میں نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے اس کے شوہر نے تو نہیں پلایا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا: ’’وہ تیرا چچا ہے اور تیرے پاس آسکتا ہے۔‘‘(سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2057) اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے تمام رشتے داردودھ پینے والے کے عزیز و اقارب بن جاتے ہیں اور عورت کا خاوند اس کا رضاعی باپ بن جاتا ہے۔ (2)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ اگر ایک آدمی کی دو بیویاں ہوں،ان میں سے ایک نے کسی لڑکے کو اور دوسری نے کسی لڑکے کو دودھ پلایا ہو تو اس لڑکے اور لڑکی کا نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں لبن فحل کا اعتبار ہوگا، چونکہ دودھ خاوند کی وجہ سے آتا ہے، اس لیے اس کے اثرات دونوں بیویوں میں ہوں گے اور ان کے دودھ پلانے سے حرمت رضاعت قائم ہوگی۔ (فتح الباري: 190/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے ، اوران سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ابو قعیس کے بھائی افلح نے ان کے یہاں اندر آنے کی اجازت چاہی۔ وہ حضرت عائشہ ؓ کے رضاعی چچا تھے (یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ) میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی پھر جب رسول کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کو ان کے ساتھ اپنے معاملے کو بتایا، آنحضرت ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں اندر آنے کی اجازت دے دوں۔
حدیث حاشیہ:
کیونکہ وہ ان کے رضاعی چچا تھے۔ اکثر علماء اور ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے کہ جیسے دودھ پلانے سے مرضعہ حرام ہو جاتی ہے ویسے ہی اس کا خاوند بھی اور اس کے عزیز بھی محرم ہو جاتے ہیں، جس خاوند کے جماع کی وجہ سے عورت کے دودھ ہوا ہے جنہوں نے اس کے خلاف کہا ہے ان کا کہنا غلط ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA) : that Aflah the brother of Abu Al-Qu'ais, her foster uncle, came, asking permission to enter upon her after the Verse of Al-Hijab (the use of veils by women) was revealed. 'Aisha (RA) added: I did not allow him to enter, but when Allah's Apostle (ﷺ) came, I told him what I had done, and he ordered me to give him permission.