Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Whoever said that there should be one Mu'adh-dhin in the journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
631.
حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم چند ایک ہم عمر نوجوان ساتھی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا۔ آپ انتہائی نرم دل اور بڑے مہربان تھے۔ جب آپ نے خیال کیا کہ ہمیں اپنے گھر والوں کا شوق بےچین کر رہا ہے تو آپ نے ہم سے ان کی احوال پرسی فرمائی جنہیں ہم اپنے پیچھے چھوڑے آئے تھے۔ ہم نے آپ کو ان کے حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’واپس اپنے اہل خانہ کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں کے پاس رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور انہیں اچھی باتوں کی تلقین کرو۔‘‘ آپ ﷺ نے مزید باتیں بیان فرمائیں جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان کہہ دے، البتہ تم میں سے عمر کے اعتبار سے بڑا جماعت کرائے۔‘‘
تشریح:
(1) حدیث سابق میں ابہام تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے۔ اس حدیث میں ان کی تعیین ہے کہ وہ حضرت مالک بن حویرث ؓ اور ان کے ساتھی تھے بلکہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت مالک بن حویرث ؓ خود فرماتےہیں کہ خود میں اور میرا ایک ساتھی رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس ہوئے۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث:2848) البتہ حدیث کی کسی روایت میں اس ساتھی کا نام ذکر نہیں ہوا۔ (فتح الباري:147/2) نیز پہلی حدیث میں کچھ اجمال تھا کہ تم دونوں اذان کہو۔ اس روایت میں تفصیل ہے کہ تم میں سے کوئی ایک اذان دے اور دوسرا تکبیر کہے، یعنی بیک وقت دونوں نے اذان نہیں دینی بلکہ کوئی ایک اذان کہے۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ دوران سفر میں اذان دی جائے اور تکبیر بھی کہی جائے، پھر جماعت کرائی جائے، خواہ سفر میں امیر ہو یا نہ ہو۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت مالک بن حویرث اور ان کے رفقاء کو نماز کے متعلق ایک خاص ہدایت فرمائی ہے کہ جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ نماز کے متعلق مذکورہ امر نبوی وجوب کےلیے ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اس امر نبوی میں وہ تمام اعمال آجاتے ہیں جو تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک بجالائے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی ہرہر ادا کو بجالانا ضروری ہے، البتہ اس کے استحباب یا جواز کی کوئی دلیل مل جائے تو وجوب کے بجائے استحباب اور جواز پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دلیل کے بغیر اعمال نماز کے متعلق استحباب و جواز کی تقسیم درست نہیں۔ عام طور پر رفع الیدین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے کرنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم منقول نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک رفع الیدین کرنے کا حکم اس امر نبوی کے تحت ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ إن شاء الله.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
626
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
631
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
631
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
631
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ دوران سفر میں صبح کی دو اذانیں نہ کہی جائیں بلکہ ایک اذان ہی کافی ہے۔
حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم چند ایک ہم عمر نوجوان ساتھی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا۔ آپ انتہائی نرم دل اور بڑے مہربان تھے۔ جب آپ نے خیال کیا کہ ہمیں اپنے گھر والوں کا شوق بےچین کر رہا ہے تو آپ نے ہم سے ان کی احوال پرسی فرمائی جنہیں ہم اپنے پیچھے چھوڑے آئے تھے۔ ہم نے آپ کو ان کے حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’واپس اپنے اہل خانہ کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں کے پاس رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور انہیں اچھی باتوں کی تلقین کرو۔‘‘ آپ ﷺ نے مزید باتیں بیان فرمائیں جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان کہہ دے، البتہ تم میں سے عمر کے اعتبار سے بڑا جماعت کرائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث سابق میں ابہام تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے۔ اس حدیث میں ان کی تعیین ہے کہ وہ حضرت مالک بن حویرث ؓ اور ان کے ساتھی تھے بلکہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت مالک بن حویرث ؓ خود فرماتےہیں کہ خود میں اور میرا ایک ساتھی رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس ہوئے۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث:2848) البتہ حدیث کی کسی روایت میں اس ساتھی کا نام ذکر نہیں ہوا۔ (فتح الباري:147/2) نیز پہلی حدیث میں کچھ اجمال تھا کہ تم دونوں اذان کہو۔ اس روایت میں تفصیل ہے کہ تم میں سے کوئی ایک اذان دے اور دوسرا تکبیر کہے، یعنی بیک وقت دونوں نے اذان نہیں دینی بلکہ کوئی ایک اذان کہے۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ دوران سفر میں اذان دی جائے اور تکبیر بھی کہی جائے، پھر جماعت کرائی جائے، خواہ سفر میں امیر ہو یا نہ ہو۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت مالک بن حویرث اور ان کے رفقاء کو نماز کے متعلق ایک خاص ہدایت فرمائی ہے کہ جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ نماز کے متعلق مذکورہ امر نبوی وجوب کےلیے ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اس امر نبوی میں وہ تمام اعمال آجاتے ہیں جو تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک بجالائے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی ہرہر ادا کو بجالانا ضروری ہے، البتہ اس کے استحباب یا جواز کی کوئی دلیل مل جائے تو وجوب کے بجائے استحباب اور جواز پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دلیل کے بغیر اعمال نماز کے متعلق استحباب و جواز کی تقسیم درست نہیں۔ عام طور پر رفع الیدین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے کرنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم منقول نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک رفع الیدین کرنے کا حکم اس امر نبوی کے تحت ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ إن شاء الله.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبدالوہاب نے خبر دی، کہا کہ ہمیں ابوایوب سختیانی نے ابوقلابہ سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے مالک بن حویرث نے بیان کیا، کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ ہم سب ہم عمر اور نوجوان ہی تھے۔ آپ کی خدمت مبارک میں ہمارا بیس دن و رات قیام رہا۔ آپ بڑے ہی رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ ہمیں اپنے وطن واپس جانے کا شوق ہے تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم لوگ اپنے گھر کسے چھوڑ کر آئے ہو۔ ہم نے بتایا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا اب تم اپنے گھر جاؤ اور ان گھر والوں کے ساتھ رہو اور انھیں بھی دین سکھاؤ اور دین کی باتوں پر عمل کرنے کا حکم کرو۔ مالک نے بہت سی چیزوں کا ذکر کیا جن کے متعلق ابو ایوب نے کہا کہ ابوقلابہ نے یوں کہا وہ باتیں مجھ کو یاد ہیں یا یوں کہا مجھ کو یاد نہیں۔ اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح نماز پڑھنا جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آ جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ حالت سفرمیں اگرچند مسلمان یکجا ہوں توان کو نماز اذان اور جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہئیے۔ ان نوجوانوں کو آپ نے بہت سی نصائح کے ساتھ آخرمیں یہ تاکید فرمائی کہ جیسے تم نے مجھ کونماز پڑھتے دیکھا ہے۔ عین اسی طرح میری سنت کے مطابق نماز پڑھنا۔ معلوم ہوا کہ نماز کا ہر ہر رکن فرض واجب مستحب سب رسول ﷺ کے بتلائے ہوئے طریقہ پرادا ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ نماز صحیح نہ ہوگی۔ اس معیار پر دیکھا جائے توآج کتنے نمازی ملیں گے جوبحالت قیام ورکوع وسجدہ و قومہ سنت رسول کوملحوظ رکھتے ہیں۔ سچ ہے:
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Malik (RA): We came to the Prophet (ﷺ) and stayed with him for twenty days and nights. We were all young and of about the same age. The Prophet (ﷺ) was very kind and merciful. When he realized our longing for our families, he asked about our homes and the people there and we told him. Then he asked us to go back to our families and stay with them and teach them (the religion) and to order them to do good things. He also mentioned some other things which I have (remembered or) forgotten. The Prophet (ﷺ) then added, "Pray as you have seen me praying and when it is the time for the prayer one of you should pronounce the Adhan and the oldest of you should lead the prayer.