تشریح:
(1) حضرت داود علیہ السلام آواز و قراءت کی خوب صورتی میں ضرب المثل بن چکے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کی قراءت کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی قراءت کا ذکر ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو خوب صورت آواز کو حضرت داود علیہ السلام کی آوازکے ساتھ تشبیہ دی۔ اور اس کے لیے (مزمار) کا لفظ استعمال فرمایا۔ [مزمار] کے معنیٰ بانسری ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بانسری کے ساتھ پڑھتے تھے بلکہ یہ تو صرف تشبیہ ہے کہ آواز اس طرح پرسوز اور پرکشش تھی جیسے بانسری ہو۔
(2) اچھی آواز کی تعریف کرنا درست ہے۔
(3) اچھی آواز والے قاری کی قراءت سننا مستحسن امر ہے۔