تشریح:
(1) جاہلیت سے مراد اسلام سے ماقبل کے رواج ہیں۔ عموماً ان کی بنیاد جاہلیت پر تھی، لہٰذا انھیں جاہلیت کہا گیا ہے۔
(2) ”بے حقیقت چیز ہے۔“ یعنی اس کی کوئی بنیاد نہیں، صرف ان کا دلی وہم ہے۔ بعض نے اس جملے کے یہ معنیٰ بھی کیے ہیں کہ ”ایسے خیالات تو دل میں آ ہی جایا کرتے ہیں، اس میں کوئی گناہ نہیں۔ ہاں: ایسے خیالات کی بنا پر وہ اپنے کام کاج سے نہ رکیں۔“
(3) ”کاہن“ غیب کی باتیں بتانے والے کو کہا جاتا ہے، خواہ وہ جنوں کی مدد سے بتائیں یا نجوم و خطوط اور لکیروں کی مدد سے یا اٹکل اور ظن و تخمین سے۔ چونکہ ان کی بات کی صحت یقینی نہیں ہوتی، لہٰذا ان سے پوچھنا اور ان کی بات پر یقین کرنا شریعت اسلامیہ میں منع ہے۔ ان کی غلط باتیں بسا اوقات باہمی تعلقات کی خرابی اور فساد کا موجب بنتی ہیں۔ عقیدہ الگ خراب ہوتا ہے، البتہ کبھی فراست و ذہانت کی بنا پر صحیح نتیجے تک پہنچ جانے والے کو بھی کاہن کہہ دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ مذموم نہیں، خصوصاً جب کہ ان کی بات دوسرے دلائل سے بالکل صحیح ثابت ہو جائے۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عمر و علی رضی اللہ عنہما اور قاضی شریح و ایاس رحمہما اللہ وغیرہ کے واقعات مشہور ہیں۔ لیکن فراست والی بات بھی اسی وقت صحیح ہوگی جب بعد میں وہ صحیح ثابت ہو جائے ورنہ کسی صاحب فراست کی بات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال کہانت حرام ہے اور اسے ماننا بھی، نیز کہانت کی طرح بدشگونی لینا بھی حرام ہے۔
(4) ”ایک نبی خط کھینچا کرتے تھے۔“ واللہ أعلم وہ کیسے خط کھینچتے تھے؟ کیا حساب تھا؟ کہیں صراحت نہیں ہے، لہٰذا شریعت اسلامیہ میں یہ قطعاً ممنوع ہے۔
(5) ”نماز میں لوگوں کی کسی قسم کی بات کرنا درست نہیں“ مذکورہ صحابی اس وقت اس مسئلے سے واقف نہیں تھے، لہٰذا انھیں معذور سمجھا اور قضا کا حکم نہیں دیا ورنہ آپ کے الفاظ صراحتاً ثابت کر رہے ہیں کہ اس صورت میں نماز نہ ہوگی۔
(6) ”جوانیہ“ مدینہ منورہ کے شمال میں احد پہاڑ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔
(7) ”بڑی غلطی“ کیونکہ وہ لونڈی بھیڑیے کے سامنے بے بس تھی اور بے قصور تھی۔
(8) ”آسمان میں“ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی سے پوچھا جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ اور جواب میں آسمان یا عرش کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی کوئی توہین نہیں ہوگی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف اوپر کو اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے عرش پر مستوی ہونے کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ نہ تو کسی جگہ کا محتاج ہو جائے گا نہ اس میں مقید۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں اس کے نظائر موجود ہیں، مثلاً: ارشاد باری ہے: ﴿أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ﴾ (الملك: ۱۷:۶۷) اسی طرح ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى﴾ (طه: ۵:۲۰) نیز حدیث شریف میں ہے: [ارحموا أھل الارض یرحمکم من في السمآء] (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: ۴۹۴۱) بعض لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی فکر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہے، اس قسم کی عبارات کو اللہ تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں سمجھتے مگر یہ ان کی بے علمی ہے۔ ان مسائل میں سلف صالحین (صحابہ و تابعین) اور محدثین کا مسلک ہی صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات جو قرآن مجید اور احادیث صحیحیہ و صریح سے ثابت ہیں، انھیں بلاجھجک مانا جائے، بولا جائے اور کسی قسم کی تاویل نہ کی جائے، نہ ان میں بحث کی جائے کیونکہ یہ چیزیں انسان کی عقل سے ماوراء ہیں۔ ان کی حقیقت اللہ عزوجل کے سپرد کر دی جائے۔ تشبیہ دی جائے نہ انکار کیا جائے، بلکہ قیامت کا انتظار کیا جائے کہ اس دن ہر چیز واضح ہو جائے گی، آنکھوں کے سامنے ہوگی، کہیں اس دن ندامت نہ ہو۔
(9) ”یہ مومنہ عورت ہے۔“ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کفارے وغیرہ میں غلام آزاد کرنا ہو تو وہ مومن ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں بھی بغض مقامات پر قید ہے: ﴿تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ﴾ (النسآء: ۹۲:۴) باقی مقامات پر بھی یہ قید معتبر ہوگی۔ نفل آزادی میں بھی مومن کو آزاد کرنا افضل ہے، ضروری نہیں۔
(10) خادموں اور ملازموں کے ساتھ نرمی و شفقت سے پیش آنا چاہیے اگر کبھی کبھار سختی ہو جائے تو ان کی دلجوئی بھی کرنی چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه أبو عوانة في
"صحيحه " من طريق المصنف، ومسلم بأحد إسناديه، وابن خزيمة (859) ، وابن
حبان في "صحيحيهما" وابن الجارود)
إسناده: حدثنا مسدد: ثنا يحيى. (ح) وثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا
إسماعيل بن إبراهيم- المعنى- عن حَجاج الصَّوَّاف: حدثني يحيى بن أبي كثير
عن هلال بن أبي ميمونة عن عطاء بن يسارً عن معاوية بن الحكم السُّلَمِي.
وقلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه مسلم كما
يأتي.
وهلال: هو ابن علي بن أسامة.
والحديث أخرجه أبو عوانة في "صحيحه " (2/142- 143) عن المصنف...
بإسناديه.
وأخرجه البخاري في "جزء القراءة" (16) ... بإسناد المصنف الأول.
وأخرجه مسلم (2/70) عن أبي بكر بن أبي شيبة- وغيره-، وهو، وابن
الجارود (212) عن إسماعيل بن إبراهيم- وعو ابن علَيَّة-.
وتابعهم الإمام أحمد في "المسند" (5/447) : ثنا إسماعيل بن إبراهيم...
به
تم قال: ثنا يحيى بن سعيد عن حجاج الصًؤَاف: حدثني يحيى بن أبي
كثير: حدثني هلال بن أبي ميمونة... به.
ثم أخرجه هو (5/448) ومسلم، وأبو عوانة، والنسائي (1/179- 180) ،
والطحاوي (1/258) ، والبيهقي (2/249 و 249- 255) من طرق أخرى عن
يحيى بن أبي كثير... به.
وقد توبع يحيى على بعضه؛ فرواه مالك عن هلال بن أسامة... به بقصة
الجارية الراعية.
أخرجه في " المدونة " (3/125) .
وروى الزهري عن أبي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف عن معاوية بن الحكم
قال:
قلت: أشياء كنا نصنعها في الجاهلية: كنا نأني الكهان... " فلا يصدنكم ".
أخرجه أحمد (3/443 و 5/447 و 447- 448 و 449) .
وإسناده صحيح على شرط الشيخين.
وتابعه فُلَيْحُ بن سليمان عن هلال بن علي... بد مختصراً؛ وزاد ونقص.
وفليح، فيه ضعف، ولذلك خرَّجناه في الكتاب الآخر (164) .
وللحديث شاهد من حديث أبي هريرة، يأتي في "الأيمان والنذور".
ثم خرجته في "الصحيحة" (3161) .