قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: كِتَابُ السَّهْوِ (بَابُ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ)

حکم : صحیح 

1218. أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السَّلَمِيِّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ فَجَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ رِجَالًا مِنَّا يَتَطَيَّرُونَ قَالَ ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ وَرِجَالٌ مِنَّا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ قَالَ فَلَا تَأْتُوهُمْ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرِجَالٌ مِنَّا يَخُطُّونَ قَالَ كَانَ نَبِيٌّ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطُّهُ فَذَاكَ قَالَ وَبَيْنَا أَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَحَدَّقَنِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهُ مَا لَكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ قَالَ فَضَرَبَ الْقَوْمُ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسَكِّتُونِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي بِأَبِي وَأُمِّي هُوَ مَا ضَرَبَنِي وَلَا كَهَرَنِي وَلَا سَبَّنِي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ قَالَ إِنَّ صَلَاتَنَا هَذِهِ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ قَالَ ثُمَّ اطَّلَعْتُ إِلَى غُنَيْمَةٍ لِي تَرْعَاهَا جَارِيَةٌ لِي فِي قِبَلِ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ وَإِنِّي اطَّلَعْتُ فَوَجَدْتُ الذِّئْبَ قَدْ ذَهَبَ مِنْهَا بِشَاةٍ وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ فَصَكَكْتُهَا صَكَّةً ثُمَّ انْصَرَفْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أَعْتِقُهَا قَالَ ادْعُهَا فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ قَالَ فَمَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ فَاعْتِقْهَا

مترجم:

1218.

حضرت معاویہ بن حکم سلمی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے جاہلیت ابھی تازہ تازہ چھوڑی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسلام بھیجا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ بدشگونی پکڑتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ ایک بے حقیقت چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہیں، لہٰذا یہ انھیں ان کے کام کاج سے نہ روکے۔“ (میں نے کہا:) اور ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”ان کے پاس مت جایا کرو۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور ہم میں سے کچھ لوگ خط کھینچتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”نبیوں میں سے ایک نبی (ؑ) خط کھینچا کرتے تھے۔ جو شخص ان کے مطابق خط کھینچے، وہ تو ٹھیک ہے (اور باقی غلط)۔“ معاویہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک آدمی کو چھینک آگئی۔ میں نے [يَرْحَمُكَ اللَّهُ] ”اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے“ کہہ دیا۔ لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ میں نے (پریشان ہوکر) کہا: ہائے! میری ماں مجھے گم کرے! (یعنی میں مر جاؤں) تمھیں کیا ہوا ہے کہ تم مجھے اس طرح دیکھ رہے ہو؟ لوگ (بے بسی سے) اپنے رانوں پر ہاتھ مارنے لگے (کیونکہ وہ نماز کی وجہ سے بول نہیں سکتے تھے۔) جب میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں تو آخر میں چپ ہوگیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپ نے مجھے مارا، نہ جھڑکا، نہ برا بھلا کہا۔ واللہ! میں نے آپ سے پہلے یا بعد کوئی استاد آپ سے زیادہ اچھے انداز میں تعلیم دینے والا نہیں دیکھا۔ آپ نے (شفقت سے) فرمایا: ”ہماری اس نماز میں لوگوں کی کسی قسم کی بات کرنا جائز اور درست نہیں۔ نماز تو صرف تسبیحات، تکبیرات اور تلاوت قرآن کا نام ہے۔“ حضرت معاویہ نے کہا: پھر ایک دفعہ میں اپنی کچھ بکریاں دیکھنے گیا جنھیں میری ایک لونڈی جبل احد اور جوانیہ کی طرف چرایا کرتی تھی۔ میں نے اچھی طرح جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ ایک بکری کو بھیڑیا لے گیا ہے، میں بھی اولاد آدم میں سے ایک آدمی تھا، مجھے غصہ آ گیا جس طرح لوگوں کو غصہ آتا ہے۔ میں نے اسے تھپڑ مار دیا۔ پھر (مجھے ندامت ہوئی تو) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور آپ کو سارا واقعہ بتایا۔ آپ نے اسے میری بہت بڑی غلطی قرار دیا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اسے آزاد ہی نہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے میرے پاس بلاؤ۔“ (میں اسے لایا تو) رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: ”اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟“ اس نے کہا: آسمان میں (یعنی اوپر)۔ آپ نے فرمایا: ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ مومنہ عورت ہے، اسے آزاد کر دو۔“