سجود : یہ باب سَجَدَ يَسْجُد سَجْدَةً وَسُجًودًا سے مصدر ہے جس کے لغوی معنی عاجزی وخاکساری سےجھکنا ہیں۔ اصطلاح میں انتہائی عجز وانکسارکا اظہار کرتے ہوئے اپنی پیشانی اور ناک زمین( یا اس کے قائم مقام محل ) پررکھناسجدہ کہلاتا ہے۔سہو: یہ باب سھا یسہو سہواً سے مصدر ہے جس کے معنی غافل ہونا‘ بھولنا اوردوسری طرف پھر جانا ہیں۔ صاحب لسان العرب لکھتے ہیں(السهو والسهوة) کے معنی ہیں کسی چیز کابھول جانا اور اس سےغافل ہو جانا اور دل کا اصل چیز سے ہٹ کر دوسری طرف چلے جانا۔نماز میں سہو کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں کسی چیز سے غفلت ہو جانا۔ابن اثیر فرماتے ہیں: اگر سہو کے بعد’’فی‘‘ ہو تو اس کے معنی ہیں بغیر علم کےکسی چیز کاچھوڑنا۔ اوراگر ’’عن‘‘ آئے اس کے معنی ہیں: جان بوجھ کر کسی چیزکوچھوڑنا اور غفلت کرنا، جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے(الذين هم عن صلاتهم ساهون(الماعون5:107)’’ وہ لوگ جو اپنی نماز سے غفلت اختیارکرتے ہیں۔ ‘‘سہواورنسیان:جمہور فقہاء اوراصولین کے نزدیک ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ‘ دونوں مترادف ہیں اور احادیث میں ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں جیسا کہ نبی اکرم ﷺنے ایک دفعہ جب بھول کر ظہر یا عصر کی نماز میں دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا تو صحابہ کرامکےیاوکرانے پر آپ نے بقیہ نماز ادا کی اور فرمایا: (إنما أنا بشر مثلكم أنسی كماتنسون فإذانسيت فذکروني)’’میں بھی تمھاری طرح ایک انسان ہوں‘ جس طرح تم بھول جاتے ہو‘ میں بھی بھول جاتا ہوں‘ جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔(صحيح البخاري الصلاة حديث:401وصحيح مسلم المساجدحديث:572) اور ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں(إذا سها أحدكم في صلاة) جب تم میں سے کوئی ایک اپنی نماز میں بھول جائے۔ (جامع الترمذي، الصلاة حديث:۳۹۸)توان احادیث سے ثابت ہوا کہ سہو اور نسیان باہم مترادف اور اہم معنی الفاظ ہیں۔سجود سہو: جب نمازی اپنی نماز میں بھول کر کسی واجب میں کمی یا بیشی کر بیٹھے‘ اور یاد آ نے یا کسی کے یاد دلانے پر سلام سے پہلےیا بعد میں زمین(یا اس کے قائم مقام جگہ) پردوسجدے کرے تو اسے سجود سہو اور عرف عام میں سجدہ سہو کہتے ہیں۔سجدہ سہو کاحکم :اس کے وجوب اور عدم وجوب کی بابت اہل علم کا اختلاف ہے۔ شوافع اسے مسنون کہتے ہیں اور احناف کے نزدیک یہ واجب ہے جیسا کہ صاحب ہدایہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ دیکھیے :(الهداية:1/80)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: شوافع کے نزدیک سجدہ سہو ہر حال میں مسنون اور احناف کے نزدیک واجب ہے۔ مالکیہ کمی کی صورت میں واجب سمجھتے ہیں۔ اور اضافے کی صورت میں افضل۔حنابلہ کے ہاں ارکان کے علاوہ واجبات میں قدر تفصیل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی واجب بھول کر رہ جائے تو اس صورت میں سجدہ سہو واجب ہے۔ اسی طرح اگر بھول کر کسی فعل کا اضافہ کر ليا مثلا: ایک رکعت زیادہ پڑھ لی یا سجدہ زیادہ کر لیا وغیرہ یاکسی قول کا اضافہ کرلیا‘ مثلا : رکوع میں قراءت یا نماز میں کلام وغیرہ کا اضافہ کر لیا تو پھر بھی سجدہ سہو واجب ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے (إذا زاد الرجل أو نقص فليسجد سجدتین)’’ جب آدمی (نماز میں بول کر) کوئی کمی بیشی کر دے تو وہ دو سجدے کرے۔ (صحیح مسلم المساجد، باب مواضع الصلاة حديث:572/96) نیز اگر کوئی آدمی نماز میں جان بوجھ کر کمی بیشی کرے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔ (فتح الباري 3/120‘تحت حديث:1224)دلائل کی روے راجح موقف یہی ہے کہ وہ سجود سہو واجب ہیں ‘ نماز میں کی ہو یا اضافہ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا (إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ يُصَلِّي جَاءَ الشَّيْطَانُ، فَلَبَسَ عَلَيْهِ حَتَّى لاَ يَدْرِيَ كَمْ صَلَّى، فَإِذَا وَجَدَ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَجَالِسٌ)بے شک تم میں سےکوئی جب نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتاہےاور اس پر خلط ملط کر دیتا ہے (یعنی بھلوادیتا ہے) حتی کہ اسے معلوم نہیں رہتا کتنی نماز پڑھی ہے تو تم میں سےجب کوئی یہ کیفیت محسوسں کرے تو چاہیےکہ بیٹھے بیٹھےدوسجدےکرلے۔“(صحيح البخاري السهوحديث:1232وصحيح مسلم الصلاة حديث:389 بعد حديث:569)اس حدیث میں بھول جانے کی صورت میں دوسجد ے کرنے کا امر(حکم) ہے اور امر وجوب کے لیےہوتا ہے جبکہ کوئی ایساقرینہ پایا جائے جو امرکو وجوب سے پھیر کر کسی اور معنی کی طرف لے جائے۔نبی اکرمﷺ کے فعل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب بھی آپ کو نماز میں سہو ہوا تو آپ نے سہو کے سجدے کیے‘ نیزجس طرح نماز کی ادائیگی ضروری اور فرض ہے اسی طرح رسول اکرم ﷺکے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا کرنا بھی ضروری اور فرض ہے جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان بھی ہے۔( صلوا كما رأيتموني أصلي)تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھاہے۔ (صحيح البخاري الأذان، حدیث:631) البتہ اگر کوئی رکن رہ جائے تو رکعت نہیں ہوگی بلکہ وہ رکعت دوبارہ پڑھ کر بعد میں دوسجد ے کیے جائیں گے۔ جن لوگوں نے سجدہ سہو کو مسنون کہاہےیاصرف کمی کی صورت میں واجب اور اضافے کی صورت میں افضل کہا ہے‘ ان کے پاس کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔والله أعلم. اگر کوئی نماز میں بھول جائے اور سلام پھیرنے کے بعد یاد آئے تو؟:اگر آدمی دوران نماز میں بھول جائے اور نماز کے بعد یاد آئے یا دوران نمازیاد آ جائے لیکن پھر سہو کے سجدے بھول جائے تو وہ دو سجدے کرے اگر چہ وقت زیادہ گزر گیا ہو اور باہم بات چیت کی ہوچکی ہو ۔ امام مالک ‘ اوزاعی ‘ شافعی اور ابوثور کایہی موقف ہے۔حسن بصری اور ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جب وہ قبلے سے منہ پھیر لے گا تو وہ بنا نہیں کرے گا اور نہ سجدے کرے گا۔ (بلکہ نئےسرےسے دوبارہ نماز پڑھے گا۔) امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر سلام کے بعد کلام کر لیا تو اس سے سجدہ سہو ساقط ہو جائیں گے‘ اس لیے کہ اس نے نماز کے منافی عمل کیا ہے چنانچہ یہ اس شخص کی طرح ہے جو بے وضو ہو گیا۔ دیکھیے(مجموع الفتاوی:23/39،40والمغني لابن قدامة:1/722)جبکہ جمہور اہل علم کا موقف یہ ہے کہ اگرکوئی بھول گیا اور اسے بعد میں یاد آیا تو وہ اسلام اور کلام کے بعد بھی دو سجدےکرے گا اگرچہ وقفہ لمبا ہو جائے جیسا کہ عمران بن حصین سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی اور تین رکعت کے بعد سلام پھیر دیا ‘ پھر آپ گھر چلے گئے۔ ایک آدمی آپ کی طرف بڑھا جس کا نام خرباق تھا‘ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا نماز کم ہوگئی ہے؟آپ غصے میں اپنی چادر دیتے ہوئے نکلے اور فرمایا:کیا یہ درست کہتا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں! تو آپ نے ایک رکعت پڑھائی‘ پھر سلام پھیرا‘ پھر دوسجدے کیے‘ پھر سلام پھیرا۔ (صحیح مسلم المساجد حديث: ۵۷۴) نیز سیدنا عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے سلام اور کلام کے بعد سہو کے دو سجدے کیے۔ دیکھیے(صحیح مسلم المساجد حديث:572۔(95)
جناب سلمہ بن نبیط کہتے ہیں کہ میں نے اپنے گھر میں نماز پڑھی اور مجھے نماز میں سہو ہو گیا‘ پھر میں ضحاک بن مزام کے پاس آیا اور ان سے کہا: میں نے اپنے گھر میں نماز پڑھی ہے اور نماز میں بھول گیا ہوں تو انھوں نے کہا: ابھی سجدے کرو۔ (السنن الكبرى للبيهقي:2/351)مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ جسے نماز میں سہو ہو جائے اور اسے آخر میں سجدہ سہو کرنا یاد نہ رہے‘ تو بعد میں یاد آنے پر یا کسی کے بتلانے پر سجدہ سہو کرے گا۔ اگر رکعت رہ جائے تو اسے ادا کرنے کے بعد دو سجدے کرے گا‘ پوری نماز دہرانے کی ضرورت نہیں۔ والله أعلم.سجود سہو کے اسباب: یہ الله تعالی کا فضل عظیم ہے کہ اس نے نوافل اور استغفار وغیرہ کو اپنے بندوں کی عبادات میں واقع ہونے والے خلل اور نقصان کو پورا کرنے کا سبب اور ذریعہ بنایا ہے۔نماز میں پیدا ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کاا للہ تعالیٰ نے سجدہ سہو مشروع کیا ہے۔ لیکن اس سے نماز کی بعض خاص چیزوں کی تلافی ہوتی ہے ‘ ہر چیز کی ہیں۔ نماز میں سجدہ سہو کےتین اسباب ہیں:اضانہ‘ کمی اورشک۔1۔اضافہ: نماز میں اضافے کی دو قسمیں ہیں:1۔ افعال کا اضافہ ۔ 2۔اقوال کا اضافہافعال کا اضافہ : اس کی تین صورتیں ہیں۔ پہلی صورت: اضافہ نماز کی جنس سے ہو‘ جیسے قیام‘ قعدہ‘ رکوع اور سجده یارکعت زیادہ پڑھ لینا۔ اگر نمازی جان بوجہ کرایسا اضافہ کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔ اور اگر بھول کر ایسا ہوجائے تو اس کی تلافی کے لیےدو سجدے کرے‘ اس کی نمازی صحیح ہوگی۔ اگر اس نے ایک رکعت زائد پڑھ لی ہے اور نماز سے فراغت تک اسے پتہ نہیں چلا تو وہ آخر میں سجدہ سہو کرے گا۔ اس کی دلیل عبداللہ بن مسعود کی حدیث ہے ‘ وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے ظہر کی (سہوا) پانچ رکعات پڑھا دیں‘ چنانہ صحابہ کرام نے عرض کیا : کیا نماز میں اضافہ کردیاگیاہے؟آپ نے پوچھا:”وہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: آپ نے پانچ رکعات پڑھادی ہیں۔ تو آپ نے اپنے پاؤں موڑے اور دو سجدے کیے۔(صحيح البخاري الصلاة حديث:404وصحيح مسلم المساجد حديث:572) لیکن اگر اسے رکعت کے دوران میں علم ہوجاتا ہے کہ یہ اس کی زائد رکعت ہے تو وہ فورا بغیر تکبیر کہے بیٹھ جائے ‘ پھرتشہد پڑھے اور آخر میں سہو کے دو سجدے کرےاور سلام پھیر دے۔ اگر رکعت کے دوران میں علم ہوجاتا ہے کہ یہ اس کی زائد رکعت ہے لیکن پھر بھی نہ بیٹھے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی کیونکہ اس نے نماز میں زیادتی کی اور الله تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے بتلائے ہوئے طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے پر نماز ادا کی ہے۔ رسول کریم ﷺکا فرمان ہے(من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد) جس کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ (عمل)مردود ہے۔ (صحیح مسلم الأقضية حديث:1718)جسے علم ہوجائے کہ امام نماز میں اضافہ یا کمی کررہا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام کو اس پر متوجہ کرے کیونکہ عبداللہ بن مسعودکی روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (إنما أنا بشر مثلكم أنسی کما تنسون فإذانسيت فذکرونی )میں تو بس تمھاری طرح بشر ہوں میں بھی بھول جاتا ہوں ‘ جیسے تم بھول جاتے ہو‘ چنانچہ جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔(صحيح البخاري الصلاة حديث:401وصحیح مسلم المساجدحديث:572)مردسبحان اللہ کہ کر لقمہ دیں اور عورتیں تالی بجا کر‘ ایک ہاتھ کا اندرونی حصہ دوسرےہاتھ کی پشت پر مارکر۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا(إذا تاب نابکم شيء في الصلاة فليسبح الرجال وليصفح النساء) جب تمہیں نماز میں کوئی معاملہ پیش آ جائےتو مردسجان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔(سنن أبي داود الصلاة حديث:941)امام کے لیے بھی ضروری ہے کہ اگر مقتدی اسے لقمہ دیں اور اسے بذات خود درستی کا یقین نہ ہو تو وہ ان کا لقمہ قبول کرے۔رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے(من رابه شیء في صلاته فليسبح ،فانه إذا سبح التفت إليه وإنماالتصفيق للنساء)جسے نماز میں کوئی معاملہ پیش آئے ‘ وہ سجان اللہ کہے ‘ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ کی جائے گی۔ اور تالیاں عورتوں کے لیے ہیں۔ (صحيح البخاري، الأذان حديث:684وصحیح مسلم الصلاة حديث:421)دوسری صورت: اضافہ نماز کی جنس سے نہ ہو‘ جیسے چلنا‘ خارش کرنا اس طرح کی کوئی اور حرکت کرنا۔ ان حرکات کی بناپرسجودسہو نہیں ہوں گے۔ ان حرکات کی چارقسمیں ہیں(1)وہ حرکات جو نماز کو باطل کرتی ہیں مثلا: ادھر ادھر دیکھنا اورہنسنا وغیرہ۔ اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے ‘ وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ آدمی کا نماز کے دوران میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ اچکنا ہے۔ اس طرح سے شیطان بندے کی نماز سے اچک لیتا ہے۔ (صحیح البخاري الأذان، حديث:751) حضرت جابر بن سمرہ سے منقول ہے کہ رسول اللهﷺ مسجد میں تشریف لائے اور دیکھا کہ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائےہوئے ہیں تو آپ نے فرمایا:”یا تو لوگ نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھانے سے باز آجائیں یا ان کی نظر میں ان کی طرف واپس نہیں لوٹیں گی۔ (صحیح مسلم الصلاة حديث:428، وسنن أبي داود الصلاةحديث:912واللفظ له)ہنسنا اور قہقہہ لگانا بھی نماز کو فاسد کر دیتا ہے۔ علامہ ابن منذر کہتے ہیں کہ علماء کا اجماع ہے کہ نماز کے دوران میں ہنسنا نماز کو فاسد کردیتا ہے۔ (الإجماع: 40/48) کیونکہ یہ ساری چیزیں نماز کی روح کےمنافی ہیں۔ ان سے نماز ضائع ہوجاتی ہے۔ والله أعلم.(2) مکروہ حرکات: ان سے نماز باطل نہیں ہوتی‘ البتہ یہ نا پسندیدہ ہیں‘ ان سے نمازی کے خشوع وخضوع میں فرق آتاہےجس سے ثواب میں کمی واقع ہوتی ہے مثلا: نماز میں بلا ضرورت کپڑے درست کرتے رہنا اور عادت ڈاڑھی کوکھجلاتےرہنا وغیرہ۔ رسول اللہﷺنے فرمایا(إن في الصلاة لشغلا) بے شک نماز میں ایک اور ہی مشغولیت ہے۔“(صحیح البخاري العمل في الصلاة حديث:،199 وسنن أبي داود الصلاة حديث:923) یعنی نماز میں قراءت قرآن ‘ اللہ کے ذکر اور دعا میں مشغولیت ہوتی ہے‘ اس لیے کسی اور طرف متوجہ ہونا درست نہیں ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا(ولا نکفت الثياب والشعر)ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ) ہم(نمازمیں)اپنے کپڑے یا بال نہ سمیٹیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:812وصحيح مسلم الصلاةحديث:490) ہاں ناگزیر ضرورت کے پیش نظر تھوڑی بہت حرکت کی جاسکتی ہے۔نماز میں جماہی لینا بھی مکروہ حرکت ہے۔ حضرت ابو ہر یرہ بھی بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا (التثاؤب من الشيطان، فإذا تثاءب احدکم فليكظم ما استطاع)جماہی آنا شیطان کی طرف سے ہے۔ جب کسی کو جماہی آئے تو جہاں تک ہو سکے اسے روکنے کی کوشش کرے۔ (صحیح مسلم الزهد حديث: ۲۹۹۴)ہاتھوں کی انگلیاں باہم ایک دوسری میں ڈال لینا(تشبیک ) بھی مکروہات نماز میں سے ہے۔ حضرت کعب بن عجرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہمیں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور پھر( نماز کی غرض سے) مسجد کا ارادہ کر کے نکلے تو اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں مت ڈالے کیونکہ بلاشبہ وہ نماز میں ہے۔ (سنن أبي داود،الصلاة،حديث:562،و مسند أحمد:4/214)(3)جائز حرکات: (الف) ضرورت کے مطابق چلنا: رسول اللهﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے حضرت عائشہؓ کے لیے دروازہ کھولا تھا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ (سنن أبي داود الصلاة حدیث:922) یہ اس صورت میں ہے جب دروازہ قبلہ رخ ہو‘ آپﷺ کے حجرے کا دروازہ قبلہ رخ ہی تھا) (ب) بچے کو اٹھانا: ابوقتاده سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ (بعض اوقات ) نماز پڑھتے تو (اپنی نواسی) امامہ بنت زینب کو اٹھا لیتے۔ جب آپ سجدے میں جاتے تو اسے نیچے اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تواٹھا لیتے تھے۔ (صحیح البخاري، الصلاة حديث:516،وصحيح مسلم المساجد حديث:543(ج) مہلک و موذی چیز کو ہلاک کرنے کے لیے حرکت کرنا‘ کوئی سانپ بچھو وغیرہ نمازمیں نظر آئے تو اسے مار دینا چاہیے‘ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوا کیونکہ اگر وہ اسے نہ مارے گا تو پوری نماز میں یکسوئی نہیں رہے گی بلکہ توجہ ادھر ہی رہے گی۔ اور خطره دامن گیر رہے گا کہ کہیں وہ مجھے نقصان نہ پہنچا دے۔ سیدناابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا(اقتلوا الأسودين في الصلاۃ: الحية والعقرب) ’’دوسیاه چیزوں کو دوران نماز میں بھی قتل کر ڈالو‘ یعنی سانپ اور بچھو کو ۔(سنن أبي داود الصلاة حديث:921 وجامع الترمذي الصلاة حديث:390) سانپ اور بچھو کے علاوہ دوسرے موذی جانوروں کا بھی یہی حکم ہے۔(و)نماز میں ضرورت کے مطابق سمجھانے کے لیے اشارہ کرنا اور کن اکھیوں سے دیکھنا: حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺبیمار تھے‘ ہم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی‘ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور ابوبکر لوگوں کو آپ کی تکبیرسنا رہے تھے۔ آپ نے ( کن اکھیوں سے )اری طرف جھانکا تو ہمیں کھڑے ہوئے ‘ پایا ‘ چنانچہ آپ نے ہمیں اشارہ کیا تو ہم بھی بیٹھ گئے۔ (صحیح مسلم، الصلاة حدیث:413)اس سے معلوم ہوا ایسا کرنا جائز ہے (ر)سوئے ہوئے کو چھوناضرورت کے تحت سوئے ہوئے کو چھونا جائز ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کا بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہﷺکے سامنے سوئی ہوئی تھی اور میرے پاؤں آپ کے سامنے قبلے کی طرف ہوتے۔ تو جب آپ سجدہ کرنے لگتے‘ کےسامنے میرا پاؤں دبادیتے میں پاؤں سمیٹ لیتی ‘ آپ ﷺجب کھڑے ہوجاتے تو میں پاؤں پھیلا لیتی۔ (صحيح البخاري الصلاة حديث:382و صحیح مسلم الصلاة حديث:512)(4)مشروع حرکات: وہ حرکات جنہیں کرنا ضروری ہے مثلا : اگر امام بے وضو ہو جائےتو اس کی جگہ امام کے پیچھے والا آدمی کھڑا ہوگا جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: حضرت عمر بن خطاب فجر کی نماز پڑھارہے تھے کہ ایک مجوسی غلام نے ان پر عمل کر کے شدیدزخمی کردیا تو انھوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑا اور انھیں آگے کر دیا‘ پھر انھوں نے نماز پڑھائی۔(صحيح البخاري فضائل أصحاب النبي حديث:3700) اسی طرح اگر صف میں سے کوئی آدمی نکل جائے توخلل کو دور کرنے کے لیے قریب قریب ہونا جیسا کہ رسول اللہ ﷺکاحکم ہے(وسدوا الخلل)اور صف کے خلا کو پورا کرو۔(سنن أبي داود الصلاة حديث:666) اسی طرح اگر امام بول جائے تو اسے لقمہ دینا۔ حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک نماز پڑھائی اور اس میں قراءت کی تو کچھ خلط ہوگیا۔ جب آپ فارغ ہوئے حضرت ابی سے پوچھا: ”کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟انہوں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: تمہیں کسی چیز نے روکا تھا( کہ مجھے بتلادیتے)۔ اسی طرح نماز میں آگے سے گزرنے والے کو مقدور بھر روکنا چاہیے اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑائی کرنی چاہیے ہیں کہ ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللهﷺ سے سنا آپ فرمارہے تھے’’جب تم میں سے کوئی کسی چیز کی طرف نماز پڑھ رہا ہو جو اس کے لیے لوگوں سے ستر ہو اور کوئی اس کے آگے سے گزرنے کی کوشش کرے تو اس کے سینے کے آگے ہاتھ کر کے اسے روکنے کی کوشش کرے اور اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑائی کرے بلاشبہ وہ شیطان ہے۔(صحيح البخاري الصلاةحديث:509وصحيح مسلم الصلاة حديث:505)معلوم ہوا مندرجہ بالامختلف قسم کی حرکات میں سے بعض ایسی ہیں جن کے سرزد ہونے سے نماز باطل ہوجاتی ہے اور بعض ایسی ہیں جن سے نماز باطل تو نہیں ہوتی ‘ البتہ وہ مکردہ ہو جاتی ہے۔ نیز بعض حركات جائز ہیں اوربعض مشروع۔ ان میں سےکسی بھی حرکت پرسجدہ نہیں ہے۔ والله أعلم.تیسری صورت: نماز کے دوران میں کھانا پینا۔ علامہ ابن منذر فرماتے ہیں: اہل علم کا اجماع ہے کہ جوشخص نماز میں جان بوجھ کر کھاتا پیتا ہے‘ اسے نماز دہرانی ہوگی‘ البتہ نماز میں بھول کر کھانے پینے کے متعلق اختلاف ہے۔ عطاء فرماتے ہیں: اگر وہ بھول کر نماز میں کچھ پی لے تو وہ اپنی نماز مکمل کرے اور آخر میں سہو کے دوسجدے کرے اور اگر اس نے جان بوجھ کر پیا ہے تو وہ نماز دہرائے۔ امام اوزاعی اور اصحاب رائے بھول کر کھانے پینے والے کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ نئے سرے سے نماز پڑھے ۔ امام شافعی کا مسلک عطاء کے موافق ہے۔ مزید دیکھیے :(الأوسط لابن منذر:3/248)رسول اللہﷺکا فرمان ہے(إن الله وضع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استکرهوا عليه)بے شک الله تعالیٰ نے میری امت سے غلطی‘ بھول اور وہ گناہ معاف کر دیے ہیں جن پر انھیں زبردستی مجبور کیا گیا ہو۔ (سنن ابن ماجه،الطلاق، حديث:2045)اقوال کا اضافہ : اس کی بھی تین صورتیں ہیں۔ پہلی صورت: اضافہ نماز کی جنس سے ہو مثلا: رکوع یا سجدے میں قراءت کرنا‘ قیام میں تشہد پڑھنا وغیرہ۔ اگر جان بوجھ کر ایسا کرے گا تو یہ حرام ہے اور اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔ اگر بھول کر ایسے کر لے تو ایک رائے کے مطابق اس کے لیے سجدہ سہو کرنا ضروری ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا(إذا زاد الرجل أو نقص فلیسجد سجدتين)جب آدمی (نماز میں) اضافہ یا کمی کر دے تو وہ دو سجدے کرے۔(صحیح مسلم المساجد حديث:572) جبکہ شیخ ابن باز کا موقف اس سے قدرے مختلف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگریہ ذکر اس نے کسی واجب کی جگہ پڑھا ہے اور اصل واجب کوچھوڑ دیا ہے ‘ جیسے رکوع یا سجدے میں تسبیحات کے بجائے قراءت کر لی اور تسبیحات نہ پڑھیں تو ترک واجب کی بنا پرسجود سہو واجب ہوں گے۔ اگر تسبیحات بھی پڑھی ہیں تو پھر سجود سہو واجب نہیں۔ (مجموع فتاوى و مقالات متنوعة لابن باز11/270)دوسری صورت: نمازمکمل کرنے سے پہلے ہی سلام پھیردینا۔ اگر اس نے جان بوجھ کر سلام پھیرا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔ اگر بھول کر ایسا ہوا اور بہت زیادہ دیر ہوگئی ہو‘ مثلا: ایک دن یا نماز کا وقت گزر جانے کے بعد یاد آیا یا وضو ٹوٹ گیا توپھر نماز باطل ہو جائے گی، چنانچہ وہ نماز دہرائے۔ اگر جلدی یاد آ گیا تو وہ نماز مکمل کرے اور سلام پھیرے‘ پھرسہو کےسجدےکرے ‘ بعد ازاں سلام پھیرے۔ (اللباب في فقه السنة والكتاب، ص:190)تیسری صورت: کلام نماز کی جنس سے نہ ہو۔ اگر اس نے جان بوجھ کر کلام کیا ہو اور اسے نماز میں کلام کے حرام ہونے کا علم تھاتو بالاجماع اس کی نماز باطل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادگرامی ہے(ان هذه الصلاة لایصلح فيها شيء من كلام الناس إنما هو التسبيح والتكبير وقراء القرآن)’’ بے شک اس نماز میں لوگوں کی عام بات چیت جائز نہیں ہے۔ اس میں تسبیح اور تکبیر ہوتی ہے اور قرآن مجید پڑھا جاتا ہے۔(صحیح مسلم المساجد، حديث:537وسنن أبي داود الصلاة حدیث:930وسنن النسائي السهو حديث:1218) اگر بھول کر یا عدم علم کی بنا پر کلام کیا ہوتو راجح بات یہی ہے کہ اس کی نمازصحیح ہوگی اور اس پر سجود سہو لازم ہیں جیسا کہ رسول الله ﷺ نے معاویہ بن حکم سلمیکو نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا تھا جبکہ انہوں نے عدم علم کی وجہ سے نماز میں کلام کر لیا تھا۔ دیکھیے (حوالہ مذکور)امام نووی فرماتے ہیں کہ نماز میں بھول کر کلام کرنے والا اور وہ شخص جسے یہ گمان ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے‘ اس کی نماز باطل نہیں ہوگی۔یہی سلف وخلف جمہور علماء کا موقف ہے۔ ابن عباس‘ عبداللہ بن زبیر‘ عروہ بن زبیر‘ عطاء‘ حسن‘شعبی ‘ قتادہ‘ اوزاعی‘ مالک‘ شافعی‘ احمد اورتمام محدثین کرام کا بھی یہی موقف ہے۔ (شرح صحيح مسلم للنووي:5/99 تحت حدیث:574) اسی طرح بلا اختیار کلام ہوجائے یا کسی کو کلام پر مجبور کر دیا جائے‘ اور ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے‘ تو اس صورت میں بھی راجح بات یہی ہے کہ اس کی نماز باطل نہیں ہوگی۔کیا اصلاح نماز کے لیے کلام جائز ہے؟ نماز کی اصلاح کے لیے کلام کرنے کے بارے میں مختلف آراء ونظریات پائے جاتے ہیں۔ جمہور کہتے ہیں کہ اگر نماز میں کلام اصلاح نماز کے لیے ہو اور سبحان اللہ سے متنبہ کرنا ممکن نہ ہو تو یہ جائز ہے اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ علامہ حلال اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ اس سے نماز فاسد ہو جائے گی۔ احناف کا بھی یہی موقف ہے بعض کے نزدیک امام کی نماز فاسد نہیں ہوگی جبکہ مقتدیوں کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ دلائل کی روشنی میں راجح موقف یہ معلومہوتا ہے کہ نماز فاسد ہو جاتی ہے کیونکہ یہ کلام الناس ہے۔امام ابن منذر فرماتے ہیں: اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ جو آدمی نماز میں جان بوجھ کر کلام کرتا ہے جبکہ اس کا ارادہ نماز ہی کی اصلاح کیوں نہ ہوتو اس کی نماز فاسد ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے’’ نماز میں لوگوں کے کلام میں سے کوئی بات چیت درست نہیں ہے۔ بے شک نماز میں تسبیح اور تکبیرہوتی ہے اور قرآن پڑھا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم ، المساجد، حديث:537) اور حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز میں کلام کرلیا کرتے تھے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے پہلو والے ساتھی سے کلام کر لیتا تھا حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی(وقوموا لله قانتین)’’ اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو ۔ ‘‘ تو ہمیں خاموشی کا حکم دیا گیا اور کلام کرنے سے روک دیا گیا۔ (صحيح البخاري،العمل في الصلاة،حديث:1200،وصحیح مسلم، المساجد، حديث:539)(2)کمی: نماز میں کمی کی بھی تین صورتیں ہیں ‘ پہلی صورت: رکن کی کمی۔ اگر نمازی نے اپنی نماز میں کسی رکن کی کمی کردی اور وہ رکن تکبیر تحریمہ ہے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی‘ عمدا چھوڑے یا بھول کر۔ اور اگر تکبیرتحریمہ کے علاوہ کوئی اور رکن ہے اور اسے جان بوجھ کر چھوڑا ہے تو اس کی نماز باطل ہوگی‘ اگر بول کر چھوڑا ہے تو اس کی تین حالتیں ہیں۔(1)اگر دوسری رکعت کی قراءت شروع کرنے سے پہلے یاد آ جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ واپس لوٹے اور چھوڑے ہوئے رکن اور اس کے مابعد کو ادا کرے‘ اس لیے کہ رکن ساقط ہونے کی صورت میں سجدہ سہوو کفایت نہیں کرے گا۔ اگر علم ہونے کے بعد بھی نہیں لوٹے گا تو اس کی نماز باطل ہوگی۔ دیکھیے: حاشية الروض المربع على زاد المستقنع:2/162)1۔علامہ عبدالرحمن بن ناصر سعدی فرماتے ہیں کہ اگر دوسری رکعت میں اسی جگہ پہنچنے سے پہلے یاد آ جائے جہاں پہلی رکعت میں بولا تھا اور کوئی رکن چھوڑ گیا تھا تو اسی وقت واپس پلٹ آئے اور اسے اور اس کے بعد والے رکن کو مکمل کرے‘یہ ضروری ہے۔ دیکھیے : (المختارات الحلية من المسائل الفقهيةص:48،47)2۔اگر دوسری رکعت میں قراءت شروع کرنے کے بعد یاد آئے تو پہلی دو رکعت باطل ہو جائے گی جس میں رکن ترک کیا ہو اور دوسری رکعت اس کے قائم مقام ہوگی۔ (حاشية الروض المربع:2/169) اس کے متعلق دوسرا قول یہ ہے کہ اگر دوسری رکعت میں اسی جگہ پہنچ کر اسے یاد آ ئے تو اس صورت میں اس کی دوسری رکعت اس رکن کے بدلے میں ہوگی جواس نے ترک کیا تھا‘ لہذا دوسری رکعت شمار نہیں. ہوگی۔ (ارشاد اولی البصائر، ص:49)شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں: اس کی مثال یہ بنے گی کہ ایک شخص پہلی رکعت میں ایک سجدہ کرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا‘ نہ بیٹھا اور نہ دوسرا سجدہ کیا۔ جب قراءت شروع کی تو اسے یاد آیا کہ وہ دوسجدوں کے درمیان نہیں بیٹھا اور نہ اس نے دوسرا سجدہ کیا ہے تو وہ اسی وقت واپس پلٹ آئے اور دوسجدوں کے مابین بیٹھے اور دوسراسجدہ کر کے اپنی باقی ماندہ نمازمکمل کرے اور سلام کے بعد سجدہ سہو کرلے۔ دوسری رکعت میں اسی جگہ پہنچ کر یاد آنے والے کی مثال یہ ہے کہ پہلی رکعت میں وہ ایک سجدے کے بعد اٹھا اور دوسرا سجدہ نہ کیا اور نہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا لیکن اسے دوسری رکعت میں دوسجدوں کے درمیان یاد آیا یا دوسرے سجدے میں یاد آیا تواس حالت میں اس کی دوسری رکعت پہلی شمار ہوگی اور وہ اپنی نماز میں ایک رکعت مزید پڑھے گا‘ پھر بعد میں سجدہ سہو کرے گا۔ تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے( الشرح الممتع على زادالمستقنع:3/523،459)3۔اگر کوئی رکن رہ جائے اور سلام پھیرنے کے بعد یاد آئے تو یہ مکمل رکعت چھوڑنے ہی کی طرح ہے‘ چنانچہ وہ ایک رکعت پڑھے اورسہو کےدوسجدے کرے۔ ہاں اگرچھوڑا ہوا ر کن آخری تشہدہو یا سلام ‘ تو پھر وہ اسے ہی اداکرےاورسہوکےدوسجد ے کرے۔ (حاشية الروض المربع:2/163والأوسط لابن المنذر:3/319)دوسری صورت: اگر نماز کے واجبات میں سے اس نے کوئی واجب جان بوجھ کرچھوڑا ہے تو نمازباطل ہوگی‘ اگر بھول کر رہ جائے اور ابھی دوسرے رکن تک نہیں پہنچا وہ اسے ادا کرے۔ اگر دوسرے رکن میں پہنچنے کے بعد یاد آئے تو وہ اپنی نماز جاری رکھے اور سلام پھیرنے سے قبل سجودسہو کرے‘ مثلا: ایک آدمی سجدے میں(سبحان ربي الأعلی )کہنا بھول گیا۔ اگر اسے سجد ے سے سراٹھانے سے پہلے سے یاد آ جائے تو پڑھ لے اور اگر دوسرے سجدے میں یاسر اٹھانے کے بعد یادآئے تو وہ اپنی نماز جاری رکھے اور سلام سے پہلے دوسجدے کرلے۔تیسری صورت: اگر نمازی سے کوئی سنت رہ جائے تو اس پرسجود سہو نہیں ہوں گے اور نماز باطل ہوگی۔شک:سجود سہو کے اسباب میں سے تیسرا سبب شک ہے۔ زیادتی اور نقصان میں تردد کو شک کہتے ہیں۔ نماز میں اگر شک ہو جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں(1) جب شک ہو اور انسان مترددہی رہے اورکسی چیز کا ظن غالب نہ ہو۔(2) جب کوئی ہومگر کوشش اور غوروفکرکےبعد کسی صورت تعین اور اس کاظن غالب حاصل ہوجائے۔جب کوئی شک ہو اور انسان مترددہی رہے۔ اس صورت میں نبی اکرمﷺ کی تعلیمات یہ ہیں کہ کم ازکم پر یقین کرتے ہوئے نمازمکمل کرے۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا(إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلَاثًا أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا شَفَعْنَ لَهُ صَلَاتَهُ، وَإِنْ كَانَ صَلَّى إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ)’’ جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے یاد نہ ر ہے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں‘ تین یا چار؟ تو اسے چاہیے کہ شک کو چھوڑ دے اوریقین پرانحصار کرے‘ پھر سلام پھیرنے سے پہلے دوسجدے کرلے۔ اگر اس نے پانچ رکعات پڑھی ہیں تویہ سجدے اس کی زائد رکعت کو دوگانہ بنا دیں گے اور اگر اس نے چار پوری پڑھی ہیں تو یہ کہدے شیطان کی تذلیل و رسوائی کا باعث بنیں گے۔(صحیح مسلم، المساجد، حديث:571، ومسند أحمد:3/72)جب شک ہو جائے مگر کوشش اور غور و فکر کے بعد کسی جانب کا ظن غالب ہو جائے: جب نمازی کو شک ہو جائے اورشک کے دو پہلوؤں میں سے ایک پہلوراجح ہو جائے تو اسے چاہیے کہ غالب ظن پرعمل کے‘ آخر میں سلام پھیر کر دو سجدے کرے اور پھر سلام پھیرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہےنبی ﷺنے فرمایا(إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ، فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ)جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے تو اسے چاہیے کہ صحیح صورت تلاش کرے اور اسی کے مطابق اپنی نماز مکمل کرے اور سلام پھیرے ‘ پھر دوسجدے کر لے۔ ‘‘ (صحيح البخاري، الصلاة،حديث: 401)علاوہ ازیں سورة فاتحہ کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بارے میں شک ہوتو رکوع سے پہلے سورہ فاتحہ پڑھ لی جائے۔ اس صورت میں سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں! اگر وہ رکوع میں چلا گیا ہے یا دوسری رکعت شروع کر لی ہے اور سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کا اسے یقین ہو جائے تو وہ ایک رکعت دوبارہ پڑھے اور سلام کے بعدودسجودسہوکرے ‘ پھر سلام پھیرے۔نماز کی ادائیگی کے بعد اگر’’التحيات‘‘ کے متعلق شک پڑ جائے تو ادائیگی کے بعد لاحق ہونے والےشک کاکوئی اعتبار نہیں کیونکہ عام طور پر انسان نماز کے واجب وارکان ان کے مقام ہی پرادا کرتا ہے۔ جب نماز کے دوران میں شک ہوتویقین پر بنا کرتے ہوئے عبادت کے لیے اس طریقہ اختیار کیا جائےگا لیکن سلام کے بعد پیدا ہونے والاشک قابل التفات نہیں۔ والله أعلم.نماز میں شکوک وشبہات : نماز ام العبادات ہے‘ اس میں مکمل یکسوئی ہونی چاہیے‘ نماز پڑ ھنے پہلے دل ودماغ کومکمل طور پر اللہ کے ساتھ ہم کلام ہونے کے لیے متوجہ کر لینا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا(إن أحدكم إذا قام في صلاته فإنه يناجي ربه)’’ بے شک تم میں سے کوئی ایک اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ بلاشبہ اپنے رب سے سرگوشی کر رہا ہوتا ہے۔(صحيح البخاري الصلاة حديث:405وصحیح مسلم المساجد حديث:551) لہذا نمازی کو وسوسوں اور خیالات سے بچنا چاہیے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا(ما من مسلم يتوضأ فیحسن وضوء ثم يقوم، فيصلي ركعتين مقبل عليهما بقلبه ووجهه إلا وجبت له الجنة)’’ جو مسلمان اچھی طرح وضوکرے ‘ پھرکھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھے اور اپنے دل اور چہرے سے انھی پر متوجہ رہے تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔(صحیح مسلم، الطهارة،حدیث:234)خیالات اور وسوسوں سے بچنے کی ظاہری صورت یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے‘دوران نماز میں نظراپنی حفاظت کرے‘ نماز میں نظر کو سجدے کی جگہ مرکوز رکھے‘ آیات واذکار کے معانی و مفاہیم پرغور کرے اور اس طرح عبادت کرے کہ گویااللہ کودیکھ رہا ہے یااللہ اسے دیکھ رہا ہے اور سمجھے کہ شایدیہ میری آخری نماز ہے‘ نیز یہ دعا اپنا معمول بنائے(اللهم أعني على ذكرك وشكرك و حسن عبادتك)اے اللہ! اپنا ذکر کرنے‘ شکر کرنے اور بہترین عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔ (سنن أبي داود، الوتر، حديث:1522) اس کے باوجود وسوسے اور خیالات آئیں تو اس کے متعلق شریعت نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ(أعود بالله من الشیطن الرجیم) پڑھ کر تین مرتبہ بائیں جانب تھو تھو کر دیں۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث:2203) ارشاد باری تعالی ہے(وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ) (الأعراف 200:7)’’ اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کسی طرح کا وسوسہ پیدا ہوتو اللہ کی پناہ مانگو‘ بے شک وہ سننے والا‘ جانے والا ہے۔‘‘پہلاتشہد چھوٹ جائے تو؟:اگر نمازی درمیانی تشہد چھوڑ دےاور اسی وقت اٹھنے سے پہلے یادآجائے تو وہ بیٹھ کر اسے پڑھےاور اس پر کچھ اور لازم نہیں ‘ اس لیے کہ اس نے نماز میں کوئی کمی بیشی نہیں کی۔ اگر اٹھتے ہوئے یاد آیامگرابھی مکمل کھڑا نہیں ہوا تو بیٹھ جائے اورتشہد پڑھےاور اس پر سجود سہولازم نہیں‘ اگروہ مکمل کھڑا ہو گیا تو واپس نہ پلٹے بلکہ اپنی نماز جاری رکھے اور آخر میں دو سجدے کر لے۔حضرت عبداللہ بن بحسینہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) رسول اللہﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی اور دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوگئے اور درمیانی تشہد کے لیے بیٹھے‘ جب نمازمکمل کر چکے تو آپ نے سلام سے پہلےدوسجدے کیے۔ (صحیح البخاري، السهو، حديث1225،1224و صحیح مسلم، المساجد، حديث:570 )اگر اسے علم ہوکہ سیدھا کھڑا ہونے کے بعد لوٹنا حرام ہے لیکن پھر بھی لوٹ گیا تو اس کی نماز باطل ہوگئی کیونکہ اس سےمفسد نماز کام کا ارتکاب کیا ہے۔ والله أعلم. اس مسئلے کی تفصیل کے لیے ہے:(الأوسط لابن المنذر:3/291،287)سجود سہو سلام سے پہلے کیے جائیں یا بعد میں؟:اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے اس کے متعلق اہل علم کے آٹھ اقوال نقل کیے ہیں۔1۔سجودسہو ہر حال میں سلام کے بعد کیے جائیں گے۔ (یہ احناف کا موقف ہے جس پر ان کااپنا عمل بھی نہیں ہے ‘ بلکہ ان کا موجوده عمل (أشهد أن محمدا عبده و رسوله) تک تشہد پڑھ کے ایک طرف سلام پھیرنے کے بعدسجود سہو کر کے ازسرنو پورا تشہد يوم يقوم الحساب تک پڑھنے کاہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔)2۔ سلام سے پہلے کیے جائیں۔ یہ شوافع کا موقف ہے۔3۔ کمی اوربیشی میں فرق کیا جائے گا‘اضافے کی صورت میں سجودسہو سلام کے بعد کیے جائیں گے اورکمی کی صورت میں پہلے(یہ امام مالک کا ایک قول ہے ‘ نیز اصحاب مالک کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے)4۔ہرحدیث پراسی طرح عمل کیا جائے گا جس طرح کہ نبیﷺ سے وارد ہوئی ہے اور جس کے متعلق کچھ واردنہیں وہاں سجودسہو سلام سے پہلے کیے جائیں گے۔(یہ حنابلہ کا موقف ہے۔)5۔ہر حدیث پر عمل کیاجائے گا‘ مثلا:آپﷺنے چار کےبجائے دو یا تین رکعات کے بعد سلام پھیر دیا۔ اس حالت میں آپ نے سلام کے بعدسجدے کیے۔ اور تشہد اول چھوٹنے کی صورت میں آپ نے سجدے پہلے کہے‘ لہذاایسی صورتوں میں آپ کے اسوہ کو اپنایا جائے گا۔ اور جس کے متعلق نبی ﷺکی سنت سے کچھ بھی نہیں ملتا ‘وہاں کمی کی صورت میں اسلام سے پہلےسجدے کیے جائیں گےاوراضافے کی صورت میں سلام کے بعد۔6۔نمازی کو اگرشک ہوجائے اور غور و فکر کے بعد کوئی جانب قابل ترجیح نہ ہوتو سجدے سلام سے پہلےاور اگر تحری کے بعد کوئی پہلو راجح ہوجائے توسجدے سلام کے بعد کیے جائیں گے۔7۔بولنے والے کو اختیار ہے اگر چاہے تو وہ سجدے سلام سے پہلے کرلے اور اگر چاہے تو بعد میں( امام مالک سے منقول ان کا یہ دوسرا موقف ہے۔)8۔دو مواقع کے علاوہ ہر جگہ سجودسہو سلام کے بعد کیے جائیں گے۔ دو موقعوں پربھولنے والا اختیار رکھتاہے‘ چاہے سلام سے پہلے سجدے کرلے‘ چاہے بعد میں۔ پہلا موقع جبکہ دو رکعتوں کے بعد تشہدنہ بیٹھے‘ سیدھا کھڑا ہو جائے۔ اور دوسرا‘ جبکہ اسے ش ہو دو‘تین یا چار‘ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں توکم ازکم پر بنا کرے۔ ان دونوں صورتوں میں وہ بااختیار ہے۔ اہل ظاہر کایہی مذہب ہے۔ (نیل الأوطار:3/127،126) (واضح رہے اہل ظاہر صرف انھی مقامات پرسجود سہو کی مشروعیت کےقائل ہیں جہاں نبیﷺ سے سہو ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی موقع پر وہ سجود سہو کے قائل نہیں۔ )اہل علم کا یہ اختلاف صرف افضیلت میں ہے۔ ویسے کمی بیشی کی صورت میں سجدے سلام سے پہلے کیے جائیں یابعد میں‘ ہردوصورتوں میں کفایت کر جائیں گے اور نماز فاسد نہیں ہوگی۔
البتہ راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اسی طرح عمل کیا جائے جیسا کہ نبیﷺ کے اقوال اور افعال تقاضا ہے‘ جہاں سجودسہوسلام سے پہلے کرنے کی قید ہے‘ وہاںسجدے اسلام سے پہلے کیے جائیں اور جہاں سجدےسلام کے بعد کرنے کی تقییدہے‘ وہاں اسلام کے بعد کیے جائیں اور جس کے متعلق کوئی قید وارد نہیں ہوئی وہاں بھولنے والے کو اختیار ہے‘ چاہے سلام سے پہلے کرلے یا بعد میں جیسا کہ ابن مسعودنےبیان کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا(إذا زاد الرجل أونقص فلیسجد سجدتین)جب آدمی نماز میں اضافہ کر دے یا کمی تو وہ دو سجدےکرے۔(صحیح مسلم،المساجد، حدیث:572) مری تفصیل کے لیے دیکھیے :(نيل الأوطار:3/128،116)سجودسہو کےبعدتشہد پڑھنا اور سلام پھیرنا: اس کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے۔ راجح یہی ہے کہ سجدوں کے بعد سلام کو پھیرے گا لیکن تشہد نہیں بیٹھے گا۔ امام بخارینے باب قائم کیاہے(باب من لم يتشهد في سجدتی السهو) سہو کےسجدوں کے بعد پھر تشہدنہ پڑھے۔“ اور اس کے تحت تعلیقایہ اثر نقل کیا ہے کہ انس اور حسن نے سلام پھیرا(یعنی سجودسہوکے بعد) اورتشہد نہیں پڑھا۔ علامہ عینی فرماتے ہیں کہ ابن ابی شیبہ نے اس اثر کو موصولا بھی بیان کیا ہے۔دیکھیے(عمدة القاري:7/451)حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ظہر کی نماز میں دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا‘ پھر ذوالیدین کے دریافت کرنے کے بعد آپ نے دو رکعتیں اور پڑھائیں اور پھر دو سجدے کیے۔ حضرت عمران بن حصین کی روایت میں ہے کہ آپ نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیے‘ پھر سلام پھیرا۔ (صحيح البخاري، الصلاة، حديث:482، وصحيح مسلم، المساجد، حديث:574)یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سجود سہو کے بعد سلام ہے‘ تشہد نہیں بلکہ کسی بھی صحیح حدیث میں سجودسہو کے بعد تشہد کا ذکر نہیں ۔ بعض روایات میں سجود سہو کے بعد تشہد کا ذکر ہے لیکن وہ ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں۔والله أعلم.امام ابن منذر فرماتے ہیں کہ سجودسہو میں سلام پھیرنا تو رسول اللہﷺ سے ثابت ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ ان میں تشہد بھی رسول اللہﷺسے ثابت ہو۔ اس کے متعلق تین احادیث مروی ہیں ‘ ان تمام کے متعلق اہل علم نے کلام کیا ہے ان میں سب سےاچھی سند والی روایت عمران بن حصین کی ہے۔ (اس میں صرف سلام ہی کا ذکر ہے۔) دیکھیے:(الأوسط:3/317،316)ایک نماز میں کئی بار سہو ہوجائے تو ؟:ایک نماز میں دو یا دو سے زیادہ مرتبہ ہو ہو جائے توپھر آخر میں صرف دوسجدے ہی کیے جائیں گے۔ رسول اللہﷺکا فرمان ہے: (سجدتا السهو في الصلاة تجزئان من كل زيادة ونقصان)’’ نماز میں سہو کےدوسجدے ہرکمی بیشی سے کفایت کر جائیں گئے۔(صحيح الجامع الصغير:1/678، رقم:3626، وسلسلة الأحاديث الصحيحة:5104، والسنن الكبرى للبيهقي:2/346)امام البانی نے اس کے لیے سنن ابوداود کی روایت بطور شاہد پیش کی ہے جسے انھوں نے حسن قراردیا ہے۔(لکل سهو سجدتان بعد ما يسلم) ہر سہو کے لیے سلام کے بعد (صرف) دوسجدے ہی ہیں۔ دیکھیے :(صحيح سنن أبي داود (مفصل):4/201رقم:954)ابن قدام فرماتے ہیں(لکل سهو سجدتان)میں لفظ سہواسم جنس ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ نماز جس میں سہو (ایک یا زیادہ دفعہ) ہو جائے تو اس میں دو ہی سجدےہیں۔(المغني:1/729، مسألة:926)نبی ﷺ کا فرمان ہے(اذا نسى احدكم فليسجد سجدتين)جب تم میں سے کوئی( نماز میں) بھول جائے تو وہ دوسجدے کرے۔(صحیح مسلم المساجد حديث:572/92)حدیث ذوالیدین سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ سے ایک ہی نماز میں ایک سے زیادہ سہو ہوئے لیکن آپ نے صرف دوسجدے ہی کیے۔ آپ نے نمازمکمل ہونے سے پہلے ہی سلام پھیر دیا ‘ پھر آپ چلے بھی اور کلام بھی کیا۔ ایک سے زیادہ کام ہونے کے باوجود آپ نےدوسجدے کیے۔علامہ عبید اللہ مبارکپوری حدیث ذو الیدین کی شرح میں رقمطراز ہیں: بار بار سہو ہونے کی وجہ سے سجدے مکرر نہیں کیے جائیں گے‘ اگر چہ سہو کی جنس مختلف ہو جائے‘ اس لیے کہ نبیﷺ نے کلام بھی کیا۔ بھول کر چلے بھی‘ سلام بھی پھیرا لیکن سجدے صرف دو کیے۔ امام ابن ابی شیبہ نے امام نخعی اور امام شعی سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ ہر سہو کے لیے صرف دوسجدے ہیں۔ دیکھیے : (مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، الصلاة باب سجود السهو:2/37)علامہ ابن منذر فرماتے ہیں: اہل علم کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ نمازی اپنی نماز میں ہار بار بھولے تو کیا کرے؟ ایک جماعت کا قول ہے کہ تمام غلطیوں (سہو ونسیان) سے دو سجدے ہی کافی ہیں۔ یہ قول امام نخعی، امام مالک، امام لیث بن سعد، امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد اور اصحاب الرائے کا ہے اور حسن بصری سے بھی اسی طرح مروی ہے۔دوسری جماعت کے نزدیک جس شخص کو دو مربتہ مختلف قسم کا سہو ہوجائے تو وہ ہر سہو کے بدلے دو‘ دوسجدے کرے۔ یہ اوزاعی کا قول ہے۔ ابن ابی حازم فرماتے ہیں: جب آدمی کو ایک نماز میں دو مرتبہ سہو ہو جائے۔ایک وہ جس کے لیےسجدے اسلام سے پہلے کیے جائیں (مثلا: تشہد اول چھوٹ جائے یا شک پڑ جائے اور انسان مترددہی رہے) اور دوسرا وہ جس میں سجدے سلام کے بعد کیے جائیں (مثلا: دو رکعتوں پر سلام پھیر دینا وغیرہ) تو وہ دوسجدے سلام سے پہلے کرے اور دوسجدے سلام کے بعد کرے۔ مزید دیکھیے(الأوسط لابن المنذر :3/318،317)علامہ ابن عثیمین اپنے رسالہ ”في سجود السهو“ میں فرماتے ہیں کہ جب آدمی پر دو سہو اکھٹے ہوجائیں‘ ان میں سے ایک کامحل سلام سے پہلے ہو اور دوسرے کا اسلام کے بعد‘ تو اہل علم فرماتے ہیں کہ وہ اسلام سے پہلےہی سجدے کرے۔ دلائل کی رو سے ہی راجح ہے کہ نماز میں اگر ایک یا زیادہ مرتبہ ہو سہو نسيان ہو جائے تو اس کے لیے بار بارسجدے نہیں کیے جائیں گے بلکہ صرف دو سجدے کفایت کر جائیں گئے۔ ان شاء اللہ۔ (اور یہی موقف راجح ہے۔ واللہ اعلم.امام کو لقمہ دینا : اگر امام نماز میں قراءت کرتے ہوئے بھول جائے تو اسے لقمہ دینا درست ہے۔ اس سے نہ نماز فاسد ہوتی ہے اور نہ سجود سہو کرنے پڑیں گے۔ بعض احناف لقمہ دینے کے قائل نہیں ان کے ہاں اگر امام بھول جائے تو صرف سجدہ سہو ہی کافی ہے۔ حضرت مسور بن یزید مالکی بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا‘ آپ نے نماز میں قراءت فرمائی اور اس میں سے کچھ آیات چھوٹ گئیں جنھیں میں آپ نے تلاوت نہیں فرمایا۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں آیت چھوڑ دی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تونے مجھے یاد کیوں نہ کرادیں؟‘‘ نیز حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ایک نماز پڑھی اور اس میں قراء ت کی تو کچھ غلط ہوگیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابی سے فرمایا: کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں! آپ نے فرمایا: ”تو تمہیں کس چیزنےروکا تھا( کہ مجھے بتا دیتے)۔ ‘‘ (سنن أبي داود الصلاة حديث:907)بشری تقاضوں کے تحت نبیﷺ کو بھی قراءت میں کچھ بھول ہوئی جس سےایک تو آپ ﷺ کی بشیریت کا اثبات ہوا‘ دوسرا آپ کا بھولانا امت کے لیے تعلیم وتشریع کاذریعہ بن گیا۔علامہ شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں: یہ دونوں حدیث لقمہ دینے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور جواز لقمہ کو اس شرط کے ساتھ مقید کرنا کہ امام اتنی قراءت کرتے ہوئے بھول جائے جو واجب ہے (تین آیات )اور رکعت آخری ہو۔ يہ قول بلادلیل ہے۔ دلائل سے مطلق لقمہ دینے کا جواز ثابت ہوتا ہے‘ خواہ بقدر واجب قراءت میں بھولے یا زیادہ میں ‘اور لقمہ دینے کی دو صورتیں ہیں(1) جہری نماز میں اگر قراءت میں بھول جاے تو مقتدی بولی ہوئی آیت امام کو بتلادے۔(2) اگر قراءت کے علاوہ ہو مثلا:سجدہ یا قعدہ وغیرہ‘ مقتدی اگر مرد ہو ‘ تو امام کوسبحان اللہ کہہ کر اطلاع دے اور اگر عورت ہوتو تالی بجائے۔ مزید دیکھیے :(عون المعبود:3/176، تحت حدیث:907)بعض فقہاء کی کتب میں بھی ان کے جواز کا ثبوت ملتا ہے۔شرح وقایہ میں عبیداللہ بن مسعود بن تاج الشریہ لکھتے ہیں(وفتحه على غير إمامه إنما قال على غير إمامه لأن فتحه على إمامه لا يفسد، قال بعض المشايخ: إذا قرأ إمامة مقدار ما یجوزبه الصلاة أو انتقل إلى آية أخری ففتح تفسد صلاة الفاتح و إن أخذ الإمام من تفسد صلاة الإمام أيضا وبعضهم قالوا تفسد في شيء من ذلك و سمعت أن الفتوى على ذلك)اور اپنے امام کے علاوہ غیرکو لقمہ دینا (صاحب وقایہ نے) اپنے امام کے علاوہ اس لیے کہا کہ اپنے امام کو لقمہ دینا نماز کو فاسد نہیں کرتا اور بعض مشائخ نے کہا ہے کہ جب امام اتنی قراءت کرلے جس سے نماز جائز ہے (یعنی تین آیات)یا دوسری آیت کی طرف منتقل ہوگیا اور مقتدی نے لقمہ دیا تو لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر امام نے اس کالقمہ تو امام کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی اور بعض مشائخ نے کہا کہ ان میں سے کسی شے میں بھی نماز فاسد نہیں ہوگی اور (شارح فرماتے ہیں) میں نے( اپنے مشائخ سے )سنا ہے کہ فتوی اسی پر ہے۔ (شرح الوقاية باب ما یفسد الصلاة وما يكره فيها:1/190) شرح وقایہ کے حاشیے پر بھی مولانا عبیداالحق نے سنن ابوداود کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام کو لقمہ دیناجائزہے۔جولوگ لقمہ دینے کے قائل نہیں ان کی دلیل سنن ابی داود کی حدیث ہے جسے ابو اسحاق نے حارث سے انھوں نے حضرت علی سے روایت کیاہے نبی ﷺنے فرمایا(یاعلی لاتفتح على الإمام في الصلاة )اے علی! نماز میں امام کو لقمت مت دو۔‘‘ (سنن أبي داود الصلاة حديث:908)امام ابوداوداس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ابو اسحاق نے حارث سے صرف چاراحادیث سنی ہیں اور یہ ان میں سے نہیں ہے ‘ نیز اس کی سند میں حارث اعور ہے جسے اکثرائمہ نے کذاب کہا ہے۔ امام مسلم نے بھی صحیح مسلم کے مقدے میں اس پر کذب بیانی کاحکم لگایا ہے۔ مزید دیکھیے( تهذيب التهذيب:2/126) لہذا اس سخت ضعیف روایت کولقمہ دینے کے عدم جواز پر دلیل بنانا درست نہیں۔صحیح اور راجح بات وہی ہے جو دلائل سے ثابت شدہ ہے کہ امام کو لقمہ دینا جائز ہے۔ اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ والله أعلم. کیا غیرنمازی نمازی کو لقمہ دے سکتا ہے؟ اس کی بابت صحیح اور درست موقف یہ ہے کہ وہ شخص جونماز سے باہر ہے ‘ وہ نماز پڑھنے والے کو لقمہ دے سکتا ہے اور نماز پڑھنے والا بھی اس کا لقمہ قبول کر سکتا ہے۔ اس سے اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺپہلےمدینے میں تشریف لائے تو انصار سے اپنی ننھیال یا(فرمایا) اپنے ماموں پراترے اور سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے‘ اور بیت اللہ کی طرف منہ کر کےنماز پڑھنا آپ کو پسندتھا‘ پہلی نماز جو آپ نے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے پڑھی وہ نماز ظہر ہے۔ اور آپ کے ساتھ ایک جماعت نے نماز پڑھی۔ ان میں سے ایک آدمی نماز سے فارغ ہونے کے بعد نکلا اور ایک (دوسری) مسجد والوں کے پاس سے گزرا‘ وہ رکوع کی حالت میں تھے۔ اس نے کہا: میں اللہ نام کے ساتھ گواہی دیتا ہوں (اللہ کی قسم!) میں نے اللہ کے رسولﷺکے ساتھ بیت اللہ کی طرف (منہ کرکے )نماز پڑھی ہے‘ چنانچہ مسجد والے رکوع ہی کی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھرگئے۔ دیکھیے( صحيح البخاري، الإيمان، حديث:40) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لقمہ دینے کے لیے نماز میں داخل ہونا شرط نہیں۔ جوشخص نماز میں شامل نہ ہو لقمہ دے سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیرنمازی کا تعلیم دینا جائز ہے اور نمازی کا غیرنمازی کے کلام کو سننا اور اس پرعمل کرنا اس کی نماز کوفاسد نہیں کرتا۔ دیکھیے :(فتح الباري :1/657، حدیث:403)اگر امام بھول جائے تومقتدی بھی سجدہ کریں:اگرامام بھول جائے تو آخر میں سجدا سہو کرےگا اور مقتدی بھی اس کے ساتھ سجدے کریں گے کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: (إنما جعل الإمام ليؤتم به)بلاشبہ امام کو اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔(صحيح البخاري،الصلاة، حديث:378، وصحیح مسلم الصلاة،حديث:411)علامہ ابن منذر فرماتے ہیں: اگر امام بھول جائے‘ پھر نماز کے آخر میں سہو کے سجدے بھی نہ کرے تو اس کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے۔ ایک گروہ کا موقف یہ ہے کہ جب امام سجدہ نہ کرے تومقتدی بھی سجدے نہ کرے۔ یہ حسن بصری‘ عطابن ابو رباح‘نخعی‘ قاسم‘حماد بن ابوسلیمان‘ سفیان ثوری اور اصحاب الرائے کا قول ہے۔ دوسرے گروہ کا موقف یہ ہے کہ جب امام کوغلطی لگ جائے اور وہ سہو کےسجدے نہ کرے تو لوگ سجدہ کریں گے۔یہ ابن سیرین ‘ حکم‘ قتادہ‘ اوزاعی‘ مالک ‘ لیث بن سعد‘ شافعی اورابوثور کا قول ہے۔ ابوثور فرماتے ہیں: یہ اس لیے کہ یہ چیز (سجود سہو) ان پر واجب ہوگئی ہے‘ لہذا واجب کو ترک کرنے سے ان سے حکم زائل نہ ہوگا‘ اس لیے کہ فرض اور واجب کو ادا کرنے والے سے وہ فرض یا واجب اس وقت تک زائل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اسے ادا نہ کرے۔ (الأوسط:3/323،322)لیکن راجح یہ ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ سلام پھیر دیں۔ اگر امام کو یاد نہ آئے تو مقتدی یادکرادیں ‘ پھر امام اور مقتدی مل کرسہو کےدوسجدے کریں۔مقتدی سے غلطی ہو جائے توسجودسہو حکم: اگر مقتدی سے کوئی سہو جائے تو وہ سجدے نہیں کرے گا کیونکہ وہ اپنے امام کے تابع ہے۔ اگر یہ سجدے کرے گا تو امام کی اقتداسے نکل جائے گا جبکہ مقتدی کوامام کی پیروی کاحکم ہے یا کہ معاویہ بن حکم سلمی نے نماز میں بھول کر یا عدم واقفیت کی بنا پر کلام کیا لیکن نبیﷺنے انھیں سجدے کاحکم دیا نہ نماز لوٹانے کا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حديث:537) اگر مسبوق ‘ یعنی جوآدمی بعد میں جماعت کے ساتھ شامل ہوا اور اس کی کوئی رکعت رہ گئی اس کی دو صورتیں ہیں(1) امام کے سلام پھیرنےسے پہلے ‘یعنی امام کی اقتدا کی حالت میں اگرغلطی ہو جائے تو سجودسہو نہیں کرے گا۔ (2) اگر امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق سے غلطی ہو تو اب وہ سہو سجدے کرے گا کیونکہ اب وہ امام کی اقتدا سے نکل چکا ہے اورمنفردآدمی کے حکم میں ہے۔علامہ ابن منذر فرماتے ہیں: اکثر اہل علم کایہی قول ہے کہ جو شخص امام کے پیچھے ہے‘ اس سے بھول ہو جائے تو اس پر سہو کےسجدے نہیں ہیں۔ ابن عباس ؓ نخعی ‘شعبی‘ مکحول‘ زہری‘ مالک‘ سفیان ثوری‘ اوزاعی‘ شافعی‘ احمد‘ اسحاق اور اصحاب الرائے سے اسی طرح مروی ہے‘ نیز ابواسحاق نےاس پر اہل علم کے اجماع کا ذکر کیا ہے۔ سعید بن مسیب اور حسن بصری سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ دیکھیے :(الأوسط:3/321)اگر امام کے ذمے سہو کے سجدے ہوں تو کیا مسبوق بھی سجدے کرے گا؟:اگر امام سے سہو ہوجائے اور امام سلام سے پہلے سجدے کرے تو مسبوق بھی سجدے کرےگا۔ اگر امام نے سجدے سلام کے بعد کی اور مسبوق بقیہ نماز کے لیے کھڑا ہوگیا تو اس کاحکم اس آدمی جیساہے جو پہلے تشہد سے کھڑا ہو‘ یعنی اگر امام نے اس کے کھڑا ہونے سے پہلے سجدہ کرلیا تو اس کے لیے لوٹنا لازم ہے اور اگر مکمل کھڑا ہو گیا اور قراءت شروع نہیں کی تو وہ لوٹے گا نہیں اگرلوٹ آئے تو جائز ہے۔ اگر قراءت شروع کر لی تو اس کےلیے لوٹنا درست نہیں ‘ البتہ بقیہ نماز ادا کرنے کے بعد وہ سجدے کرے گا۔ (حاشية الروض المربع:2/171)شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں کہ سلام پھیرنے کے بعدسجدے کرے گا۔ (الشرح الممتع:3/526) مسبوق امام کے ساتھ ہی سلام پھیر د ے اور بقیہ نماز پڑھنا بھول جائے:اگر مسبوق امام کے ساتھ ہی سلام پھیر د ےاور بقیہ نماز پڑھنا بھول جائے تو یاد آنے پر بقیہ نماز پڑھے اور سلام کےبعد دوسجدے کرے پھر سلام پھیر دے۔ اگر اس نے فرض نماز کے بعدنفل نماز شروع کر دی تو اس کےمتعلق اہل علم کا اختلاف ہے جسے ابن منذر نے ذکر کیا ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کے نزدیک اس نے جونفل نماز پڑھ لی ہے‘ وہ لغو ہو جائے گی اور وہ اپنی نماز مکمل کر کے سہو کے دوسجد ے کرے۔ حضرت انس فرض نماز سے ایک رکعت بھول گئے اور نماز شروع کردی‘ دوران نماز میں یاد آیا تو انھوں نے فرض نمازسے جو باقی رہتی تھی‘وہ پڑھی‘ پھر بیٹھےبیٹھے دوسجدےکیے۔ یہ امام حکم اور اوزاعی کا قول ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس کی فرض نماز باطل ہو جائے گی ۔ کہ وہ نفل میں داخل ہو جائے‘ اب وہ نئے سرے سے نماز پڑھے۔ حسن بصری‘ حماد اور امام مالک سے اسی طرح مروی ہے۔ مزید دیکھیے :(الأوسط: 3/324)کیا مسبوق امام کے ساتھ زائد رکعت شمار کرے گا؟:اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دوسری رکعت میں شامل ہو اور امام بھول کر ایک رکعت زائد ادا کرلےتو بعد میں آ کر ملنے والا (مسبوق) اسے اپنی چوتھی رکعت شمار کرے اور امام کے ساتھ سلام پھیر دے کیونکہ اس کی نمازمکمل ہوچکی ہے لیکن امام اس زائد رکعت میں معذور ہے۔شیخ ابن عثیمین بھی فرماتے ہیں: اگر امام بھول کر پانچ رکعات پڑھادے تو اس کی نمازصحیح ہے اور جہالت یا سہو کی حالت میں اس کی متابعت کرنے والے کی نماز بھی صحیح ہے لیکن جسے زائد رکعت کاعلم ہو اسی پر بیٹھنا اور سلام پھیرنا واجب ہے کیو نکہ اس حالت میں اس کا اعتقاد ہے کہ اس کے امام کی نماز باطل .ہے۔ لیکن اگر اسے خدشہ ہو کہ اس کا امام زائد رکعت ادا کرنے کے لیے اس بنا پر کھڑا ہوا ہے کہ اس کی کسی ایک رکعت میں خلل پیدا ہوا مثلا:سورة فاتحہ میں کوئی نقص واقع ہوگیاوغیرہ‘ تو اس حالت میں امام کا انتظار کرے اور جب امام سلام پھیرے تو اس کے ساتھ ہی سلام پھیر دے ۔ اگر دوسری رکعت میں امام کے ساتھ شامل ہوا تو اس کے لیےیہ رکعت زائد شمار ہوگی‘ وہ امام کے ساتھ ہی سلام پھیردے۔ (محموع الفتاوى للشيخ ابن عثيمين:14/20)کیانفلی نماز میں غلطی ہو جانے پر سجود سہو کیے جائیں گے؟ : فرض نمازوں کی طرح نقل نمازوں میں بھی سجود سہوکے اسباب کی موجودگی میں سجودسہو کرنا مشروع ہیں۔ جمہور اہل علم کایہی موقف ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان عام ہے: (إذا نسي أحدکم فلیسجد سجدتين) جب تم میں سے کوئی( نمازمیں) بھول جائے تو وہ دوسجدے کرے۔ (صحیح مسلم،المساجد، حديث:572/92)اور دوسری روایت میں ہے( اذا زاد الرجل أو نقص فلیسجد سجدتين)جب آدمی(اپنی نماز میں )کوئی اضافہ یاکمی کرے تو وہ دو سجدےکرے۔ (صحیح مسلم المساجد حديث:572/96) امام بخاری نےصحیح بخاری میں عنوان قائم کیا ہے:[باب السهو في الفرض والتطوع، وسجد ابن عباس سجدتين بعد وترہ) فرض اورنفل نماز میں سہو کا بیان‘ اور ابن عباس ؓنے اپنے وتر کے بعد دوسجدے کیے۔“اس کے تحت امام بخاری نے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا(إن أحدكم إذا قام يصلي جاء الشيطان فلبس عليه حتى لا يدري كم صلی فإذا وجد ذلك أحدكم فليسجد سجدتين وهو جالس)بے شک جب تم میں سے کوئی نماز میں کھڑا ہوتاہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اس پرخلط کرتا ہے یہاں تک کہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے اتنی نماز پڑھی ہے‘ چنانچہ جب تم میں سے کوئی یہ صورت حال پائے تو وہ بیٹھے بیٹھے دوسجدےکرے۔(صحيح البخاري،السهو،حديث:1232، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:389، بعد حديث:569) لہذا راجح یہی ہےکہ فرض نماز کی طرح نفل نماز میں بھی غلطی کی صورت میں سجودسہوکیےجائیں گے۔علامہ ابن منذر نے ابن عباسؓ کا قول نقل کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا: جب تمہیں نفل نماز میں شک پڑ جائےتو دوسجدے کرو۔ یہ قول حسن بصری‘ سعید بن جبیر‘ قتادہ‘ سفیان ثوری‘ مالک‘ اوزاعی‘ شافعی‘ احمداوراصحاب الرائے کاہے(الأوسط:3/325،326)