تشریح:
(1) واقعے کی تفصیلات تو حدیث سے واضح ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا کہ آپ میری باری کی رات کسی اور بیوی کے گھر گئے ہیں، حالانکہ آپ جیسی عادل شخصیت کے لیے یہ ممکن نہ تھا کیونکہ یہ تو ظلم ہے اور نبی کی شخصیت اس سے پاک ہوتی ہے۔ غیرت کے جذبات کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دھیان اس حقیقت کی طرف نہ جاسکا۔ تبھی آپ نے ان کے سینے پر مکا مار کر انھیں حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔ چونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر قدم نہیں اٹھاتے تھے، اس لیے اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر فرمایا: ﴿أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ﴾ کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟
(2) اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ آپ پر بیویوں کے درمیان باری مقرر کرنا واجب تھا، ورنہ باری کی خلاف ورزی ظلم نہ ہوتا مگر اس تکلف کی ضرورت نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عاادل شخصیت وجوب کے بغیر بھی کسی کا دل نہیں دکھا سکتی تھی۔ آپ کے اخلاق کریمانہ سے بعید تھا کہ آپ کسی کی دل آزاری کرتے۔
(3) معلوم ہوا کہ دعا کے قصد سے قبرستان جانا چاہیے اور لمبی دعا کرنی چاہیے۔ [السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ………] کے علاوہ بھی مزید دعا کرنی جائز ہے۔ علاوہ ازیں ہاتھ اٹھا کر کی جائے یا ویسے ہی کر لی جائے، دونوں طرح جائز ہے۔
(4) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوا کہ عورت بھی زیارتِ قبر کے لیے جاسکتی ہے۔ واللہ أعلم۔