تشریح:
اس حدیث سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان میں جوتوں سمیت نہیں چلنا چاہیے تاکہ قبروں کا احترام قائم رہے، آئندہ دو روایات سے امام صاحب رحمہ اللہ نے قبرستان میں جوتوں سمیت چلنے کا جواز نکالا ہے، اس لیے وہ ظاہر الفاظ کی رعایت سے یہ تطبیق دے رہے ہیں کہ رنگ کر صاف کیے ہوئے چمڑے کے جوتے پہن کر چلنا منع ہے، سادہ جوتے پہن کر چل سکتا ہے مگر یہ تطبیق دل کو نہیں لگتی۔ آئندہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ”جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور دفنانے والے واپس آ جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔“ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبرستان میں جوتوں سمیت جانا اور قبروں کے درمیان پھر ناجائز ہے کیونکہ اس کی کوئی صراحت نہیں۔ قبرستان میں داخل ہوتے وقت جوتے اتار دیے جائیں اور واپسی پر پہن لیے جائیں۔ یہ مفہوم اس حدیث کے مخالف نہیں بلکہ عین موافق ہے، اس لیے راجح بات یہی ہے کہ قبرستان میں جوتے پہن کر نہ جایا جائے، اگر کوئی ایسا عذر ہے کہ جوتوں کے بغیر اندر جانا ممکن نہیں، مثلاً کانٹے یا کنکریاں وغیرہ ہیں یا زمین بہت گرم ہے تو پھر مجبوری کے تحت پہنے جا سکتے ہیں۔ ﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ﴾ اور ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ کا تقاضا یہی ہے۔ واللہ أعلم۔