تشریح:
(1) ”مجھے پکڑ لیا“ اس نے سمجھا کہ اس طریقے سے جسم کو بظاہر ختم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ مجھے پکڑ نہ سکے گا، مگر یہ اس کی نادانی تھی کیونکہ اس طریقے سے بھی جسم کی شکل و صورت تو بدل سکتی ہے کہ وہ گوشت اور ہڈیوں سے راکھ بن گیا مگر ختم تو نہ ہوسکے گا، راکھ تو موجود ہی ہے۔
(2) ”معاف کر دیا“ اس کی جہالت کو عذر قرار دیا، نیز اس کی نیت تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے ہی کی تھی اگرچہ طریقہ غلط تھا۔ معلوم ہوا عمل کے بجائے نیت کا اعتبار زیادہ ہوتا ہے۔ نیت غلط ہو اور عمل صحیح تو عمل غیر معتبر ہوتا ہے، جیسے دکھلاوے کی نماز، لیکن اگر نیت صحیح ہو، عمل غلط ہو جائے تو ثواب مل جاتا ہے، جیسے حق کی تلاش کرنے والے مجتہد کو حق نہ بھی مل سکے تب بھی وہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔
(3) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافر نہ تھا، قابل معافی تھا ورنہ کفر اور شرک تو کسی صورت بھی معاف نہیں ہوسکتا۔ گناہوں کا احساس اور خوف بھی ایمان کی علامت ہے۔
(4) موت کے بعد اٹھنے کا اثبات ہوتا ہے۔
(5) اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت معلوم ہوتی ہے۔
(6) اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی فضیلت کا پتا چلتا ہے۔
(7) اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے۔