تشریح:
(1) یہ دونوں حضرت لیث کے شاگرد ہیں۔ یعقوب بن ابراہیم نے حضرت لیث اور سعید کے درمیان ابن عجلان وغیرہ کا واسطہ ذکر کیا ہے جبکہ عیسیٰ بن حماد نے کوئی ایسا واسطہ ذکر نہیں کیا۔ اور یہی روایت درست ہے۔ واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بہت سمجھ دار شخص تھے کہ آپ کے پاس حاضری اور اظہار ایمان میں جلد بازی نہیں کی۔ تسلی سے اونٹ کو بٹھایا، گھٹنا باندھا، پوری تحقیق و تفتیش کی اور اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں کی۔ جب یقین ہوگیا تو پھر اپنے ایمان کا اعلان کیا اور پھر اپنا تعارف کروایا۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے…
(2) ”ابن عبدالمطلب“ عرب میں اسی نسبت سے مشہور تھے کیونکہ آپ کے دادا عبدالمطلب مشہور شخصیت تھے جبکہ آپ کے والد شہرت یاب ہونے سے پہلے اور آپ کی پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے۔ اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے، لہٰذا وہ زیادہ معروف نہ تھے، نیز آپ کی ابتدائی پرورش بھی آپ کے دادا ہی نے کی تھی۔ خود رسول اللہﷺ نے بھی غزوۂ حنین میں یوں ہی کہا تھا: [اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ] (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: ۲۸۴۲، وصحیح مسلم، الجهاد، حدیث ۱۷۷۶)
(3) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو دین اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ مزید تصدیق اور اعلان کے لیے حاضر ہوئے تھے۔
(4) مندرجہ بالا تینوں روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں الگ الگ واقعات ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرا اور تیسرا ایک ہی واقعہ ہے اور ان میں جو اختلاف ہے یہ رواۃ کے بیان کا اختلاف ہے۔