تشریح:
(1) ’’اسے کہا گیا۔‘‘ ظاہر ہے کہنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے کیونکہ آپ کے دور میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ ہی سے مسئلہ پوچھا کرتے تھے۔ واللہ أعلم۔
(2) ’’سرکش رگ‘‘ چونکہ استحاضہ شروع ہو جائے تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتا، اس لیے رگ کو سرکش کہا گیا ہے۔ بعض نے اس کے معنی ’’نہ رکنے والی‘‘ کیے ہیں، یہ معنی بھی درست ہیں۔
(3) اس حدیث میں مستحاضہ عورت کو ایک دن میں تین غسل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے مگر یہ مستحب اور اختیاری چیز ہے، واجب نہیں کیونکہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہیں: ’’اگر تو طاقت رکھے۔‘‘ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: ۲۸۷) ورنہ واجب تو صرف وضو ہے۔
(4) ایک نماز کو مؤخر کرنا اور دوسری کو جلدی پڑھنا، یہ جمع صوری ہے، یعنی پہلی نماز اپنے آخری وقت میں اور دوسری نماز اپنے اول وقت میں۔ اس طرح دونوں نمازیں اپنے اپنے اصل وقت ہی میں پڑھی جائیں گی۔ صرف ظاہراً جمع کی گئی ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: وصله الطحاوي بإسناد صحيح بلفظ: اغتسلي عند كل صلاتين
مرة وصلَي) .
وصله الطحاوي (1/61) : ثنا ابن أبي داود قال: ثنا أبو معمر قال: ثنا
عبد الوارث قال: ثنا محمد بن جَحَادة عن إسماعيل بن رجاء عن سعيد بن جبير
عن ابن عباس قال:
جاءته امرأة مستحاضة تسأله؟ فلم يُفْتِها، وقال لها: سَلِي غيري! قال: فأتتِ
ابن عمر فساءلته؟ فقال لها: لا تصلي ما رأيتِ الدم. فرجعت إلى ابن عباس
فأخبرته؟ فقال: رحمه الله! إن كاد ليكفًرك. قال: ثم سألت علي بن أبي طالب؟
فقال: تلك ركزة من الشيطان أو قُرْحة في الرحم! اغتسلي عند كُلِّ صلاتين مرةً
وصلي. قال: فلقيتِ ابن عباس بعدُ فسألتْهُ؟ فقال: ما أجدُ لكِ إلا ما قال علي
رضي الله عنه.
وهذا إسناد صحيح؛ رجاله رجال مسلم؛ غير ابن أبي داود- واسمه إبراهيم-،
وهو ثقة حافظ.