تشریح:
(1) یہ تحریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی تاکہ سرکاری حکام کو بھیجیں مگر آپ کو موقع نہ مل سکا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انھوں نے یہ تحریر نقلیں کروا کر تمام حکام کو بھیجی۔ ویسے بھی اس تحریر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا ہے، لہٰذا یہ تحریر مرفوع، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
(2) ”وہ نہ دے۔“ یعنی زائد زکاۃ نہ دے یا بالکل زکاۃ نہ دے کیونکہ ظالم حاکم شرعاً معزول ہوتا ہے۔
(3) ”ہر پانچ میں ایک بکری۔“ یعنی پانچ اونٹوں میں ایک بکری، دس میں دو، پندرہ میں تین، بیس میں چار، چوبیس تک۔
(4) ”بنت مخاض“ ایک سال کی اونٹنی جو دوسرے سال میں شروع ہو چکی ہو۔ ”بنت لبون“ جو دو سال کی ہو اور تیسرے سال میں داخل ہو۔ ”حقہ“ تین سال کی اونٹنی جو چوتھے سال میں شروع ہو۔ اس عمر کی اونٹنی نر کی جفتی کے قابل ہو جاتی ہے، نیز وہ سواری کے بھی قابل ہو جاتی ہے۔ ”جزغہ“ چار سال کی اونٹنی جو پانچویں سال میں شروع ہو۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اونٹوں کی زکاۃ میں صرف مؤنث، یعنی اونٹنی ہی لی جائے گی کیونکہ مؤنث کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور اس سے سواری، گوشت، دودھ اور نسل کا فائدہ حاصل ہوتا ہے جبکہ مذکر، یعنی نر اونٹ سے صرف سواری اور گوشت کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، اس لیے اونٹنی میں فقراء کا فائدہ ہے، لہٰذا اگر مجبوراً نر لیا جائے تو وہ مقررہ زکاۃ سے ایک سال بڑی عمر کا لیا جائے گا تاکہ قیمت برابر ہو جائے۔ یا اصل جانور کی قیمت وصول کی جائے گی۔
(5) جب ایک سو بیس سے زائد ہو جائیں، یعنی ایک سو اکیس ہو جائیں تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس میں ایک حقہ ہوگی، یعنی اس تعداد کو چالیس اور پچاس کے حصوں میں بانٹ لیا جائے، مثلاً: ۱۲۱ سے ۱۲۹ تک تین چالیس حصے بنتے ہیں، لہٰذا تین بنت لبون زکاۃ ہوگی۔ ۱۳۰ سے ۱۳۹ تک دو چالیس اور ایک پچاس بنتے ہیں لہٰذا دو بنت لبون اور ایک حقہ زکاۃ ہوگی۔ ۱۴۰ میں ایک چالیس اور دو پچاس بنتے ہیں، لہٰذا ایک بنت لبون اور دو حقے زکاۃ ہوگی۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ان صورتوں میں پچھلی دہائی کی زکاۃ اگلی دہائی تک چلے گی، یعنی ۱۳۰ والی زکاۃ ۱۳۹ تک، ۱۴۰ والی زکاۃ ۱۴۹ تک اور ۱۵۰ کی زکاۃ ۱۵۹ تک چلے گی۔
(6) ”اگر مقررہ عمر کے اونٹ نہ مل سکیں۔“ ایسی صورت میں مقررہ اونٹ کی قیمت وصول کی جائے گی یا چھوٹی یا بڑی عمر کا اونٹ لے کر اور مزید کچھ لے دے کر قیمت پوری کر لی جائے گی جس کی چند صورتیں بیان کی گئی ہیں جو اصل قیمت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بکریاں یا بیس درہم قیمت کے حساب سے مقرر فرمائی ہیں۔ مذکورہ کمی پوری کرنے کے لیے دو بکریاں ہی مانی جائیں گی، پھر جہاں ان دو بکریوں کی جو قیمت بنتی ہو وہ قیمت مانی جائے گی۔
(7) ”ہر سو میں ایک بکری۔“ ظاہر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ۳۰۱ سے ۴۰۰ تک چار بکریاں اور ۴۰۱ سے ۵۰۰ تک پانچ بکریاں مگر جمہور اہل علم نے یہ مفہوم مراد نہیں لیا، بلکہ ان کا خیال ہے کہ چوتھی بکری ۴۰۰ بکریوں میں پڑے گی۔ اس سے کم میں تین بکریاں ہی زکاۃ ہوں گی گویا ۲۰۱ سے ۳۹۹ تک تین بکریاں ہی رہیں گی۔ واللہ أعلم
(8) ”بوڑھا، کانا (عیب والا جانور)۔“ زکاۃ میں صحیح سالم جانور وصول کیا جائے گا اور موٹاپے کے لحاظ سے درمیانہ جانور لیا جائے گا، نہ بہت اچھا اور نہ بہت کمزور۔ اونٹوں میں تو عمر مقرر ہے، بکریوں میں جوان بکری لی جائے گی۔
(9) ”مذکر (نر)۔“ جو بکریوں کے لیے رکھا گیا ہو کیونکہ وہ قیمتی ہوتا ہے، اس سے مالک کو نقصان ہوگا۔ یا اس لیے کہ بکری فقراء کے لیے زیادہ مفید ہے، اس سے بچے حاصل ہوں گے، لہٰذا زکاۃ میں مؤنث ہی وصول کی جائے گی۔ الا یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا مذکر کی ضرورت محسوس کرے اور مالک دینے پر راضی ہو۔
(10) ”اکٹھا نہیں کیا جائے گا۔“ ایک شخص کے پاس پچاس بکریاں ہوں اور دوسرے کے پاس بھی پچاس تو ان کی زکاۃ ایک ایک بکری دینی پڑے گی لیکن اگر وہ دونوں ایک مالک ظاہر کر کے بکریاں اکٹھی ظاہر کر دیں تو کل سو بکریوں میں صرف ایک بکری زکاۃ ہوگی۔ یہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے کوئی شخص یہ حیلہ کر سکتا ہے، لہٰذا اس سے منع فرمایا تاکہ زکاۃ سے فرار کا رجحان پیدا نہ ہو۔ واجب سے بچنے کے لیے ایسا حیلہ کرنا حرام ہے۔ اسی طرح کبھی اکٹھی بکریوں کو متفرق ظاہر کر کے ۳۰، ۳۰ کے ریوڑ بنا دے تو زکاۃ سے بچ سکتا ہے، مگر اس قسم کے حیلے جو حرام کو حلال کریں یا حلال کو حرام یا اسی طرح واجب کو ساقط کر دیں، شرعاً حرام ہیں اور جرم ہیں۔ اس کے برعکس زکاۃ وصول کرنے والا بھی کر سکتا ہے، لہٰزا اس کے لیے بھی منع ہے، مثلاً: دو شرکاء کے پاس مجموعی طور پر سو بکریاں ہیں، زکاۃ وصول کرنے والا زیادہ وصول کرنے کی خاطر ان سو بکریوں کو الگ الگ کر دے گا تو دو بکریاں زکاۃ مل جائے گی جبکہ یکجا رہنے میں ایک ہی ملے گی۔ یا مثلاً: دو آدمیوں کے پاس الگ الگ ۱۱۵، ۱۱۵ بکریاں ہیں جن میں صرف ایک ایک بکری زکاۃ ہے، وصول کرنے والا آکر دونوں کو یکجا کر دے تو اس کو تین بکریاں مل جائیں گی، تو اس کے لیے بھی ایسا کرنا جائز نہیں۔ غرض زکاۃ کے خوف سے جمع یا متفرق کرنے کی ممانعت مالک کو بھی ہے اور زکاۃ وصول کرنے والے (عامل کو بھی)۔
(11) ”دو شریک مالکوں سے زکاۃ۔“ اگر دو شخص مشترکہ طور پر جانوروں کے مالک ہیں، وہ کسی بھی تناسب سے مالک ہوں، عائد ہونے والی زکاۃ اسی تناسب سے ان کو دینی پڑے گی بشرطیکہ وہ جانور ایک ہی باڑے میں رہتے ہوں، ان کا چرواہا اور دیگر اخراجات مشترکہ طور پر ہوتے ہوں۔ گویا ظاہراً ان میں کوئی امتیاز نہ ہو تو ان کی زکاۃ مشترکہ وصول کی جائے گی۔
(۱۲ چاندی یا کرنسی کی زکاۃ کا مسئلہ حدیث: ۲۴۴۷ کے تحت بیان ہو چکا ہے۔