تشریح:
(1) اس حدیث میں تَصَدَّقُوْا کا لفظ ہے، مگر مراد فرض یا نفل صدقہ نہیں بلکہ مطلق خرچ کرنا مراد ہے۔ اس لفظ میں نکتہ یہ ہے کہ مومن کو اپنے واجب اخراجات پر بھی ثواب ملتا ہیے بشرطیکہ حلال مال سے کرے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور ثواب کی نیت رکھے۔
(2) بعض احادیث میں اولاد کو بیوی سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں کے اخراجات یکساں واجب ہیں۔
(3) بیان کردہ ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک فرض اخراجات پورے نہ ہوں، آگے صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اول خویش بعد درویش۔ الا یہ کہ اختیار نہ رہے، مثلاً: مہمان گھر آجائے تو گھر والوں کو بھوکا رکھ کر بھی مہمان نوازی کی جا سکتی ہے۔ گویا یہاں اختیاری صدقے کا بیان ہے۔
(4) ”تو زیادہ جانتا ہے۔“ یعنی پھر تیری مرضی۔ جہاں مناسب سمجھتا ہے خرچ کر۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وصححه ابن حبان والحاكم والذهبي) .
إسناده: حدثنا محمد بن كثير: أخبرنا سفيان عن محمد بن عجلان عن
المقبري عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير محمد بن
عجلان؛ فإنه حسن الحديث كما تقدم مراراً.
والحديث أخرجه النسائي (1/351) ، وأحمد (2/471) من طريق يحيى بن
سعيد عن ابن عجلان... به.
وأخرجه ابن حبان (828) عن الليث عنه.
والحاكم (1/415) من طريق أخرى عن محمد بن كثير، وقال:
" صحيح على شرط مسلم "! ووافقه الذهبي!
وأخرجه البخاري في "الأدب المفرد" (197) ... بإسناد المؤلف.
وله عنده شاهد من حديث جابر (750) .
وفيه أبو رافع إسماعيل بن رافع، وهو ضعيف، وفي متنه نقص، وزيادة
منكرة.