تشریح:
(1) کوئی شخص اپنی زندگی کی حالت میں کہے کہ یہ غلام میرے مرنے کے بعد آزاد ہوگا۔ اسے عربی زبان میں تدبیر کہتے تھے اور اس کا عام رواج تھا۔ شریعت نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔ اس صورت میں اس کی موت کے بعد واقعتا وہ غلام آزاد ہوگا، لیکن اس کی حیثیت وصیت جیسی ہے جس کا نفاذ صرف ایک تہائی ملکیت میں ہو سکتا ہے۔
(2) مذکورہ شخص کے پاس صرف وہ غلام ہی کل مال تھا۔ ظاہر ہے وصیت ایک تہائی مال سے زائد نہیں ہو سکتی، لہٰذا نبیﷺ نے اس کے عمل تدبیر کو اپنے حکم سے توڑ دیا بلکہ اس غلام کو فروخت کر دیا تاکہ اس شخص کی موت کی صورت میں وہ آزاد نہ ہو سکے۔
(3) ایسے غلام کو بیچنا جائز نہیں ہوتا مگر مخصوص حالات میں (جب تدبیر غلط ہو) اسے فروخت کیا جا سکتا ہے۔ حکومت بیچنے یا وہ شخص خود، مگر اس سے یہ استدلال درست نہیں کہ ہر مدبر کو بیچنا درست ہے۔ تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
(4) ”آگے اور دائیں بائیں۔“ یعنی جہاں مناسب سمجھے صدقہ کر۔ یہ ایک محاورہ ہے ظاہر الفاظ مراد نہیں۔