تشریح:
(۱) ’’لوہے کے کُرتے یا زرہیں۔‘‘ زرہ چمڑے کی بھی ہوتی ہے، اس لیے لوہے کی صراحت فرمائی کہ تاکہ آئندہ مثال میں زور پیدا ہو۔ (۲) ’’سینوں کو۔‘‘ ویسے بھی زرہ سینے کے لیے ہوتی ہے۔ یہاں خصوصاً سینے کا ذکر اس لیے ہے کہ انسان کا دل، جس سے سخاوت اور کنجوسی کا تعلق ہے، سینے میں ہوتا ہے۔ اس مثال میں زرہ سے مراد نفس کا شکنجہ ہے جو وہ روح پر چڑھائے رکھتا ہے جو روحانی کمالات کے ظہور سے مانع ہوتا ہے۔ (۳) ’’کھل جاتی ہے۔‘‘ یعنی سخی کا دل اس شکنجے کو کھول دیتا ہے حتیٰ کہ سخاوت کا اثر پورے جسم پر نمایاں ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی کھل کر سخاوت کرتے ہیں۔ نشانات قدم کو مٹانے سے مراد اس کی غلطیوں کو ختم کرنا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ زرہ اس کے سارے جسم کو ڈھانپ لیتی ہے، اسی طرح قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (۴) ’’سکڑ جاتی ہے۔‘‘ یعنی اس کا دل تنگ ہو جاتا ہے اور وہ صدقہ کرنے کی ہمت نہیں پاتا حتیٰ کہ اس کے لیے صدقہ کرنا اپنا گلا گھونٹنے والی بات بن جاتی ہے۔ جس طرح زرہ اس کے گلے تک سکڑ گئی، اسی طرح اس کا دل تنگ ہو جااتا ہے اور اسے صدقے کی توفیق نہیں ہو پاتی۔