تشریح:
(1) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ نفی عام حالات کے اعتبار سے ہے ورنہ ہر شخص جانتا ہے کہ سفر میں نمازوں کا حج کرنا اپ سے صحیح احادیث سے قطعاً ثابت ہے۔ اسی طرح حج میں عرفہ کے دن عصر کو ظہر کے ساتھ پڑھنا بھی متفقہ مسئلہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کسی مخصوص پس منظر میں ارشاد فرمائے ہوں جس کی تعیین مشکل ہے، الا یہ کہ دو نمازوں سے مراد یوم عرفہ کی عصر اور مغرب ہوں اور بے وقت پڑھنے کا مطلب یہ ہو کہ انھیں حکماً مقدم یا موخر پڑھنا لازم کر دیا گیا ہو کیونکہ یوم عرفہ کی عصر کو ظہر کے وقت میں ظہر کے ساتھ ملا کر پڑھنا لازم ہے اور مغرب کو اپنے وقت سے موخر کر کے عشاء کے ساتھ پڑھنا لازم ہے، جبکہ سفر وغیرہ میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنے کی رخصت ہے، لازم نہیں۔
(2) ”صبح کی نماز“ اس سے ظاہر الفاظ مراد نہیں کیونکہ کسی کے نزدیک بھی مزدلفہ میں صبح کی نماز طلوع فجر سے پہلے ادا کرنا جائز نہیں، اس لیے ترجمے میں لفظ ”معتاد“ کا اضافہ کیا گیا ہے، یعنی عموماً رسول اللہﷺ طلوع فجر اور نماز صبح کی ادائیگی میں کچھ وقفہ فرماتے تھے تاکہ لوگ جمع ہو جائیں۔ مزدلفہ میں لوگ پہلے سے موجود اور تیار تھے، لہٰذا جو نہی فجر طلوع ہوئی، آپ نے کوئی وقفہ یا فاصلہ کیے بغیر فوراً نماز پڑھائی تاکہ بعد میں ذکر اور وقوف کے لیے زیادہ وقت مل سکے۔ سابقہ معمول کی نسبت یہ نماز بہت جلد ادا کی گئی تھی، اس لیے مبالغے کے طور پر اسے وقت سے پہلے کہا گیا۔
(3) بعض احناف نے اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ نماز صبح اسفار میں پڑھنی چاہیے کیونکہ مزدلفہ میں آپ نے نماز صبح غلس میں پڑھی تھی۔ اور بقول ابن مسعود رضی اللہ عنہ باقی دنوں میں اس وقت نہ پڑھتے تھے۔ گویا اسفار میں پڑھتے تھے۔ یہ بات درست نہیں۔ اس روایت کی صحیح توجیہ اوپر بیان ہوگئی ہے۔ باقی رہا رسول اللہﷺ کا عموماً صبح کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھنا تو یہ بہت سی صحیح روایات سے قطعاً ثابت ہے۔ کیا صریح الفاظ کے مقابلے میں اس قسم کی مبہم روایت بلکہ اس کے مفہوم سے استدلال درست ہو سکتا ہے؟ ہاں اسفار (روشنی) میں نماز منع نہیں مگر رسول اللہﷺ غلس ہی میں پڑھا کرتے تھے، لہٰذا یہی افضل ہے۔ (تفصیلی بحث کتاب المواقیت کے ابتدائیے میں ملاحظہ فرمائیں)