تشریح:
(1) پیچھے بارہا ذکر ہو چکا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مکمل حجۃ الوداع سواری پر ادا فرمایا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ کر حج کے مسائل سیکھ سکیں، نیز لوگ جی بھر کر آپ کا دیدار کر سکیں۔ لوگ دور دور سے آئے تھے۔ ویسے بھی جمروں کی طرف سوار ہو کر جانے میں کوئی قباحت نہیں، پھر آپ تو مزدلفہ سے تشریف لا رہے تھے۔
(2) ”جمرۂ عقبہ“ یہ جمرہ آخری ہے اگر منیٰ سے مکہ کو جائیں۔ یہ جمرہ حقیقتاً منیٰ سے خارج ہے مگر متصل ہے۔ اور یہی وہ جمرہ ہے جہاں اہل مدینہ نے رسول اللہﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ پہلی بھی، دوسری بھی۔ یوم نحر، یعنی ۱۰ ذوالحجہ کو صرف اسی جمرے کی رمی کی جاتی ہے۔ اسے بڑا جمرہ بھی کہا جاتا ہے۔ لوگ عرف عام میں جمرات کو شیطان بھی کہہ لیتے ہیں لیکن اس کی بجائے اگر یہ کہہ لیا جائے کہ یہ جمرات شیطان ہیں نہ یہاں شیطان رہتا ہے بلکہ انھیں ان مقامات کے تعین یا نشانی کے طور پر قائم کیا گیا جہاں اسے کنکریاں پڑی تھیں کیونکہ جب شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے عزم مصمم سے روکنے کی کوشش کی تھی تو آپ نے اسے کنکریاں مار کر رد کر دیا تھا۔ رمی اسی کی یادگار ہے۔ صحیح حدیث سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: جب ابراہیم خلیل اللہ عبادات حج کی ادائیگی کے لیے آئے تو جمرہ عقبہ کے پاس شیطان ان کے سامنے آیا۔ انھوں نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر دوسرے جمرے کے پاس رونما ہوا، انھوں نے پھر اسے سات کنکریاں ماریں، حتیٰ کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر وہ تیسرے جمرے کے پاس ان کے سامنے آگیا، انھوں نے پھر اسے سات کنکریاں مار دیں یہاں تک کہ وہ دھنس گیا۔ راوی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (اب تم گویا) شیطان کو پتھر مارتے ہو اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی پیروی کرتے ہو۔ دیکھیے: (مسند احمد: ۱/ ۲۹۷، ۲۹۸، وصحیح الترغیب والترهیب للألباني، رقم الحدیث: ۱۱۵۶)
(3) محرم خیمے یا چھتری وغیرہ کا سایہ حاصل کر سکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه بإسناد المصنف
ومتنه) .
إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا محمد بن سلمة عن أبي عبد الرحيم
زيد بن أبي أنَيْسَةَ عن يحيى بن حُصَيْنٍ عن أم الحصين.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وأبو عبد الرحيم: اسمه خالد بن أبي
يزيد الحَرَّاني، وهو خال محمد بن سلمة.
والحديث أخرجه مسلم (4/80) ... بإسناد المصنف ومتنه.
وهو في " المسند" (6/402) .
وعنه: أخرجه البيهقي أيضاً (5/69) .
ثم أخرجه مسلم من طريق أخرى عن زيد بن أبي أنيسة.
وأخرجه النسائي (2/49- 50) من طريق أخرى عن محمد بن سلمة... به.
وانظر " الإرواء " (1018) .