تشریح:
(1) جب مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہونے لگیں اور اس کے نتیجے میں مال غنیمت کی بھی کثرت ہوئی تو مسلمانوں کی مالی حالت بھی پہلے سے قدرے بہتر ہوگئی۔ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن بھی انسان ہی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انہیں بھی پہلے کی نسبت کچھ زیادہ سہولتیں حاصل ہوں، جس کا اظہار انہوں نے رسول اللہﷺ سے کیا۔ اس سے آپ پریشان ہوگئے تو اللہ تعا لیٰ نے اس کا حل تجویز فرمایا کہ آپ اپنی عورتوں کو صاف بتا دیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا کام کررہا ہوں۔ دنیا کی زیب وزینت سے بہت دورہوں۔ اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تمہیں میری طرح جھوٹا موٹا کھا کر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ اگر تم اس طرح درویشانہ طریقے سے زندگی گزارسکو تو بہتر ہے، اور اگر تم میری طرح نہیں رہ سکتیں اور تمہیں زیادہ مال چاہیے تو میں برضا ورغبت بغیر کسی ناراضی کے تمہیں اپنی زوجیت سے فارغ کردیتا ہوں، جہاں چاہے نکاح کرلو۔ مگر آفرین ہے آپ کی ازواج مطہرات پر کہ کسی نے بھی دنیا کا نام نہ لیا اور پھر کبھی مرتے دم تک درویشی نہ چھوڑی۔ رسول اللہﷺ کی زوجیت (دنیا وجنت میں) اور اللہ تعالیٰ کے اجروعظیم پرشاداں وفرحاں رہیں۔ کبھی فقر وفاقہ کی شکایت نہ کی۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْهنْ وأرضاھن
(2) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ آپ کا خاصہ شمار فرمایا ہے کیونکہ ہمارے لیے فرض ہے کہ بیویوں کو ان کا کھانا، پینا اور لباس ہر صورت مہیا کریں۔ اور یہ ان کا حق ہے، لہٰذا ہم اپنی بیویوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں میرے ساتھ بھوکا رہنا ہوگا ورنہ طلاق لے لو۔ لیکن رسول اللہﷺ کے لیے ایسا اعلان واجب تھا کیونکہ آپ کی شان بہت بلند ہے۔ نبی کے گھر میں نبوی مزاج والی عورتیں ہی مناسب ہیں تاکہ نبی کو پریشانی نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کا درجہ بھی بلند رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ﴾
(2) خیروبھلائی کے کاموں میں سبقت کرنی چاہیے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینی چاہیے۔ ا س کا اجر عظیم ہے۔