امام نسائی طہارت سے متعلق احکام و مسائل بیان کرتے ہوئے یہاں پانی کی مختلف اقسام سے متعلق احکام ومسائل بیان کرنا چاہتے ہیں کہ کون سا پانی پاک ہے کس پانی سے حدث اور نجاست دور ہوسکتی ہے کس جانور کا جوٹھا پانی پاک ہے اور کس کا ناپاک غسل جنابت میں میاں بیوی ایک دوسرے کا بچا ہوا پانی استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں کس قدر پانی غسل اور وضو کے لیے کفایت کرسکتا ہے کنویں کا پانی پاک ہے یا ناپاک قلیل اور کثیر پانی کی تحدید برف اور اولوں کے پانی سے وضو کا حکم اور حائضہ عورت کے بچے ہوئے پانی کو استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ہم نے قارئین کی سہولت کے پیش نظر تھی مسائل کو یکجا کر کے ذیل میں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے۔اسلام اللہ تعالی کا پسندیدہ دین اور ایک عمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں انسانی فطرت سلیمہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی انسان کو مکلف بنایا گیا ہے۔ دین اسلام کا امتیازی وصف طہارت و نظافت اور صفائی ستھرائی ہے۔ اللہ تعالی نے اس کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے اور اسے اپنانے والوں سے محبت کا اظہار فرمایا ہے۔ ارشاد الہی ہے(إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)(البقرة 222:2) الله تعالی خوب توبہ کرنے اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ نیز فرمایا(وثيابك فطهروالرجزفاهجر)المدثر54:74)’’اےنبی!) اپنے کپڑوں کو پاک رکھے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ نیز ایک دوسرے مقام پر طہارت و نظافت اور پا کی اختیار کرنے والوں کی تعریف اور مدح کرتے ہوئے فرمایا(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبہ 108:9) اس (بستی قباء) میں ایسے آ دمی ہیں جو خوب طہارت حاصل کرنا پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی اچھی طرح پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘علاوہ ازمیں رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کا علم اور اس کی ترغیب دی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:(ان الله جميل يحب الجمال )(صحيح مسلم ،الايمان،حديث :91)’’ اللہ تعالی انتہائی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ نیز آپ نے فرمایا: (الطهور شطر الإيمان(صحيح مسلم الطهارة حديث: 233)‘‘ طہارت اور پاکیزگی نصف ایمان (یا ایمان کا ایک حصہ ) ہے ۔“دین اسلام کے نزدیک انتہائی اہمیت کی حامل شئی طہارت و پاکیزگی صرف اور صرف پانی سے یا پانی کی عدم موجودگی یا پانی کے استعمال پر عدم قدرت کی صورت میں مٹی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے(”{وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِه} [الأنفال8: 11]اور آسمان سے تمھارے لیے پانی نازل فرمایا تاکہ تمھیں اس کے ذریعے سے پاک کر دے۔ نیز فرمایا({فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا } [النساء4: 43]اگر تمھیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔‘ بنابر ہیں ان دلائل کی رو سے طہارت اور پاکیزگی عموما پانی ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ تو جہاں شریعت اسلامیہ نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ طہارت اور پاکی حاصل کرنے کا ذریہ پانی ہے، وہاں اس کے استعمال کرنے کا طریقہ بھی بیان کیا ہے۔ اور دیگر امور کی طرح اس کے احکام و مسائل بھی مکمل طور پر بیان فرمائے ہیں اور اس کے استعمال میں افراط وتفریط سے منع فرمایا ہے۔ہمارے ہاں وضو اور غسل یا دیگر کاموں میں پانی استعمال کرتے ہوئے بے جا اسراف کیا جاتا ہے جب کہ رسول اللہﷺ ان کی بابت صحابہ کرام بیان کرتے ہیں کہ آپ ایک ملین تقریبا آدھا کلو پانی سے وضو اور ایک صاع یعنی تقریبا دو ڈھائی کلو پانی سے غسل جنابت فرما لیا کرتے تھے۔ دیکھیے : (صحیح مسلم الحيض، حديث: 349)نیز ایک دوسری روایت میں جب صحابی بیان کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ ایک مد سے وضو اور ایک صاع سے غسل کر لیا کرتے تھے تو ایک آدمی نے کہا: پانی کی اتنی مقدار ہمارے لیے کافی نہیں ۔ تو صحابی رسول نے کہا: اتنا پانی ان کو تو کافی ہوتا تھا جو تجھ سے افضل تھے اور ان کے بال بھی مجھ سے زیادہ تھے۔ دیکھیے :(سنن ابن ماجه الطهارة حديث: 270) یہ الگ بات ہے کہ اس سے زیادہ پانی بھی ضرورت کے پیش نظر استعمال کرنا جائز ہے لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ پانی کا ضیاع نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے عمل سے واضح ہے۔طہارت و نظافت اگر چہ اسلام کا امتیازی وصف ہے لیکن اسے اختیار کرتے ہوئے بھی دیگر مسائل کی طرح افراط وتفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ان فرمودات پر عمل پیرا ہونے سے ایک تو ہمارے معاشرتی مسائل کم ہوں گے مثلا: واسا کے مسائل کہ آئے دن پانی کی نکاسی ہمارے لیے مسئلہ بنی ہوتی ہے اور دوسری بات یہ کہ نبی اکرم ﷺ کے طریقے پر عمل بھی ہو جائے گا۔ ذیل میں اسی پانی سے متعلق دیگر اہم احکام و مسائل بیان کیے گئے ہیں تا کہ قارئین طہارت و پاکیزگی حاصل کرتے ہوئے انھیں مد نظر رکھیں۔
پانی کی لغوی و اصطلاحی تعریف: لغوی تعریف: ماء کی جمع مياه اور أمواه آتی ہے اور اس کی تصغير مویه آتی ہے۔ بدوی عربوں نے اس کی صورت بگاڑ کر مویہ کر دی ہے۔ اصطلاحی تعریف(الماء جسم لطيف سيال به حياة كل نام)پانی ایک ایسا سیال مادہ ہے جس پر ہر نشوونما پانے اور بڑھنے والی چیز کی زندگی کا دارومدار اور انحصار ہے۔ دیکھیے :(الموسوعة الفقهية:39/352)پانی کی اقسام : پانی کی چار اقسام ہیں(1) ماء مطلق(2) ماء مستعمل (3)في ماء مسخن(گرم پانی) (4)ماء مختلطماء مطلق: اس سے مراد عام پانی ہے جو اپنے قدرتی اور پیدائشی وصف پر برقرار ہو اس میں کسی چیز کی ملاوٹ اور آمیزش نہ ہو۔ اس پانی کی بابت فقہاء کا اجماع ہے کہ یہ پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے۔ دیکھیے : (المغني لابن قدامة :1/7،والمجموع 1/84)اس کی کئی اقسام ہیں مثلا: بارش کا پانی برف کا پانی سمندر اور دریا کا پانی نہروں اور کنوں کا پانی چشموں کا پانی سیلاب کا پانی اور زم زم کا پانی وغیرہ۔بارش کا پانی : خودبھی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے جیسا کہ ارشاد الہی ہے) وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا)الفرقان 25/48)اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا‘‘ نیز فرمایا(وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ)) ”اور آسان سے تم پر بارش نازل فرمارہا تھا تا کہ تمھیں اس کے ذریعے سے پاک کر دے۔“ برف اور اولوں کا پانی : ان کے پانی کا بھی وہی حکم ہے جو بارش کے پانی کا ہے۔ رسول اللہﷺقراءت سے پہلے ایک دعا پڑھا کرتے تھے اس میں فرماتے ( اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج والبرد ..اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی برف اور اولوں سے دھوڈال۔‘‘صحيح البخاري الأذان، حديث: 744) سمندر دریا اور نہر کا پانی: ان کے پانی کا بھی وہی حکم ہے جو پیچھے گزر چکا ہے۔ حضرت ابو ہریرہبیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی لے جاتے ہیں اگر ہم اس سے وضو کر میں تو پینے کے لیے پانی ختم ہو جائے گا اور ہم پیاسے رہ جائیں گے کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟ آپ نے فرمایا: وهو الطهور ماؤه الحل ميتته ’’سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔“ (سنن أبي داود الطهارة حديث: 83) نیز امام بخاری نےصحیح بخاری میں باب باندھا ہے:(شرب الناس وسقي التواب من الأنهار) یعنی نہروں سے انسانوں اور چوپایوں کا پانی پینا درست ہے۔ اس مسئلے کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ سے مروی ایک لمبی حدیث بیان کی ہے جس کا ایک حصہ کچھ اس طرح ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑا بعض لوگوں کے لیے باعث ثواب اور بعض کے لیے موجب پردہ پوشی اور بعض کے لیے وجہ وبال ہے باعث اجر وثواب کس کے لیے ہوگا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: (ولوانها مرت بنهر فشربت منه ولم يرد ان يسقي كان ذلك حسنات له فهي لذلك اجر)اگر اس گھوڑے کا گزر کسی نہر سے ہوا اور اس نے وہاں سے پانی پیا گو اس کے مالک کا ارادہ پانی پلانے کا نہ تھا تب بھی نیکیاں لکھ دی جائیں گی چنانچہ اس قسم کا گھوڑ اما لک کے لیے باعث اجر و ثواب ہوگا ‘ (صحيح البخاري المساقاة حديث: 2371) بنابر یں ان دلائل کی روسے سمندر دریا اور نہر کا پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے اس لیے اس کی موجودگی میں تیمم کرنا جائز نہیں۔
چشموں اور کنویں کا پانی : ان کا بھی وہی حكم ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔ اس کی بابت ارشاد باری تعالی ہے {وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ } [البقرة:2/60] اورجب موسی نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا: اپنی لاٹھی پتھر پر مار چنانچہ اس (پتھر) سے بارہ چشمے بہہ نکلے ہر قبیلے نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا۔ نیز اللہ تعالی نے کنویں کے پانی کی بابت فرمایا(وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ)القصص28/23)اورجب موسی مدین کےپانی (کنویں) پر پہنچے تواس (کنویں) پر انہوں نے لوگوں کاایک گروہ پایا وہ (اپنے مویشیوں کو)پانی پلا رہےتھے۔‘‘علاوہ ازیں حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایسے کنویں کے پانی کی بابت پوچھا گیا جس میں حیض کے چیتھڑے کتوں کا گوشت اور گندگی گر جاتی تھی آپ نے فرمایا(الماءطهورلاينجسه شيء) اس کا پانی پاک کرنے والا ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة حديث:66) مذکورہ حدیث صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب پانی اتنی کثیر مقدار میں ہو تو نجاست کا اس میں گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا یعنی یہ حدیث کثیر پانی کے متعلق ہے قلیل کے بارے میں نہیں ۔ کثیر او قلیل پانی کی تحدید کی بابت تفصیل آگے آرہی ہے۔
زم زم کاپانی: حضرت علی نےمروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نےطواف افاضہ کیا،پھر زم زم کےپانی کاڈول منگوایا ‘اس سے آپ نےپیا اوروضو بھی کیا۔ (زوائد مسند احمد 1/76‘وارواء الغلیل ‘رقم :13)نیز معراج والی رات نبی اکرمﷺ کاسینہ مبارک چاک کرکے آب زم زم سےدھویا گیا۔ (صحيح البخاري ‘الصلاة‘حديث:349)بنابریں آب زم زم سےوضو اور غسل وغیرہ کرنا جائز ہے کیونکہ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ‘البتہ بعض علماء ائمہ آب زم زم سے‘اس کےمتبرک ہونے کی وجہ سے نجات وغیرہ دور کرنے کو مکروہ سمجھتے ہیں اوربعض مطلقا جائز سمجھتےہیں ‘ یعنی آب زم زم وضو‘غسل اورنجاست وغیرہ زائل کرنےمیں استعمال کیاجاسکتا ہے لیکن مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ حصول شفا اورتبرک کی غرض سے جسم کے کسی بھی حصے پر اسےاستعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اور یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ حرمت کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ واللہ اعلم ۔دیکھیے :(فتاوي الدين الخالص 2/320‘والموسوعة الفقية 29/357‘358)
2۔ماءمستعمل:اس سے مراد وہ پانی ہے جو کسی وضو یاغسل کرنے والے اعضاء سےگرتا ہے توایسا استعمال شدہ پانی پاک ہے اور پاک کرنے والے والا ہے جیسا کہ حضرت جابر سےمروی ہے کہ ایک دفعہ میں بیمار ہوگیا تو رسول اللہﷺ میری عیادت کےلیے تشریف لائے جبکہ مجھے کوئی ہوش نہ تھا ۔ آپ نےوضو کیا اور وضو کا استعمال شدہ پانی مجھ پر چھڑکا تو مجھے ہوش آگیا۔ (صحيح البخاري ‘الوضوء‘حديث:194)نیز اسی مسئلے سےمتعلق ایک روایت حضرت سائب بن یزید سےبھی مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر گئی اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! میرا بھانجا بیماری کی وجہ سے بے چین ہے ‘آپ نے اپنا ہاتھ میرے سر پر پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی ‘پھر آپ نےوضو کیا ‘بعدازاں میں نے آپ کےوضو سے بچا ہوا پانی پی لیا ۔( صحيح البخاري ‘الوضوء‘حديث:190)اسی طرح حضرت ابو جحیفہ سے بھی مروی ہے وہ کہتے ہیں ایک دفعہ رسول اللہﷺ دوپہر کے وقت ہمارے ہاں تشریف لائے توآپ کو وضو کےلیے پانی دیا گیا ۔آپ نے وضو کیا تو لوگ آپ کے وضو کا استعمال شدہ پانی لے کر اپنے جسموں پر ملنے لگے۔ (صحيح البخاري ‘الوضوء‘حديث:187)ان دلائل سے ثابت ہوا کہ ایسا استعمال شدہ پانی بذات خود پاک ہے ۔ رہی یہ بات کہ استعمال شدہ پانی دوسری چیز کو پاک کرسکتا ہے یانہیں تواس کی بابت حضرت ربیع بنت معوذؓ سےمروی ہے ‘وہ بیان کرتی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے سر کا مسح اپنے ہاتھ میں بچے ہوئے پانی سے کیا ۔(سنن ابى داؤد‘الطهارة‘حديث:130)اس روایت کو شیخ البانی نے سنداحسن قرار دیا ہے ۔دیکھیے:(صحيح سنن ابى داود(مفصل)للالبانى‘الطهارة‘حديث:121)حائضہ اورجنبی کےبچے ہوئے پانی کا حکم:حضرت عائشہؓ سےمروی ہے ‘ وہ فرماتی ہیں کہ میں کسی ہڈی سےگوشت نوچتی تواللہ کےرسول اللہﷺ اس جگہ اپنا منہ مبارک رکھتے جہاں میں نے رکھا تھا‘حالانکہ میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی ۔ اور میں برتن سے پانی پیتی تو رسول اللہﷺ اسی جگہ اپنا منہ رکھتے تھے جہاں میں نے لگایا تھا حالانکہ میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی۔ دیکھیے :(صحيح مسلم الحيض، حدیث:300) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کھانے پینے کی چیز یں حاضہ کی وجہ سے پلید نہیں ہوتیں تو حائضہ کے غسل سے بچا ہوا پانی جبکہ اس نے اسے احتیاط کے ساتھ استعمال کیا ہو بالا ولی پلید نہیں ہو گا نیز حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ کی ایک زوجہ محترمہ ؓ نے ایک ٹب میں پانی لے کر غسل کیا ۔ اس کے بعد نبیﷺ غسل یا وضو کرنے کے لیے تشریف لائے تو انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں جنبی تھی تو آپ نے فرمایا: ”پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ (سنن أبي داود الطهارة، حدیث:18- شیخ البانی نے اسےصحیح قرار دیا ہے)۔ نیز حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺایک ہی برتن سے جو ہم دونوں کے درمیان ہوتا تھا، غسل کر لیا کرتے تھے آپ (برتن سے پانی لینے میں) مجھ سے جلدی فرما لیتے حتی کہ میں کہتی: میرے لیے چھوڑیئے میرے لیے چھوڑئیے نیز فرماتی ہیں کہ ہم دونوں جنبی ہوتے تھے۔ دیکھیے :(صحيح البخاري، الغسل" حديث:297، و صحیح مسلم الحيض حديث: 32)ان احایث سے معلوم ہوا کہ حائضہ اور جنبی کا مستعمل بقیہ پانی پاک اور قابل استعمال رہتا ہے ‘نیز جب میاں بیوی بنی ہونے کی صورت میں اکٹھے ایک برتن میں پانی لے کر یا ایک دوسرے کے بقیہ پانیسے یکے بعد دیگرے غسل کر سکتے ہیں تو جنابت کے علاوہ تو بالا ولی کر سکتے ہیں کیونکہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبئ اکرم ﷺ حضرت میمونہ ؓ کے بچے ہوئے پانی سے غسل فرمالیا کرتے تھے۔ دیکھے :(صحیح مسلم الحيض، حديث:33)في ماء مسخن (گرم پانی): یہ پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے جیسا کہ حضرت عمر کی بابت مروی ہے کہ ان کے لیے تانبے کے برتن میں پانی گرم کیا جاتا اور وہ اس سے غسل فرماتے۔ دیکھیے : (السنن الكبرى للبيهقي:/2، وإرواء الغليل:/ 28-50) حضرت عمر کی بابت ہی ایک اور روایت بھی مروی ہے اس میں بھی اسی بات کا ذکر ہے کہ حضرت عمر گرم پانی سے غسل کرتے تھے۔ دیکھیے :(مصنف ابن أبي شيبة: (۳۱) ان آثار سے ثابت ہوا کہ گرم پانی پاک ہے اسے طہارت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی حدیث سے گرم پانی استعمال کرنے کی ممانعت بھی ثابت نہیںہے۔ اور جس کام کی ممانعت ثابت نہ ہو تو اسے کرنا جائز ہوتا ہے بشرطیکہ شریعت کی کسی اصل سے اس کا کرا نہ ہو۔٭ ماء مختلط: اس کی دوقسمیں ہیں:(1) پہلی قسم اس پانی کی ہے جس میں کوئی پاک چیز مل گئی ہو مثلا: صابن کا فور زعفران اور آ ٹا وغیرہ۔ تو ایسا پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے۔ حضرت ام عطیہ ؓسے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺکی بیٹی زینب ؓ کوغسل دےرہی تھیں کہ آپ نے فرمایا: اسے تین پانچ سات بار یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دواور آخری بار پانی میں کچھ کافور بھی ملا لو۔“(صحيح البخاري الجنائز، حدیث: 1253، وصحيح مسلم الجنائز، حدیث: 939) نیز حضرت ام ہانی ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺاور حضرت میمونہؓ نے ایک ٹب میں غسل کیا جبکہ اس میں گندھے ہوئے آٹے کا اثر تھا۔ (سنن ابن ماجه الطهارة حدیث:378) بنابر یں مذکورہ احادیث میں ایسے پانی کے استعمال کی اجازت ہے جس میں پاک چیزمل گئی ہو کیونکہ پانی میں کافور اور آ ٹے کا اثر اس حد تک غالب نہ تھا کہ اسے مطلق پانی ہونے کی صفت سے خارج کر دیتا۔ تو اس طرح کے پانی سے طہارت حاصل کرنا جائز ہے۔(2)دوسری قسم اس پانی کی ہے جس میں نجاست اور پلید چیز گرگئی ہو۔ اس قسم کا پانی تھوڑا ہو یا زیادہ جب اس کا ذائقہ رنگ یا بو بدل جائے تو وہ پلید ہوتا ہے اور اس سے پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی۔ امام ابن منذر اس کی بابت لکھتے ہیں کہ علماء کا اجماع ہے کہ پانی تھوڑا ہو یا زیادہ جب اس میں نجاست گر جائے اور اس کا ذا ئقہ رنگ یا بو بدل جائے تو جب تک ایسا رہے پلید ہوتا ہے۔ دیکھیے : (الإجماع لابن المنذر، ص: 23، و المغني لابن قدامة: 1/53 ۱، و المجموع:/110) امام ابن رشد اس کی بابت فرماتے ہیں کہ علماء کا اجماع ہے کہ ایسا پانی جونجاست کی وجہ سے اپنا ذا ئقہ رنگ یا بو میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد وصف بدل لے تو اس سے وضو یا طهارت جائز نہیں۔ دیکھیے : (بداية المجتهد: 1/17)کثیر او قلیل پانی کی تحدید : حضرت عبد الله بن عمر سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہرسول اللہﷺ نے فرمایا:''جب پانی کی مقدار دو ( قلے) بڑےمٹکوں کے برابر ہو تو وہ نجاست کو قبول نہیں کرتا۔‘‘ اور ایک حدیث کے الفاظ ہیں :”تو وہ پانی نجس (ناپاک) نہیں ہوتا۔ دیکھیے : (سنن أبي داود الطهارة حديث: 63 و جامع الترمذي، الطهارة حديث:67، و سنن ابن ماجه الطهارة حدیث: 517) یہ حدیث پانی کی قلیل اور کثیر مقدار کے درمیان فرق اور حد بندی میں بالکل واضح اور صریح ہے۔ اس مفہوم کی تمام احادیث سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب پانی کی مقدار دو قلوں سے کم ہوتو وہ محض نجاست کے گرنے ہی سے ناپاک ہو جائے گا خواہ اوصاف ثلاثہ میں سے کسی وصف میں تغیر واقع ہوا ہو یانہ۔ اور اگر اس کی مقدار (قلتین) دومٹکوں کے برابر یا اس سے زیادہ ہوگی تو محض نجاست سے وہ ناپاک نہیں ہوگا بلکہ وہ خود بھی پاک ہی رہے گا اور دوسری چیز کو بھی پاک کرے گا البتہ جب اس نجاست کی وجہ سے ان اوصاف ثلاثہ (بؤ‘ ذائقہ‘ رنگ) میں سے کوئی وصف تبدیل ہو جائے تو پھر وہ پانی ناپاک شمار ہو گا جیسا کہ حضرت ابو امامہ سے مروی حدیث: إن الماء لأنه شيء إلا ماغلب على ريحه وطعمه وليح (سنن ابن ماجه الطهارة ،حدیث: 521) اس پر دلالت کرتی ہے۔ جہاں تک بئر بضاعہ والی حدیث کا تعلق ہے تو اس کی بابت را جح اور درست بات یہی ہے کہ اس میں پانی دو قلے یا اس سے بھی زیادہ تھا۔ شیخ صفی الرحمان مبارک پوری قلتین کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”قلہ مٹی کے پکے ہوئے بڑے مٹکے کو کہتے ہیں۔ اس کے چھوٹے اور بڑے ہونے کی وجہ سے اس کی مقدار میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن عرب میں ہجر (ایک بستی کا نام) کے مکے مشہور و معروف تھے نیز عرب کے اشعار اور امثال میں بھی بکثرت اس کا استعمال ہوا ہے اس وجہ سے یہ متعین ہو جاتا ہے کہ حدیث میں بیان شده مکے سے مراد ہجر بستی کا مٹکا ہے کوئی اور مٹکا نہیں ۔ اور ان کے مٹکے میں اڑھائی سو رتل پانی سمانے کی گنجائش تھی لہذا دوقلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رتل ہوئی جو موجودہ پانے کے مطابق تقریبا دوسو ستائیس کلوگرام یعنی پانچ من ستائیس کلو گرام بنتی ہے۔ دیکھیے : (اتحاف الكرام شرح بلوغ المرام حديث: 4کی لغوی تشریح) بنابر یں دو قلوں سے کم پانی کثیر کے زمرے میں نہیں آتا اور دوقلوں یا اس سے زیادہ پانی کی مقدار کثیر ہے۔بعض علماء نے قلتین والی روایت کو ضعیف قرار دیا ہے جبکہ مولانا تقی عثمانی درس ترمذی کی جلد اول صفحہ : 375 پر یوں رقمطراز ہیں کہ محدثین کے ایک بڑےطا ئفہ نے اس حدیث کو میچ قرار دیا ہے۔ امام شافعی‘ امام احمد‘ حافظ ابن مندہ اور حافظ ابن حجر اس کو صحیح کہتے ہیں۔ امام تر مذی کاصنیع بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ احناف میں سے شیخ ابن ہمام کا رجحان بھی عدم تضعیف کی طرف مائل ہیں امامطحاوی اللہ نے بھی اس کی سند پر کوئی کلام نہیں کیا۔ صاحب سعایہ بھی عدم تضعیف کی طرف مائل ہیںاسی لیے حضرت گنگوہی نے الکوکب الدری میں فرمایا ہے کہ حد یث قلتین کی تضعیف مشکل ہے۔ آخر میں مولانا تقی عثمانی نے بھی اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے لیکن اس کے باوجود اس حدیث کی بے جا توجیہات بیان کر کے اس کے ظاہر معنی پر عمل کو ناجائز قرار دیا ہے تا کہ اپنے امام کا موقف غلط نہٹھہرے۔ امام بغوی اس کی بابت لکھتے ہیں کہ بعض اصحاب الرائے نے ماءِ کثیر جو پلید نہیں ہوتا ہے کی مقدار ده در ده (10*10)یعنی دس ہاتھ لمبائی اور دس ہاتھ چوڑائی بیان کی ہے جبکہ یہ تحدید کی شرعی اصل سے ثابت نہیں ۔ دیکھیے : (شرح السنة للبغوي: 4/ 59) مزید لکھتے ہیں کہ بعض نے اس کی مقدار یہ بتلائی ہے کہ ایک بڑا حوض ہو اور اس کی ایک جانب حرکت دی جائے تو دوسری جانب اس حرکت کا اثر نہ پہنچے لیکن یہ انتہائی جہالت کی بات ہے کیونکہ حرکت دینے والوں کی حرکت قوت اور ضعف کے اعتبار سے مختلف ہوگی ۔ دیکھیے : (شرح السنة للبغوي: 2/60)بہرحال اس کے علاوہ بھی قلتین والی روایت کی کئی ایک توجیہات بیان کی گئی ہیں لیکن صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے اس کے مقابلے میں خود ساختہ توجیہات کی کوئی حیثیت نہیں۔بنابر یں معلوم ہوا کہ اگر پانی دو قلوں سے کم ہے تو اس میں صرف گندگی اور پلیدی کا گرنا ہی اسے ناپاک اور پلید بنادے گا لیکن اگر پانی دو قلوں سے زیادہ ہے تو اوصاف ثلاثہ (رنگ‘ بؤ‘ ذائقہ ) کو مد نظر رکھا جائے گا۔ اگر ان تینوں میں سے ایک وصف یا ایک سے زائد وصف پانی میں پایا جائے تو وہ پانی ناپاک ہے اسے طہارت کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں بے جا توجیهات و تاویلات کا سہارا بھی نہیں لینا چاہیے۔٭ بلی گدھے اور کتے وغیرہ کے جوٹھے پانی کاحکم: بلی کے جوٹھے پانی کی بابت حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ میں اور رسول اللہ ﷺایک ہی برتن سے وضو کر لیا کرتے تھے جب کہ اس میں سے پہلے بلی نے پانی پیا ہوتا تھا۔ دیکھیے : (سنن ابن ماجه الطهارة حديث: 368) نیز ایک دوسری روایت سے اس مسئلے کی تائید اس طرح ہوتی ہے کہ داود بن صالک بن دینار اپنی والدہسے بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ کی مالکہ نے اسے حضرت عائشہ ؓ کے ہاں ہریسہ (ایک قسم کا کھانا) دے کر بھیجا تو اس نے انھیں نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ انھوں نے (اشائے نماز ہی میں اشارہ کیا کہ رکھد ے چنانچہ ایک بھی آ گئی اور اس میں سے کچھ کھا گئی جب وہ نماز سے فارغ ہوئیں تو انھوں نے وہیں سے کھانا شروع کردیا جہاں سے بلی نے کھایا تھا اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یہ نجس نہیں ہے یہ تو( گھروں میں )گھومنے پھرنے والے جانوروں میں سے ہے۔ اور میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے کہ وہ اس کے جوٹھے پانی سے وضو کر لیا کرتے تھے۔ دیکھیے : (سنن أبي داود، الطهارة حدیث :76) مذکورہ دونوں روایتوں کو محقق عصر شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحيح سنن أبي داود للألباني (مفصل) رقم:69، و إرواء الغليل: رقم:75)نیز آپ ﷺنے فرمایا:( إنها ليست بنجس) (سنن أبي داود، الطهارة حديث:75) بلی نجس نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺنے دشواری اور وقت کے پیش نظر بلی کو غیر نجس قرار دیا ہے۔ اس کے غیر جس ہونے سے ثابت ہوا کہ اس کا جوٹھا پاک ہے جیسا کہ آپ اس کے جوٹھے سے وضو فرمالیا کرتے تھے۔ بنابر یں صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے کسی امام یا مفتی کا اس کے جو ٹھے کو مکر وہ کہنا سمجھ سے بالاتر ہے نیز جمہور علماء نے بھی بلی کے جوٹھے کو پاک قرار دیا ہے۔ اس مسئلے کی مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے : (ذخيرة العقبي شرح سنن النسائي: 2/106۔114)گدھے گھوڑے اور خچر کے جوٹھے پانی کی بابت خاصا اختلاف پایا جاتا ہے لیکن دلائل کی رو سے را جح موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا جوٹھا بھی پاک ہے کیونکہ رسول الله ﷺاور صحابہ کرام نے اکثر گھوڑے گدھے اور خچر کو بطور سواری استعمال کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا لعاب اور پسینہ وغیرہ کپڑوں کو لگتا ہو گا اور آپ نے بھی بھی ان کے لعاب اور پسینے وغیرہ سے پر ہیز کا علم نہیں دیا۔ امام نووی اور امام ابن قدامہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اگر ان کا لعاب وغیرہ نجس (پلید)ہوتا تو رسول اللہ ﷺاس کی طرف ضرور اشارہ فرماتے جیسا کہ آپ نے دیگر جانوروں کی بابت فرمایا ہے لہذا آپ کا ان کی بابت ذکر نہ کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا جوٹھا پاک ہے اور امت کے حق میں بھی یہی بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ تنگی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور ہمیشہ يسروا ولا تعسروا کی تلقین فرمائی ہے۔ مزید یہ کہ ا ملی طور پر ان سے بچنا بھی نا ممکن ہے۔ بنابریں راجح اورحق بات میں ہے کہ ان جانوروں کا جوٹھا پانی پاک ہے اس سے وضو وغیرہ کیا جا سکتا ہے۔ والله أعلم بالصواب. مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : ( المغني لابن قدامة : /48-49 و المجموع للنووي :1/173-174) وذخيرة العقيی شرح سنن النسائي:2/115-120) کتے کے جھوٹے پانی کی بابت حضرت ابو ہرہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کتا کسی برتن میں سے پانی وغیرہ پی لے تو برتن کو سات بار دھوؤ اور پہلی بار مٹی سے مانجو۔“ (صحيح مسلم الطهارة حديث :279) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کتے کا منہ اس کا لعاب دہن اور اس کا جوٹھانجس و ناپاک ہے اور یہی اس کے سارے بدن کے نجس و ناپاک ہونے پر دلالت کرتی ہے نیز صحیح ابن خزیمہ میں مزید صراحت ہے کہ جس برتن میں کتے نے منہ مارا ہو تو اگر اس میں پانی وغیرہ ہو تو اس کو بہا دینا چاہیے۔ دیکھیے : (صحيح ابن خزيمة:1/ 15، رقم الباب:75 حدیث:98) رسول الله ﷺ نے کتوں کی قباحت اور شناعت بیان کرتے ہوئے فرمایا: کتوں کو قتل کر دو۔“ پھر آپنے قتل کرنے سے روک دیا اور شکار اور رکھوالی وغیرہ کے لیے کتا رکھنے کی اجازت دی۔ بنابر یں ان مقاصد کے سوا کسی اور مقصد کے لیے مثلا : شوق کے طور پر یا کسی اور وجہ سے کتا رکھنا جائز نہیں کیونکہ احادیث میں اس کی ممانعت اور وعید آئی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جوشخص مال مویشی کے تحفظ‘ شکار یاکھیتی کی دیکھ بھال کے سوا کتا رکھتا ہے تو اس کے ثواب میں سے ہرروزایک قیراط ثواب کم ہو جا تا ہے۔“(صحيح البخاري،الحرث والمزارعة حديث: 2322) شریعت اسلامیہ نے انسان کی بہتری کے لیے ہرمکن کوشش کی ہے کہ انسان ہرقسم کی آفات مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رہے لیکن آج کا مسلمان مغربی تہذیب کا اس قدر دلدادہ ہو چکا ہے کہ وہ نہیں دیکھتا کہ کتا رکھنے میں میرا دینی اور جسمانی کیا نقصان ہے وہ تو کتے کو وہی مقام دینا چاہتا ہے اور اسی طرح دیکھنا چاہتا ہے جیسے غیر مسلموں نے کتوں کو فردخانہ کا مقام دے رکھا ہے اور اس کے ساتھ کھیل کو ہی نہیں بلکہ اپنا ہم مشرب بھی بنایا ہوا ہے۔ أعاذنا الله منه.کتے کے منہ میں بے شمار جراثیم ہوتے ہیں ۔ اس کی وضاحت علماء اور دور حاضر کے ماہر اطباء اس طرح کرتے ہیں کہ اکثر کتوں کی آنتوں میں بہت چھوٹے چھوٹے جرثومے پائے جاتے ہیں جو کہ چار ملی میٹر لمبے ہوتے ہیں۔ جب کتا اپنا فضلہ خارج کرتا ہے تو اس فضلے سے انڈے خارج ہوتے ہیں اور فضلہ خارج ہونے کی جگہ (دبر) کے اردگر بالوں سے کثرت سے چھٹ جاتے ہیں پھر جب کتا اپنی زبان سے اپنا جسم صاف کرتا ہے تو یہ انڈے اس کی زبان اور منہ کے ساتھ لگ جاتے ہیں پھر جب کتاکسی برتن میں منہ ڈالتا ہے یا پانی پیتا ہے یا انسان اس کا منہ چومتا ہے جیسا کہ آج کل مغرب میں غیر مسلم کرتے ہیں تو یہ انڈے ان اشیاء کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں اور خور ونوش کے وقت آسانی سے انسان کے منہ تک پہنچ جاتے ہیں منہ میں رسائی حاصل کرنے کے بعد اس کے معدے میں پہنچ جاتے ہیں پھر اس سے جرثو مے نکل کر معدے کی دیواروں میں سوراخ کر کے خون کی نالیوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس طرح دل دماغ اور بھی پھیپھڑوں کی بے شمار بیماریاں پیدا کرتے ہیں ۔ پھر مزید لکھتے ہیںکہ مذکورہ بالا تمام چیزوں کا یور پین اطباء اپنے شہروں میں مشاہدہ کر چکے ہیں۔ ان جراثیم زدہ کتوں کی پہچان اور امتیاز چونکہ ایک مشکل کام ہے اس کے لیے کافی وقت درکار ہے اور ایسے آلات کے ذریعےسے انتہائی دقیقی بحث مطلوب ہے جن کا استعمال بہت کم لوگ جانتے ہیں اس لیے شریعت نے عوام کو ان بکھیڑوں میں ڈالنے کی بجائے اس کو ناپاک قرار دے کر برتن کو سات مرتبہ صاف کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ برتن وغیرہ کی صفائی اور نظافت ہو سکے اور جراثیم برتن کے ساتھ نہ لگے ر ہیں۔ دیکھیے : (حاشية إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام لابن دقيق العيد:1/27)بنابریں ہم میں سے ہر ایک کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اللہ کے نبی ﷺ کی بتائی ہوئی وعید سے ہیں اور جسمانی بیماریوں سے بھی محفوظ رہیں ۔ علاوہ ازیں شکار اور رکھوالی وغیرہ کے لیے رکھے گئے کتے کے جوٹھے اور برتن وغیرہ کا بھی وہی حکم ہے جو ایک عام کتے کا ہے لہذا اس قدر غليظ جانور کو گھر میں شوقیہ طور پر رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ اس کے جوٹھے پین میں تمام ائمہ اور تمام مکاتب فکر کا اجماع ہے کہ کتے کا جوٹھا نا پاک ہے۔اسی طرح ان جانوروں کا جوٹھا بھی نا پاک ہے جونجس العین ہیں مثلا: خزیر وغیرہ۔مکھی اور دیگر حشرات الارض کے جوٹھے پانی کا حکم : حضرت ابو ہر یہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پانی میں مکھی گر جائے تو اسے اس میں ڈبکی دے کر نکالنا چاہیے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفا ہے۔“ (صحيح البخارية بدء الخلق حديث : 3320)اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر تھی سیال ( بہنے والی) چیز میں گر جائے یا گر کر مر جائے تو وہ چیز نجس نہیں ہو جاتی۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے علماء نے بھی کہا ہے کہ . جس جاندار کے جسم میں بہنے والا خون ہی موجود نہ ہو مثلا : شہد کی تھی، مکڑی ‘بھڑ وغیرہ اور اسی سے ملتے جلتے دیگر حشرات اگر یہ پانی میں گر کر مر جائیں تو وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا کیونکہ نجاست زدہ ہونے کا سبب تو جانور میں خون ہے جو اس کی موت کی وجہ سے رک جاتا ہے۔ جن حیوانات میں خون گردش نہیں کرتا ان میں خون رکنے کا سبب موجود نہیں اس لیے ایسے جانوروں کے مائع چیز میں گر نے سے چیز ناپاک نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں امام ابن منذر نے اس بات پر اجتماع نقل کیا ہے کہ مکھی اور اسی طرح کے دیگر حشرات الارض ناپاک نہیں ہوتے۔ بنابر یں مکھی اور دیگر حشرات الارض کے گرنے یا ان کے مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ والله أعلم. مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : (المجموع للنووي:/ 139) والمغني لابن قدامة :1/68)حلال جانور کے چڑے یا مشکیزے وغیرہ میں پڑے پانی کا حکم : حلال جانور کا چھڑارنگ لیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے خواہ جانور کوذبح کیا گیا ہو یا ذبح نہ کیا گیا ہو یعنی مردار ہو۔ تو ایسے جانور کے چمڑے میں پڑا پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے چڑے کے مشکیزے کے پانی سے وضو کا ارادہ فرمایا تو آپ کو کہا گیا کہ اس مشکیزے کا چمڑا تو مردار کا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’اس کو رنگنا چھڑے کی نجاست کو زائل کر دیتا ہے۔ (صحیح ابن خزيمة باب الرخصة في الوضوء من الماء يكون في جلود الميتة إذا دبغت حديث:114) حضرت ابن عباس ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کچے چمڑے کو رنگ دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم الحيض، حدیث:366)نیز حضرت سلمہ بن محبق بیان سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”مردہ جانوروں کے چمڑوں کو رنگنا ہی ان کی طہارت اور پاکیزگی ہے۔ “ ((صحیح ابن حبان (موارد الظمآن، حديث: 124) نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو چھڑا بھی رنگا جائے وہ پاک ہو جاتا ہے۔ (سنن ابن ماجه، اللباس حديث: 3609) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے وہ پھر خواہ حلال جانور کا ہو یا حرام کا جانور خواہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو یاخودا پنی طبعی موت مرا ہو۔ اس عمومی اصول کے باوجودبعض جانور ایسے ہیں جن کے چمڑے کو دباغت کے باوجود پاک قرار نہیں دیا گیا مثلاً: خنزیر کا چمڑا اسے نجس العین ہونے کی بنا پر پاک قرارنہیں دیا گیا۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خنزیر اور کتے پر اگر تکبیر پڑھ کر انھیں ذبح کیا جائے تو اس صورت میں وہ بھی پاک ہو جاتا ہے لیکن بیرائے صحیح نہیں ہے اسی طرح احناف کا کتے کے چمڑے کو دباغت کے بعد پاک قرار دینا بھی درست اورصحیح رائے پر مبنی نہیں ہے۔ صحیح اور راجح موقف یہی ہے کہ صرف حلال جانور کا چھڑاہی دباغت کے بعد پاک ہوتاہے‘ خواہ جانور کوذبح کیا گیا ہو یا مردار ہو جیسا کہ حضرت میمونہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺکا گزر ایک (مردہ) بکری کے پاس سے ہوا جسے لوگھسیٹتے ہوئے لے جارہے تھے تو آپ نے فرمایا: کاش تم اس کی کھال اتار لیتے۔ انھوں نے کہا: یہ تو مری ہوئی ہے آپ نے فرمایا: اس (چمڑے) کو پانی اور کیکر کی چھال پاک کر دے گی۔“(سنن أبي داود، اللباس حدیث:4126، وسنن النسائي الفرع والعتيرة 4253 ) بنابریں معلوم ہوا کہ حلال جانور کے چڑے سے بنے ہوئے برتن بامشکیزے سے پانی لے کر وضو اور غسل وغیرہ کرنا جائز ہے اور اس میں پڑا ہوا پانی پاک اور پاک کرنے والا ہے۔٭ کھڑے پانی کا حکم : حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص حالت جنابت میں کھڑے پانی میں غسل نہ کرے۔‘(صحیح مسلم الطهارة حديث : 283) اور صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ سے ہوں مروی ہے رسول اللہ سلمﷺ نے فرمایا: (لا بول أحدكم في الماء الدائم الذي يجري، ثم يغتسل فيه ”) تم میں سے کوئی بھیکھڑے پانی میں جو جاری نہ ہو پیشاب نہ کرے کہ پھر اس میں غسل کرے۔“ صحيح البخاري الوضوء حديث: 239) اور یہ مسلم کی ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں:( لا تبل في الماء الدائم الذي يجري، ثم تغتسل منه (صحيح مسلم الطهارة حديث: 282) یعنی توکھڑے پانی میں جو جاری نہ ہو پیشاب نہ کر کہ پھر اس سے غسل کرے۔ اور سنن ابی داود میں یہ الفاظ ہیں: لا يبول أحدكم في الماء الدائم ولا يغتسل فيه من الجنابة " تم میں سے کوئی شخص کھڑے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے اور نہ اس میں غسل جنابت ہی کرے۔ (سنن أبي داود الطهارة حديث: 70) صحیح مسلم کی پہلی روایت سے صرف غسل کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اورصحیح بخاری کی روایت میں اس میں پیشاب کرنے اور اس میں غسل کرنے دونوں کے جمع کرنے کی ممانعت ہے نیز ابوداود اور صحیح مسلم کی دوسری روایت کی رو سے دونوں کی انفرادی طور پر بھی ممانعت ہے۔ مذکورہ تمام روایات کا ماحصل (خلاصہ) یہ ہے کہ یہ تمام ہی ممنوع ہیں کیونکہ کھڑا پانی اگر مقدار میں کم ہے تو پھر وہ ناپاک ہو جائے گا اور اگر کثیر مقدار میں ہے تو یکے بعد دیگرے پیشاب اورغسل کرنا پانی کے اوصاف میں تغیر و تبدل کا موجب ہوگا چنانچہ اگر پانی کم مقدار میں ہے تو احادیث میں مذکور نہی تحریم کے لیے ہے اور اگر پانی کثیر مقدار میں ہے تو پھر نہی تنزیہی ہے کیونکہ کثیر مقدار والا پانی رواں اور جاری کے حکم میں ہوتا ہے اور وہ ناپاک اور نجس نہیں ہوتا۔٭ یہود و نصاری اور دیگر غیر مسلموں کے برتنوں میں موجود پانی کا حکم مسلمانوں کو حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے کہ یہود و نصاری، مشرکین اور دیگر غیر مسلموں کے برتنوں کو استعمال نہ کریں کیونکہ رسول اللہﷺ سے اہل کتاب کے برتنوں کے استعمال کرنے کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: فلا تأكلوا فيها و إن لم تجدوا قالوها ثم لوا فيها ” تم ان کے برتنوں میں نہ کھا لیکن اگر تم ان کے برتنوں کے علاوہ کوئی اور برتن نہ پاؤ تو انھیں دھو کر پھر ان میں کھا سکتے ہو۔“ (صحیح البخاري الذبائح والصيد حديث:5488) تا ہم غیر مسلموں کے برتنوں میں موجود پانی سے وضو اورغسل وغیرہ کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت عمران بن حصین سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ اور آپ کے صحابہ نے ایک مشرکہ عورت کے مشکیزے سے وضو کیا۔ دیکھیے : (صحيح البخاري التيمم حديث : 344) نیز حضرت عمر کی بابت مروی ہے کہ انھوں نے نصرانیہ عورت کے گھر سے وضو کیا۔ دیکھیے : (صحيح البخاري الوضوء قبل الحديث :193) بنابریں معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کے ایسے برتن جن میں نجاست و غیر کا اندیشہ نہ ہو ان میں سے پانی لے کر وضو و غسل کرنا جائز اور درست ہے۔ لیکن یادر ہے کہ یہ صرف عذر کی بنا پر ہے۔ والله أعلم.٭ ایسے پانی کا حکم جو خودتو پاک ہے مگر پاک کرنے والانہیں : اس سے مرادنبیذ ہے۔ نبیذ عرب کا خاص مشروب ہے جو وہ خشک کھجور یامنقیٰ وغیرہ کو پانی میں بھگوئے رکھنے سے تیار کرتے تھے جیسے ہمارے ہاں املی اور آلو بخارے کا شربت تیار کیا جاتا ہے۔ اس میں پانی کھجور اورمنقیٰ تینوں چیزیں پاک ہیں لیکن پانی اپنی اصلی حالت میں نہیں رہا اس لیے وہ خودتو پاک ہے لیکن پاک کرنے والا نہیں۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے کہ نبیذ سے وضو کرنا جائز نہیں ہے ۔ اور اس کے بعد فرماتے ہیں: حضرت حسن بصری اور حضرت ابوالعالیہ نبیذ سے وضو کرنا نا پسند کرتے تھے اور حضرت عطاء کی بابت لکھتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے دودھ اور نبیذ سے وضو کرنے کی بنسبت تیم کرنا زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے :(صحيح البخاري الوضوء قبل الحديث: 243) اسی طرح سنن ابی داود میں موجود ہے کہ ابو خلدہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص جسے جنابت لاحق ہوئی ہو اور اس کے پاس پانی نہ ہو مگر نبیذ موجود ہو تو کیا وہ اس سے غسل کرلے؟ تو انھوں نے فرمایا: نہیں۔ دیکھیے : (سنن أبي داود، الطهارة حديث: 86‘87) امام ترمذی ، نبیذ سے وضو کرنے کی بابت فقہاء کا اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: جو لوگ کہتے ہیں کہ نبیذ سے وضو نہ کیا جائے ان کی رائے یہی کتاب اللہ کے زیادہ قریب اور مناسب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيباه (النساء4/43))اگر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو ‘‘)دیکھیے :(جامع الترمذي، الطهارة حديث:88) جبکہ بعض حضرات نے عبد اللہ بن مسعود سے مروی روایت جس میں رسول اللہ ﷺکا نبیذ سے وضو کرنے کا ذکر ہے سے استدلال کرتے ہوئے نبیذ سے وضو کرنے کو جائز قرار دیا ہے لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت اور اس موضوع کی دیگر تمام روایات ضعیف اور نا قابل حجت ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی روایت کو محقق عصرشیخ البانی اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ امام بخاری امام تر ذی امام ابوزرعہ امام ابن عدی اور امام ابن منذر نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ابن عبدالبر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : (ضعيف سنن أبي داود للألباني (مفصل) رقم: 11) نیز امام طحاوی حنفی نے بھی حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث کی تمام سندوں کو ضعیف قرار دے کر یہ فیصلہ دیا ہے کہ نبیذ سے کس حال میں وضو جائز نہیں ۔ مزید دیکھیے : (شرح معاني الآثار: ۱/ 57 -58 و جامع الترمذي، بتحقيق أحمد محمد شاكر حديث:88) بنابر یں ان تمام دلائل اور بحث سے راجح اور صحیح موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ نیند اور اس کے علاوہ ہر وہ پانی جس میں پاک چیزمل جائے اور پانی کی اصل حالت برقرار نہ رہے وہ خودتو پاک ہے لیکن اس سے طہارت اور پاکی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ والله أعلم.