تشریح:
(1) روایت کچھ مختصر ہے۔ یہ عقبہ بن عامر مکے میں رہتے تھے۔ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے۔ یہ مسئلہ پیش آیا تو وہ اطمینان قلب کے لیے رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ کے فرمان پر عمل کیا۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
(2) ”اسے چھوڑ دے“ کیونکہ رضاعت ایک پوشیدہ چیز ہے۔ اس کے گواہ ممکن نہیں‘ نہ ایسے مواقع پر گواہ بنائے ہی جاسکتے ہیں‘ لہٰذا رضاعت پر گواہی طلب کرنا فضول ہے بلکہ مُرْضِعَۃ کی بات معتبر ہوگی۔ جس طرح پیدائش کے بارے میں دائی کی بات ہی معتبر ہوتی ہے اور اس سے گواہ طلب نہیں کیے جاتے۔ ان مواقع پر گواہی کو ضروری قراردینا بہت سی یقینی باتوں کو جھٹلانے کے مترادف ہوگا‘ اس لیے رسول اللہﷺ نے وہ نکاح فسخ کرنے کا حکم دیا۔ اگرچہ اس عورت کی تصدیق کسی نے بھی نہیں کی۔
(3) شبہات سے اجتناب کرنا چاہیے۔