تشریح:
(1) ”اس کے قریب نہ جانا“ یعنی جماع وغیرہ نہ کرنا۔ بیوی سے بول چال منع نہ تھی۔ حضرت کعب چونکہ نوجوان تھے‘ انہوں نے خطرہ محسوس فرمایا کہ پاس رہنے کی صورت میں کہیں جماع وغیرہ نہ ہوجائے‘ اس لیے انہوں نے از خود ہی بیوی کو میکے بھیج دیا۔
(2) ”جن کی توبہ قبول ہوئی“ غزوہ تبوک میں جہاد پر جانا فرض عین ہوگیا تھا‘ لہٰذا جو نہیں گئے‘ ان سے پوچھ گچھ ہوئی۔ منافقین توجھوٹ بول کر جان چھڑا گئے مگر جو تین مخلص مسلمان سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے‘ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی‘ کوئی عذر نہیں گھڑا اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سپرد کردیا۔ رسول اللہﷺ نے تمام اسلامی معاشرے کو ان کے بائیکاٹ کا حکم دے دیا‘ کوئی ان سے سلام دعا تک نہ کرتا تھا حتیٰ کہ ان پر زمین تنگ ہوگئی مگر یہ اللہ او ر اس کے رسول کے وفادار رہے۔ آخر پچاس دن کی صبر آزمائش کے بعد ان کی توبہ کی قبولیت کا حکم اترا اور ان کی آزمائش ختم ہوئی۔ ان بزرگوں نے ایسی سخت ترین آزمائش میں صبر عظیم کا مظاہرہ کیا اور جنت کے حق دار پائے۔ ان کے نام یہ ہیں: حضرت کعب بن مالک‘ حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهم وَأَرْضَاهمُ۔