تشریح:
قریش مکہ جب اپنے منصوبوں میں ناکام ہوتے تو جلتے بھنتے ہوئے نبی اکرمﷺ کو برا کہنے لگتے لیکن وہ لعن طعن کے وقت محمد ﷺ کے بجائے مذمم کا لفظ بولتے کیونکہ محمد کے معنیٰ تو ہیں وہ شخص جس کی سب تعریفیں کریں۔ اگر وہ آپ کو محمد کہہ کر گالی گلوچ کرتے تو یہ اجتماع نقیضین تھا۔ ویسے بھی وہ آپ کو اتنے اچھے نام کے ساتھ پکارنا نہیں چاہتے تھے‘ لہٰذا وہ محمد کے لفظ کو مذمم سے بدل دیتے اور گالیاں دیتے۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام کو گالی گلوچ سے بچا لیا۔ امام رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ کسی لفظ کے ایسے معنی مراد نہیں لیے جا سکتے جس سے وہ معنیٰ کسی بھی لحاظ سے سمجھ میں نہ آتے ہوں‘ جیسے مذمم کے معنیٰ کسی بھی صورت میں محمد نہیں ہوسکتے۔ یہاں نیت کفایت نہیں کرے گی۔ اسی طرح کوئی ایسا لفظ بول کر طلاق مراد نہیں لی جاسکتی جو کسی لحاظ سے بھی طلاق کے معنیٰ نہ دیتا ہو‘ خواہ نیت طلاق ہی کی ہو‘ مثلاً: کوئی کہے: ”میں نے تجھے انعام دیا“ اور طلاق مراد لے تو یہ ممکن نہیں۔