تشریح:
(1) ”دنیا کا عذاب“ یعنی اگر مرد جھوٹا ہو تو اس کے لیے الزام تراشی کی حد اسی (۸۰) کوڑے اور اگر عورت جھوٹی ہو‘ یعنی زنا میں ملوث ہو تو اسے زنا کی حد رجم جب کہ آخرت کا عذاب تو جہنم ہے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْھَا
(2) ”جدائی ڈال دی“ کیونکہ اس قدر الزام تراشی کے بعد ان کا بطور خاوند بیوی رہنا بے غیرتی ہے۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔
(3) عالم دین سے مسئلہ پوچھا جائے اور اسے علم نہ ہو تو وہ بڑے عالم سے پوچھ کر بتائے۔ اور اس میں کوئی سبکی محسوس نہ کرے۔ ذاتی اجتہادات کی طرف بعد میں آئے۔ ایک ہی شخص کو ہر چیز کا علم نہیں ہوتا۔ عالم دین کی عزت وتوقیر کرنی چاہیے اور مسئلہ پوچھنے کے لیے خود سفر کرکے عالم کی خدمت میں حاضر ہو۔ راہ چلتے یا مسجد میں آتے جاتے گلی میں روک لینا عالم کی شان میں کوتاہی ہے‘ الا یہ کہ بہت زیادہ بے تکلفی ہو اور آتے جاتے دورانِ گفتگو کوئی مسئلہ پوچھ لیا جائے جیسا کہ استاد شاگرد اکٹھے جارہے ہوں تو کسی مسئلے پر بحث چھڑ جاتی ہے۔
(4) لعان سے پہلے قاضی کو چاہیے کہ پہلے انہیں وعظ ونصیحت کرے اور سمجھائے۔