تشریح:
شاید امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہوسکتی ہے اگرچہ قرآن مجید میں طلاق کی عدت تین حیض مقرر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں سے کچھ صورتیں مسثنیٰ فرمائی ہیں‘ مثلاً وہ عورتیں جن کو حیض آنا بند ہوچکا ہے یا ابھی شروع نہیں ہوا۔ اسی طرح وہ عورت جس کو جماع کیے بغیر طلاق دے دی جائے اس کی عدت ہے ہی نہیں۔ اگر یہ صورتیں مستثنیٰ ہوسکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ صحیح حدیث کی وجہ سے خلع کو اس سے مستثنیٰ نہ کیا جائے؟ جس حکم سے ایک دفعہ استثنا ہوجائے‘ مزید استثنا بھی ممکن ہے۔ یہ متفقہ بات ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وصححه الحاكم والذهبي) .
إسناده: حدثنا أحمد بن محمد المروزي: حدثني علي بن حسين بن واقد عن
أبيه عن يزيد النحوي عن عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد حسن، وقد مضى الكلام عليه؛ حيث أخرج المصنف به
متناً أخر برقم (1822) . وقد خرجت هذا في الإرواء (2080) ، وذكرت له
شاهداً مرسلاً صحيح الإسناد.
وروي موصولاً عن عائشة؛ وصححه الحاكم ورده الذهبي، الإرواء ( 2080 ) ،