قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: تقریری

سنن النسائي: كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ (بَابُ ذِكْرِ الْأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلَافُ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

3940 .   أَخْبَرَنِي الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَى هُوَ ابْنُ يُونُسَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالدِّينَارِ وَالْوَرِقِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤَاجِرُونَ عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ فَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلِكُ هَذَا وَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلِكُ هَذَا فَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا فَلِذَلِكَ زُجِرَ عَنْهُ فَأَمَّا شَيْءٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَافَقَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَلَى إِسْنَادِهِ وَخَالَفَهُ فِي لَفْظِهِ

سنن نسائی:

کتاب: مزارعت سے متعلق احکام و مسائل 

  (

باب: تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر

)
 

مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)

3940.   حضرت حنظلہ بن قیس انصاری سے راویت ہے کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج ؓ سے سونے چاندی (روپے پیسے) کے عوض زمین کرائے پر دینے سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں لوگ اپنی زمینیں نالوں کے ساتھ ساتھ اور نالوں (موہگوں) کے سامنے اگنے والی فصل کے عوض بٹائی پر دیتے تھے۔ کبھی اس حصے کی فصل محفوظ رہتی اور دوسرے حصے کی ضائع ہوجاتی۔ کبھی دوسرے حصے کی فصل محفوظ رہتی اور اس حصے کی فصل ضائع ہوجاتی۔ اس وقت زمین کے کرائے کی یہ شکل ہی رائج تھی‘ اس لیے آپ نے اس سے منع فرما دیا۔ لیکن کوئی اور معلوم اور معین چیز (رقم) مقرر کرلی جائے جن کا کوئی ضامن بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مالک بن انس نے اس (اوزاعی) کی سند میں موافقت کی ہے اور اس (اوزاعی) کے الفاظ میں ا سکی مخالفت کی ہے۔