تشریح:
(1) اس روایت کے ایک طریق میں [ینضخ طیبا] یعنی جب آپ غسل کرکے احرام باندھتے تھے تو آپ سے خوشبو کی مہک آرہی ہوتی تھی۔ کے الفاظ مروی ہیں۔ دیکھیے، حدیث۴۳۱۔
(2) مختلف فیہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر احرام باندھنے سے قبل خوشبو لگائی جائے اس کے بعد باوجود غسل کرنے کے اس کی مہک ختم نہ ہو تو کیا یہ چیز احرام کے منافی ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اسے منافی سمجھتے تھے، مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے واضح فرمایا کہ احرام کی حالت میں خوشبو لگانا منع ہے۔ احرام سے قبل لگائی ہوئی خوشبو کی مہک ممنوع نہیں کیونکہ بسا اوقات باوجود دھونے اور غسل کے مہک ختم نہیں ہوتی، لہٰذا محرم معذور ہوگا۔ اس کے ذمے غسل کرنا تھا، وہ اس نے کرلیا۔ مہک ختم نہ ہو تو اس کا کوئی قصور نہیں اور یہی بات شرع کے اصول و مقاصد سے مناسبت رکھتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل بھی اسی کا موید ہے۔
(3) چونکہ یہ باب احرام سے خاص نہیں بلکہ عام غسل سے متعلق ہے، لہٰذا باب کا مقصود یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غسل کے لیے ضروری نہیں کہ مبالغے کے ساتھ مل مل کر دھویا جائے کہ جسم کو لگی ہوئی چیزوں کے اثرات بھی ختم ہوجائیں بلکہ سادہ پانی بہا لینا کافی ہے۔ کوئی جگہ خشک نہ رہے اور نجاست زائل ہوجائے۔ ویسے امام مالک رحمہ اللہ نے غسل میں ”دلک“ یعنی ملنے کو ضروری قرار دیا ہے تاکہ پانی ہر جگہ پہنچ سکے۔