امام نسائی نےکتاب الصلاۃ کےبعد کتاب المواقیت کاانتخاب کیا ہے ۔اگرچہ حصہ کتاب الصلاۃ ہی سےمتعلق ہے لیکن چند مخصوص امتیازی مسائل کی وجہ سے امام صاحب نے اسےالگ سے ذکر کیا ہے تاکہ ا سکی اہمیت مزید اجا گر ہواوراس موضوع کی احادیث کےمفاہیم ومقاصد کو خوب ذہن نشین کر لیا جائے ۔بروقت نماز ادا کرنے کی اہمیت: جہاں تک پانچ نمازوں کےاوقات کی بات ہے توقرآن وحدیث میں ان کاوقت محدود ومتعین ہے ۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے (إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا)النسآء 103:)’’یقینا نمازمنومنوں پر وقت پر فرض ہے ۔‘‘بلا عذر شرعی کوئی نماز اس کےمتعین وقت سےموخر کرنا گناہ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ)الماعون 4،5:107)’’ہلاکت ہے ایسے نمازیوں کےلیے جو اپنی نماز میں سستی کرتے ہیں ۔‘‘علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں (اجمع المسلمون على ان الصلوات الخمس موقتة بمواقيت محدودة )’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ پانچ نمازوں کی ادائیگی ان کے مقررہ اوقات میں فرض ہے ۔‘‘المغنی لابن قدامة 1/412)اسی لیے نماز میں سستی کرنے والوں کےمتعلق اللہ رب العزت نے فرمایا ہے (فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ) الماعون 4،5:107)’’ ہلاکت ہے ایسے نمازیوں کےلیے جو اپنی نماز میں سستی کرتے ہیں ۔‘‘اس آیت کی تفسیر میں سعد بن ابی وقاص سےموقوفا مروی ہے کہ اس سےمراد وہ لوگ ہیں جو اپنی نماز اصل وقت سےلیٹ پڑھتے ہیں ۔ (تفسیر الطبری ،الماعون :15/404)ومسند ابی یعلیٰ ،حدیث701)اس کی سند حسن ہے ۔ یہ مرفوعا بھی مروی ہے لیکن اس کی سند میں عکرمہ بن ابراہیم ضعیف ہے (کذا قال شیخنا الاثری )حافظ ابن کثیر فرماتےہیں ’’تاخیر صلاۃ(نماز)سےمراد ہے کلیتا ترک کرنا یااس کےشرعا مقررہ وقت سےلیٹ کرکے پڑھنا ہے یا نماز کےاول وقت سے موخر کرنا بھی مراد ہوسکتا ہے ۔ (تفسیرابن کثیر 4/718)بہر حال (عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ)کے تحت یہ سارے مفہوم آسکتےہیں ۔عبداللہ بن مسعود نے نبی اکرمﷺ سےاللہ تعالیٰ کےنزدیک محبوب ترین عمل کےبارےمیں پوچھا توآپﷺ نے جواب دیا (الصلاة على وقتها)’’نماز کو اس کےوقت پر (بروقت)ادا کرنا۔‘‘صحيح البخارى ‘مواقيت الصلاة‘حديث:527)’’اس کے وقت پر ‘‘اس سے مراد نماز کا اول وقت ہے ۔اس کی توضیح حضرت ام فروہؓ کی مرفوع حدیث سے ہوتی ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سےافضل ترین عمل کےمتعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نےجواب دیا(الصلاة فى اول وقتها)’’افضل ترین عمل نماز کو اس کےاول وقت میں ادا کرنا ہے ۔‘‘(سنن ابى داؤد‘الصلاة‘حديث:426‘مزيدصحيح سنن ابي داؤد (مفصل)للالباني حدیث453)حضرت عائشہؓ سےمروی ہے فرماتی ہے (ما صلى رسول الله صلاة لوقتها الآخرمرتين حتى قبضه الله)’’رسول اللہﷺ نےکوئی نماز اس کے آخری وقت میں دومرتبہ بھی نہیں پڑھی تاکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کر لی ۔‘‘(جامع الترمذی ،الصلاۃ،حدیث:174)اس حدیث کےبعد امام ترمذی فرماتےہیں[هذا حديث (حسن)غريب ‘وليس اسناده بمتصل]’’یہ حدیث حسن غریب ہے اوراس کی سندمتصل نہیں ہے ۔‘‘ جبکہ در حقیقت یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ مستدرک حاکم میں یہ موصولا مروی ہے ۔ امام حاکم نےشیخین کی شرط پر اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔(المستدرك للحاكم1/190‘وهداية الرواة بتعليق الالبانى 1/298‘والتلخيص الحبير:1/325‘طبعه مؤسسة قرطبة)ان دلائل سےمعلوم ہوا کہ شرعی عذر کےسوا نماز اول وقت ہی میں ادا کرنا افضل ہے سوائے نماز عشاءکےکہ اسے دیر سے پڑھناافضل ہے۔ اس کے سوا کسی نماز کو اس کے درمیانی یاآخروقت میں ادا کرنا افضل نہیں بلکہ صرف جائز اورمباح ہے جیسا کہ آئندہ بحث میں آئےگا ۔نمازوں کے اوقات کی اسی اہمیت کے پیش نظر بالخصوص اول وقت میں ان کی ادائیگی کی اہمیت وافضیلت اجاگر کرنے کےلیے صحیح احادیث کی روشنی میں پانچوں نمازوں کے اوقات قدرے تفصیل سے ذکر کیے گئے ہیں۔ اس تفصیلی گفتگوکا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی نمازیں بروقت ادا کریں اور اس فکر کو عام کرنے کی کوشش بھی کریں تا کہ بروقت نماز پڑھنے سےہم صحیح معنوں میں نبی اکرمﷺ کی اس عظیم بشارت کے مستحق قرار پائیں۔ ارشاد گرامی ہے (مَنْ تَوَضَّأَ كَمَا أُمِرَ، وَصَلَّى كَمَا أُمِرَ غُفِرَ لَهُ مَا قَدَّمَ مِنْ عَمَلٍ)’’جس نےاس طرح وضو کیا جیسے اسےحکم دیاگیا اورنماز بھی اسی طرح پڑھی جیسے اسےحکم دیا گیا( یعنی مسنون اوقات واعمال کاخیال رکھا) تواس کی گزشتہ ہر قسم کی لغزش معاف کردی جائے گی ۔‘‘(سنن النسائى ‘الطهارة ‘حديث:144)اس سے بڑھ کر ان اوقات نماز پنجگانہ کی اہمیت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کےحکم سے خود جبریل نےدودن عملا سیدالانبیاءﷺ کو پانچ وقت نماز پڑھائی ۔صبح کی نماز کا اول وآخر وقت :طلوع فجر صادق سے طلوع آفتاب سےقبل تک وقت جوازوادا ہے۔ رسول اللہﷺ نےفرمایا (وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ)’’صبح کی نماز کاوقت طلوع فجرسےاسوقت تک ہے جب تک سورج طلوع نہ ہو ۔‘‘(۔‘‘(صحيح مسلم‘المساجد‘حديث:612) یعنی اس کااول وقت طلوع فجر اورآخری وقت طلوع شمس ہے۔ نیز آپﷺ نےفرمایا(وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الفَجْرِ حِينَ يَطْلُعُ الفَجْرُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ)’’نماز فجر کا اول وقت وہ ہے جب فجر صادق پھوٹتی ہے اوراس کاآخری وقت طلوع شمس ہے ۔‘‘(جامع الترمذی،الصلاۃ،حدیث:151)امام ترمذی وغیرہ نےاس مرفوع روایت کومعلول قراردیاہے۔ وہ اس طرح کہ یہ روایت مجاہد کااپنا کلام ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کی سند میں اعمش ہیں‘ان کےمتعددشاگرد ہیں۔ جب وہ یہ روایت اعمیش سےبیان کرتےہیں تو سب مجاہد پر موقوفا بیان کرتے ہیں۔ صرف ایک شاگرد محمدبن فضیل یہ روایت مرفوع بیان کرتے ہیں اور اختلاف کےوقت اکثر کی بات قابل قبول ہوتی ہے ۔ لیکن اس طرح حدیث کو مجروح ومعلول قراردینا اصولا درست نہیں کیونکہ محمدبن فضیل ثقہ راوی ہیں۔ امام علی بن مدینی جوکہ امام بخاری نےقابل فخر استاد ہیں، انہوں نے ان کےبارےمیں فرمایاہے۔(كان ثقة ثبتا فى الحديث)’’وہ حدیث میں ثقہ اورثبت تھے۔‘‘ان کی عدالت اورحفظ واتقان کےحوالے سے قطعا کوئی جرح نہیں اس لیے ان کی بیان کردہ روایت زیادتی ثقہ کی قبیل سے ہے جوکہ مقبول ہوتی ہے۔ ابن حزم نے بایں الفاظ اس علت کی تردید کی ہے(ومايضراسناد من اسند ايقاف من اوقف)’’روایت کوموقوف بیان کرنے والے کاموقوفا بیان کرنا مسند ابیان کرنےوالے کےلیے کوئی ضرررساں نہیں۔‘‘امام ابن جوزی نےبھی ’’التحقیق ‘‘میں ابن فضیل کوثقہ قرار دیا ہے اوریہ صورت کی توجیہ کرتے ہوئے فرماتےہیں بعید نہیں کہ اعمش کےہاں یہ دو طریق سےمنقول ہو۔ ایک مرسل سند سے اوردوسری مرفوع طریق سے ۔اورجس نےاسے مرفوعا بیان کیا ہے ‘وہ اہل علم میں سے ہیں اورصدوق ہیں‘انہیں ابن معین نےثقہ قراردیاہے ۔(ملخص ماذكره احمدشاكر)الحاصل:ان الفاظ یہ یہ روایت مرفوعا ثابت ہے ۔ علماء کی بیان کردہ مذکورہ علت اصولامحل نظر ہے۔ مزیدتحقیق اورتفصیل کےلیے دیکھیے(شرح جامع الترمذى لاحمد شاكر1/284‘285وسلسلة الاحاديث الصحيحة للالباني‘رقم:1696)
جبکہ اضطرار کی صورت میں طلوع آفتاب سے بعد تک بھی نماز جائز ہے۔ وہ اس صورت میں کہ جب طلوع شمس سے قبل ایک رکعت کا وقت ملے تو دوسری رکعت طلوع آفتاب کے بعد مکمل کر لی جائے۔ (وہ اپنی نماز بدستور جاری رکھے اگر چہ پہلی رکعت کے بعد سورج طلوع ہوجائے ۔ اس کی نماز وقت ہی میں ادا شمار ہوگی۔) (المغني لابن قدامة /1 ۲۲۹) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (من أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح.. ”جوطلوع شمس سے قبل صبح کی ایک رکعت پا لے تو یقینا اس نےصبح کی (پوری) نماز پا لی‘ (صحيح البخاري: مواقيت الصلاة حدیث: 579، وصحيح مسلم المساجد حديث:608) صحیح بخاری کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: وإذا أدرك سجدة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فليتم صلاته ’’اور جب کوئی صبح کی نماز کا ایک سجدہ (رکعت ) طلوع آفتاب سے قبل پالے تو اپنی باقی نمازمكمل کرے۔ صحيح البخاري، مواقيت الصلاة حديث:556)فجر صادق : صبح کے وقت افق پر پھیلی ہوئی سفیدی فجر صادق کی علامت ہے۔یہ نماز فجر کا اول وقت ہوتا ہے۔ لیکن اگر سفیدی افق پرپھیلنے کی بجائے سیدھی اور اوپرکو اٹھی ہوئی ہو تو یہ فجر کاذب ہے جو فجر صادق سے پہلےپھوٹتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ابھی تک نماز کا وقت نہیں ہوا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:(المغني:1/429)نبی اکرم ﷺہمیشہ نماز فجر اول وقت یعنی اندھیرے ہی میں پڑھی ہے صرف ایک دفعہ روشنی ہونے پر پڑھی اور صرف بیان جواز کے لیے تھا۔ ابومسعود بدری کی حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے وہ فرماتے ہیں: وصلى الصبح مرة بغلس، ثم صلي مرة أخرى فأسفر بها، ثم كانت صلاته بعد ذلك التغليس حتى مات ولم يعد إلى أن يسفر) نبیﷺ نے ایک بار فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھی پھر دوسری مرتبہ روشنی میں پڑھی پھر اس کے بعد آپ کی نماز ہمیشہ اندھیرے ہی میں ہوا کرتی تھی حتی کہ آپ کی وفات ہو گئی اور دوباره (کبھی) روشنی میں نہ پڑھی‘ (سنن أبي داود الصلاة حديث:394، وصحيح سنن أبي داود (مفصل للألباني: حدیث:418)ملحوظہ : اس روایت کی صحت پر اعتراض کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اس میں اوقات کے بیان تفسیر میں اسامہ بن زید متفرد ہے جو کہ متکلم فیہ بھی ہے۔ دیکھیے : (سنن أبي داود الصلاة حديث:394) لیکن راجح بات یہی ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ اس میں مذکورہ اضافہ زیادتی ثقہ کی قبیل سے ہے۔ زہری سے بیان کرنے والے دیگر رواة جو یہ اضافہ بیان نہیں کرتے ان کی بیان کردہ روایت سے اس زیادتی کی نفی نہیں ہوتی۔ لہذا اصولایہ اضافہ واجب القبول ہے۔ ہاں جس زیادتی ثقہ سے دیگر راویوں کی بیان کردہ روایت نفی یا تعارض و تضاد لازم آئے ایسی زیادتی وقتی شاذ اور ناقابل عمل ہوتی ہے لیکن یہاں یہ بات امام ابوداود کے کلام سے ثابت ہوتی ہے نہ امر واقع میں آیا ہے ۔ دوسرے اسامہ بن زیدلیشی کے بارے میں جو بعض ائمہ کی جرح ہے وہ غیرمفسر ہے۔ اس کے برعکس دیگر ائمہ نے اسے ثقہ اور صدوق اور اس کی روایت کو صحیح الاسناد بھی کہا ہے۔
فن رجال کے امام علامہ ذہبی بیان کرتے ہیں کہ اسے یحییٰ بن معین نے ثقہ قرار دیا ہے۔ ابن عدی نے فرمایا: ليس به باس اس کی روایت لینے میں کوئی حرج نہیں (میزان الاعتدال:1/174 مطبوعة المكتبةالأثرية)ابن حجر فرماتےہیں (وقال ابويعلى الموصلى عنه:ثقة صالح‘وقال عثمان الدارمى عنه: ليس به باس‘ وقال الدورى وغيره عنه :ثقة)ایویعلی موصلی نےانہیں ثقہ صالح کہا ہے ۔ عثمان دارمی فرماتےہیں کہ ان کی روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ امام دوری وغیرہ نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے ۔( تهذيب التهذيب :1/183)امام عجلی نے اسےثقہ کہا ہے ۔(تاريخ الثقات‘ رقم‘59‘5/239)امام بیہقی نے امام یعقوب کےحوالے سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ اسامہ بن زید (لیثی) علمائے مدینہ کےنزدیک ثقہ اورمامون ہے (السنن الکبری للبیھقی 5/239)ابن حجر فرماتےہیں (صدوق يهم)’’صدوق ہیں لیکن وہم کاشکار بھی ہوجاتےہیں ۔‘‘(تقریب التہذیب ، ص:124)اسی لیے محدث العصر ناصر الدین البانی نےفرمایا(وفي اسامة ابن زيد كلام لايضر)اسامہ بن زید بن کچھ کلام ہے ‘لیکن نقصان دہ نہیں ۔‘‘(دیکھیے:(صحیح سنن ابی داؤد(مفصل)2/25،حدیث:418)امام منذری ان کی زیادت کےبارےفرماتےہیں(وهذه الزيادة في قصة الاسفار رواتهاعن آخرهم ثقات‘والزيادة من الثقة مقبولة)’’قصہ اسفار میں یہ ایک ایسی زیادتی (اضافہ)ہےجس کےتمام راوی شروع سےآخر تک ثقہ ہیں اورثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے ۔‘‘(مختصر سنن ابی داؤدمع معالم السنن:1/233)علامہ خطابی نےمعالم السنن میں اسے’’صحیح الاسناد‘‘قراردیاہے ۔ (معالم السنن مع مختصر المنذری:1/245)امام ابن خزیمہ اورحاکم نےاسےصحیح کہاہے ۔(ابن خزیمہ 1/181،وابن حبان،حدیث:279،والمستدرک للحاکم :1/192،193)حافظ ابن حجر نےبھی اس حدیث کی تصحیح کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایاہے(وصححه ابن خزيمه وغيره من طريق ابن وهب)’’ابن خزیمہ وغیرہ نے اسے وہب کے طریق سے صحیح قرار دیا ہے ۔‘‘دیکھیے (فتح الباري2/5‘تحت حديث:521)نیز ابن حجر فرماتے ہیں ’’میں نے ایک ایسی دلیل پائی ہے جس سے اسامہ کی روایت کوتقویت ملتی ہے ۔ مزید یہ کہ حدیث میں وارد بیان فعل جبریل سےتعلق رکھتا ہے ۔یہ روایت باغندی نے’’مند عمر بن عبدالعزیز ‘‘میں ‘اوربیہقی نے ’’سنن کبری‘‘میں يحي بن سعيد الأنصاري عن ابي بكر بن حزم انه بلغه عن ابي مسعودکےطریق سےروایت کی ہے تواس نے اسے منقطع ذکر کیا ہے ‘لیکن طبرانی نے اسے ایک دوسرے طریق سے بواسطہ ابو بکر بن حزم عن عروہ روایت کیا ہے ۔ الغرض حدیث پھر عروہ کی طرف لوٹ آئی اور واضح ہوگیا کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے جبکہ مالک اورجورواۃ ان کی متابعت کرتے ہیں ‘ان کی روایت میں اختصار ہے ۔ ابن عبدالبر نےب بھی بالجزم یہی بات کہی ہے ‘لہذا مالک اوران کی متابعت کرنےوالوں کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اسامہ کےمذکورہ اضافے کی نفی کرتی ہو بہرحال جب صورت حال یہ ہے تواس زیادتی کو شاذ نہیں کہا جاسکتا۔( فتح الباري2/5‘تحت حديث:521)ابن حجر کی یہ تصریح اپنی جگہ ‘اکابر احناف نےتویہاں تک صراحت کی ہے کہ اگرحافظ ابن حجر ’’فتح الباری‘‘اورتلخیص الحبیر‘‘میں کسی حدیث پر خاموشی بھی اختیار کریں تو یہ تقویت حدیث کی دلیل ہوتی ہے ۔فرماتےہیں(على ان شرطه ف التلخيص والفتح من السكوت على حديث دليل على قوة الحديث)(معارف السنن:1/285)محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی نےبھی صحیح سنن ابی داؤد (حدیث:418)کی اپنی مایہ ناز تحقیق میں اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ فرماتےہیں (اسناده حسن ‘وكذاقال النووي‘وهوعلى شرط مسلم‘واخرجه ابن حبان في صحيحه (1492)‘وقال الحاكم:صحيح واقره الذهبي‘وقال الخطابي :هوصحيح الاسناد‘وقواه المنذري‘والعسقلاني‘ وصححه ابن خزيمه ايضا)
’’اس کی سند حسن ہے ‘نووی نےاسی طرح فرمایا ہے اوریہ مسلم کی شرط پر ہے ۔ اسے ابن حبان نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے اورحاکم نے فرمایا: صحیح ہے اورذہبی نےاسے برقرار رکھا ہے اورخطابی نے اسے’’صحیح الاسناد‘‘کہاہے ۔ منذری اورابن حجر عسقلانی نےاسےقوی قرار دیا ہے اورابن خزیمہ نے بھی اسے صحیح کہاہے ۔ ‘‘ شیخ اسلام حنفی نے موطا کی شرح میں اسے قابل حجت بلکہ درجہ حسن تک پہنچایا ہے ۔ دیکھیے :(معیار الحق ‘ص:245‘طبعۃجدیدۃ )الحاصل : جن ائمہ سےاسامہ بن جرح منقول ہے ‘ان کی جرح مبہم ہے ۔ یہ قاعدہ ہے کہ تعدیل کے مقابلے میں جرح مفسر ہی قبول ہوتی ہے جیساکہ ائمہ فن نے تصریح کی ہے ۔ خاتمۃ الحفاظ علامہ عسقلانی فرماتے ہیں (والجرح مقدم على التعديل، واطلق ذلك على جماعة ولكن محلة ان صدر مبينا من عارف باسبابه بانه ان كان غير مفسر،لم يقدح فيمن ثبتت عدالته )’’تعدیل پر جرح مقدم ہوتی ہے ۔ رواۃ کی ایک جماعت پر مطلق جرح کی گئی ہے (یعنی جرح غیر مفسر) لیکن جرح تعدیل پر اس وقت مقدم ہوتی ہے جب مبین ومفسر ہو اور اسباب جرح سے واقف انسان جرح کرے‘لیکن اگر جرح غیر مفسر ہوتو یہ اس شخص کے حوالے سے نقصان دہ اوردقدح کا سبب نہیں ہوتی جس کی عدالت ثابت ہو ۔‘‘دیکھیے(شرح نخبةالفکر‘ص:343مع شرح العثیمین )بہرحال اس بارےمیں یہی موقف درست ہے ‘بالخصوص جب کہ کوئی صحیحین کاراوی ہو ۔ ہدی الساری میں ابن حجر فرماتےہیں (قلت فلايقبل الطعن فى احد منهم الا بقادح واضح)’’میں کہتاہوں کہ ان میں سے کسی پر طعن اس وقت تک قبول نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ واضح اورمبین نہ ہو ۔‘‘ (هدي الساري مقدمة فتح الباري ‘ص:548‘الفصل التاسع‘مطبوعة دارالسلام)شیخ سلام اللہ حنفی فرماتےہیں (واسامة بن رجال البخاري وقد قالوا:من روى عنه الشيخان او احدهما عنه لاينظر للطاعنين فيه وان كثروا)’’اسامہ رجال بخاری میں سے ہے ۔ علماء کاقول ہے کہ جس سےشیخین یاان میں سے کسی ایک نے روایت کی ہو تواس کےبارےمیں جرح کرنےوالوں کی طرف التفات نہیں کیاجائے گا اگرچہ وہ تعدادمیں زیادہ ہی ہوں۔‘‘(معیارالحق ‘ص:245) جارحین کی جرح کےجواب کےلیے دیکھیے (دین الحق 1/155۔158)عہد نبوی میں مسلمان خواتین رسول اللہ ﷺ کےپیچھے نماز فجر اندھیرے ہی میں ادا کرتی تھیں ۔ اتنا اندھیر ا ہوتا کہ انہیں پہچانا نہیں جاسکتا تھا ۔سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہے (كُنَّ نِسَاءُ المُؤْمِنَاتِ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ حِينَ يَقْضِينَ الصَّلاَةَ، لاَ يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الغَلَسِ)’’مومن عورتیں (صحابیات )اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز فجر ادائیگی کےلیے حاضر ہوتی تھیں‘پھرجب وہ نماز ادا کرنے کےبعد اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹتیں تواندھیرے کی وجہ سے انہیں کوئی پہچانتا نہیں تھا ۔‘‘(صحيح البخاري‘مواقيت الصلاة‘حديث:372)وصحيحمسلم‘المساجد‘حديث:645‘وارواءالغليل1/278) اسی حدیث کےبعض طرق میں یہ الفاظ ہیں (ثم يرجعن الي بيوتهن)’’پھروہ اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹتیں۔‘‘( صحيح البخاري‘مواقيت الصلاةحدیث: 372)اوربعض میں یہ الفاظ ہیں (فينصرف النساءمتلفعات) ’’اس کےبعد عورتیں چادروں میں لپٹی (گھروں کی طرف)پھرتیں۔‘‘(صحیح البخاری ،الاذان ،حدیث:867)اورایک طریق میں ‘جیساکہ حافظ ابن حجر فرماتےہیں ‘یہ الفاظ ہیں(لايعرفن بعضهن بعضا) ’’عورتیں آپس میں ایک دوسری کونہیں پہچانتی تھیں۔‘‘ صحیح البخاری ،الاذان ،حدیث 872،والتلخیص الحبیر:1/324)شیخ البانی نےمسند سراج کےحوالے سےیہ اضافہ بھی ذکر کیا ہے یہ عورتیں قبیلہ بنوعبدالاشہل سےتعلق رکھتیں تھی اورمدینے سے ایک میل کےفاصلے پر رہائش پذیر تھیں۔ (الارواء:1/278)واسنادہ حسن،صحیح مسلم میں مندرجہ ذیل الفاظ سے اس بات کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے کہ عورتوں کانہ پہچاناجانا صرف اس وجہ سے تھا کہ آپ ﷺ اول وقت اور اندھیرے میں نماز پڑھایا کرتے تھے (ثم ينقلبن الى بيوتهن وما يعرفن من تغليس رسول الله ﷺبالصلاة)’’پھر وہ اپنے گھروں کی طرف پلٹتیں اورنبیﷺ کےاندھیرے میں نماز پڑھانے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔‘‘ (صحيح مسلم‘المساجد‘ حديث:321-645‘والتلخيص الحبير1/324‘طبعة مؤسسة قرطبة)
غلس کےمعنی:حدیث عائشہؓ کےمتعددطرق سےواضح ہواکہ رسول اللہﷺ اندھیرے میں نماز فجر پڑھاکرتے تھے اورجس (غلس)’’اندھیرے‘‘کاذکر ان احادیث میں آیاہے اس سے مراد رات کےآخری حصہ کااندھیرا ہے‘نہ کہ بندمسجدکےاندر کااندھیر جیساکہ مذکورہ حدیث کی اس طرح توضیح کرکےاحناف نےحدیث سےجان چھڑانےاورمذہب حنفی کےاثبات وتائید کےلیے بھرپورکوشش کی ہے ۔ امام نووی غلس کی توضیح میں فرماتےہیں(ظلمة آخرالليل)’’اس کی شرح میں علامہ مرتضیٰ زبیدی حنفی لکھتےہیں (ظلمة آخر الليل اذا اختلطت بضوء الصباح‘ ومنه الحديث: كان يصلى الصبح بغلس)’’غلس سےمراد رات کےآخری حصہ کا وہ اندھیرا ہے جس میں صبح کی روشنی شامل ہوگئی ہو۔ حدیث میں ہے رسول اللہﷺ غلس (اندھیرے)میں صبح کی نماز پڑھا کرتے تھے ۔‘‘(تاج العروس8/387)الغرض’’غلس‘‘کو مسجد کے اندر کااندھیرا قرار دینا دلائل کی روشنی میں بےمعنی توجیہ ہے حدیث میں وارد الفاظ (لايعرفهن احد من الغلس)کاکیا مفہوم ہے ؟حافظ ابن حجر نے اس کےمتعلق امام داودی کاقول نقل کیا ہے کہ پتا نہ چلتا تھا کہ یہ مرد ہیں یاعورتیں ۔ اوریہ بھی ایک قول ہے کہ عورتوں کا امتیاز نہ ہوتا تھا کہ آیاہے یہ زینب ہے یاخدیجہ ‘یعنی نفس کی ان کی ذات کی پہنچان نہ ہوتی ۔ (فتح الباری 2/55بتصرف)اگرچہ اس کےمفہوم کےتعین میں خاصا اختلاف ہے لیکن موخر الذکر مفہوم کی تائید حدیث عائشہ ہی کےایک دوسرے طریق سے ہوتی ہے ۔حضرت جابربن عبداللہ سےاوقات نماز کےمتعلق لمبی حدیث مروی ہے ۔اس کے آخر میں نمازفجرکے وقت کی تعیین وتحدید بھی منقول ہے‘وہ فرماتےہیں (والصبح كان النبي ﷺيصليها بغلس)’’اورصبح کی نماز نبی اکرمﷺ غلس (رات کی تاریکی)میں پڑھا کرتے تھے۔‘‘(صحيح البخاري‘مواقيت الصلاة‘ حديث:560‘وصحيح مسلم‘ المساجد ‘ حديث:646)’’اس حدیث کی روشنی میں بھی معلوم ہوا کہ نماز فجر تاریکی میں ادا کرنا افضل ہے کیونکہ یہ آپﷺ کی عادت مبارکہ تھی‘ نیز نماز فجر اندھیرے ہی میں پڑھنے کی دلیل حضرت انس بن مالک سےبھی منقول ہے۔ اس سےبھی صراحتا فجر کی نماز فجر کی نماز جلدی پڑھنے کی دلیل ملتی ہے ۔انس بن مالک سےمروی ہے کہ انہیں زیدبن ثابت نے بیان فرمایا (ثُمَّ قَامُوا إِلَى الصَّلاَةِ، قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: قَدْرُ خَمْسِينَ أَوْ سِتِّينَ "، يَعْنِي آيَة)’’کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ سحری کی ‘ پھربعد ازاں نماز پڑھی ۔ میں نے پوچھا نبی اکرمﷺ کی سحری اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ تھا ؟ توسیدنا زید نےجواب دیا تقریبا پچاس یاساٹھ قرآنی کا آیات کا۔‘‘ (صحيح البخاري‘مواقيت الصلاة‘ حديث:575)حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں( واستدل المصنف به على ان اول وقت الصبح طلوع الفجر لانه الوقت الذي يحرم فيه الطعام والشراب‘والمدة التي بين الفراغ من السحور والدخول في الصلاة وهي قراءة الخمسين آية اونحوها ....فاشعر ذلك بان اول وقت الصبح اول مايطلع الفجر وفيه آنه كان يدخل فيها بغلس)’’مصنف (امام بخاری)نے اس حدیث سےیہ استدلال کیا ہے کہ نماز صبح کااول وقت طلوع فجر ہے کیونکہ یہی وہ وقت ہے جس میں کھانا پینا حرام ہوتا ہے اور سحری سے فراغت اور نماز میں داخل ہونے کی یہ درمیانی مدت (وقفہ)پچاس آیات کی قراءت وتلاوت یااس کے قریب قریب ہے ...اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صبح کااول وقت‘ طلوع فجر کا اول وقت اور اس حدیث میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ رسول اللہﷺ نماز فجر کاآغاز اندھیرے میں فرمایا کرتےتھے۔ (فتح الباری2/55،حدیث:578)ابوبرزہ کےحوالے سےبھی رسول اللہﷺ سےنماز فجر جلدی پڑھنا مروی ہے ‘وہ فرماتےہیں (كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الصُّبْحَ وَأَحَدُنَا يَعْرِفُ جَلِيسَهُ، وَيَقْرَأُ فِيهَا مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى المِائَةِ،)’’نبی اکرمﷺ نماز فجر پڑھ لیتے اورہم میں سےکوئی اپنے پہلو میں بیٹھے ساتھی کو پہچان لیتا تھا اور آپﷺ ساٹھ آیات سےلے کر سوآیات تک کی قراءت فرمایا کرتے‘‘ (صحيح البخاري‘مواقيت الصلاة‘حديث:541‘وصحيح مسلم‘ المساجد‘ حديث:647)اس حدیث پر غور کیا جائے تویقینا پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نماز فجر اول وقت میں شروع کرتے اور مذکورہ آیات کےبقدر تلاوت فرماتے‘ تب ممکن ہوتا کہ ساتھ بیٹھے ساتھی کو پہچانا جاسکے وگرنہ ابوبرزہ کی مذکورہ تصریح بظاہر بےمحل ٹھہرتی ہے ۔ بالفرض اگررسول اللہﷺ نماز کاآغاز ہی روشنی ہونے پر فرماتےتویقینا اس قدر طویل قراءت کےبعد‘ اورقراءت بھی رسول اللہﷺ کی تھی‘ضرور سورج نکل آتا یاکم ازنکلنے کےقریب ضرورہوتا‘پھر ساتھی پہچاننے کےکیامعنی؟چندآثار صحابہ:مغیث بن سمی فرماتےہیں(صَلَّيْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، الصُّبْحَ بِغَلَسٍ، فَلَمَّا سَلَّمَ، أَقْبَلْتُ عَلَى ابْنِ عُمَرَ، فَقُلْتُ: مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ؟ قَالَ:هَذِهِ صَلَاتُنَا، كَانَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فَلَمَّا طُعِنَ عُمَرُ، أَسْفَرَ بِهَا عُثْمَانُ) میں نےعبداللہ بن زبیر کےساتھ نماز فجر اندھیرے میں پڑھی‘ جب انہوں نے سلام پھیرا تومیں ابن عمر کی طرف متوجہ ہوا اور کہا :یہ کیسی نماز ہے؟ توانہوں نے جواب دیا : یہ ہماری وہ نماز ہے جو ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ابوبکر وعمر کےساتھ پڑھا کرتے تھے‘ لیکن جب عمروفاروق (اندھیرے میں)شہید کردیے گئے تو سیدنا عثمان نے اسے روشنی میں پڑھانا شروع کردیا۔‘‘(سنن ابن ماجه‘الصلاة‘حديث:671‘ومسندابي يعلي‘حديث:5747‘وابن حبان بتحقيق الشيخ شعيب‘ حديث:1496‘وشرح معاني الآثار1/176‘والسنن الكبرى للبيقي1/456‘وارواءالغليل للالباني1/279 واسناده صحيح )مغیث بن سمی نےیہ اس لیے پوچھا کہ اس سے قبل عبداللہ بن زبیر روشنی ہونے پر نماز فجر پڑھایا کرتے تھے (وکان یسفربہا) اوران کے اس اسفار کی وجہ عثمان کانماز فجر روشنی میں پڑھانا تھا ۔ جب اندھیرے میں انہوں نے نماز فجر پڑھائی توعظیم صحابی ابن عمرنےوضاحت فرمادی کہ اصل وقت یہی ہے ۔ رسول اللہﷺ کی سنت بھی یہی ہے ‘نیز خلیفۃ الرسول ابوبکراروسیدنا عمرفاروق ؓ بھی تاریکی ہی نماز پڑھایا کرتےتھے ‘لیکن جب اندھیرے میں نماز پڑھاتے ہوئے عمروفاروق کی شہادت کاسانحہ پیش آیاتوبغرض احتیاط اوروقتی خطرات سے بچاؤ اورتحفظ کی خاطر عثمان غنی نے آغاز میں تاخیر سے نماز فجر پڑھانے کی پالیسی اپنائی ‘بعد ازاں حالات سدھر گئے توانہوں نے دوبارہ پھر اسی طرح سنت کےمطابق تاریکی میں نماز پڑھانا شروع کر دی۔ اس بات کی تصدیق دوسرے اثرسے ہوتی ہے ‘جو ابو سلمان سے بسند صحیح منقول ہے ‘وہ فرماتے ہیں (خدمت الركب فى زمان عثمان فكان يغلسون بالفجر)’’میں نے عثمان کےعہد خلافت میں ایک قافلے کی خدمت کی ۔ وہ لوگ نماز فجر اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے ۔‘‘(مصنف ابن ابی شیبة:1/283،حدیث:3238طبعة دارالکتب العليمة) اس اثر سےمعلوم ہواکہ عثمانی عہد خلافت میں لوگ نماز فجر تاریکی ہی میں ادا کرتے تھے ۔ اس مفہوم کی تائید مزید اس اثر سے ہوتی ہے ۔ ایاس فرماتےہیں (كنا نصلي مع عثمان الفجر فننصرف ومايعرف بعضا وجوه بعض)’’ہم سیدنا عثمان کےساتھ فجر کی نماز پڑھا کرتے تھے‘ جب ہم (نماز سے فراغت کےبعد) واپس آتے توہم میں سےکوئی دوسرے کے چہرے کو پہچان نہ سکتا تھا۔‘‘ (منصف ابن ابی شیبة 1/283حدیث: 3241) شیخ البانی نےمذکورہ اثرا اوراس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیے(ارواء الغلیل1/289)امام ابن عبدالبر نےبھی اس اثر کی صحت کی طرف اشا رہ فرمایا ہے (وصح عن رسول الله ﷺوابي بكر وعمر وعثمان انهم يغلسون ومحال ان يتركوا الافضل وياتوا الدون)’’ابوبکر‘عمر اورعثمان سےبسند صحیح ثابت ہے کہ نماز فجر اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے اورمحال ہے کہ یہ لوگ افضل عمل ترک کرکے کم ترعمل اختیار کریں۔‘‘ (التمهيد لابن عبدالبر4/34‘طبعة المكتبة القدوسية)مسندابو یعلی کی حدیث ہے ‘سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: (وننصرف ومايعرف بعضا وجوه بعض)’’اور ہم واپس لوٹتیں تو ہم میں سے کوئی ایک دوسری کاچہرہ نہیں پہچان سکتی تھی۔ ‘‘(مسند ابي يعلي:7/466‘رقم: 4493) اس کی سند صحیح ہے ۔دیکھیے(جلباب المرأة المسلمة اللالباني‘ ص: 66)مذکورہ معروضات کی روشنی میں معلوم ہوا اول وقت ‘یعنی غلس ہی میں نماز فجر پڑھنا افضل ہے ۔ یہ یہی موقف وعمل جمہور صحابہ وتابعین اورائمہ عظام کارہا ہے ۔
احناف کی ایک اور دلیل:احناف نماز فجر روشنی میں تاخیر سےپڑھنے کےقائل ہیں‘ ان کےبقول اب مستحب عمل یہی ہے ‘نہ کہ نماز کااول وقت میں پڑھنا جیسا کہ گزشتہ مباحث سےواضح ہے۔ ان کی ایک دلیل یہ حدیث بھی ہے (أسفروابالفجر ‘فإنه اعظم للاجر)’’فجر روشن کرکے پڑھو کیونکہ یہ اجر کی بڑھوتری کاباعث ہے ۔‘‘(جامع الترمذي ‘الصلاة‘حديث: 154)طرق وشواہد اورتحقیق کےلیے دیکھیے: ارواء الغلیل،حدیث:258)اس روایت کی بناپر اول وقت میں نماز پڑھنے کی ترغیب پر مشتمل تمام احادیث کو منسوخ قرار دیاگیا ہے ۔ احادیث وآثار اورتحقیق کی روشنی میں یہ موقف باطل ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کےمفہم کی توضیح کرنے کےبعد نسخ کےقول کوحقیقت سےدورقرار دیا ہے ۔ دیکھیے(فتح الباری2/55)امام ترمذی نےفقہاء محدثین ‘شافعی‘اوراحمد اسحاق سےیہی نقل کیا ہے کہ اسفار سےنماز کی تاخیر مراد نہیں ہے دیکھیے(جامع الترمذي‘الصلاة ‘حديث: 154)أسفروا بالفجركى درست معنى ومفہوم:نبی اکرمﷺ اورصحابہ کرام کے روز مردہ عمل اوردیگر احادیث وآثار کی روشنی میں اس حدیث کا درست مفہوم یہ ہے کہ طلوع فجر کےبعد ضروری حوائج سےفراغت کےبعد اندھیرے میں نماز کا آغاز ہو‘قراءت اور قیام وسجود اس قدر دراز ہوں کہ نماز سے فراغت اس وقت ہو جب روشنی پھیل چکی ہو ۔ مزید توضیح ملاحظہ فرمائیے۔امام طحاوی حنفی کی تحقیق میں اس حدیث کا یہی مفہوم ہے ۔ وہ متعدد احادیث وآثار کے درمیان تطبیق دیتےہوئے اسی مفہوم کو ترجیح دیتےہیں اور فرماتے ہیں(فالذي ينبغي‘ الدخول في الفجر في وقت التغليس‘والخروج منها في وقت الاسفار‘علي موافقه ما روينا عن رسول لله ﷺواصحابه ‘وهو قول ابي حنيفة‘ وابي يوسف ‘ ومحمد بن الحسن)’’لائق عمل بات یہ ہے کہ تاریکی میں نماز فجر کا آغاز ہواور روشنی میں اس سے فراغت ہو‘یہ معنی وتطبیق نبی اکرمﷺ سے مروی احادیث اور صحابہ کرام کےمعمول کےموافق ہے ۔ یہی ابوحنیفہ‘ ابویوسف اورمحمد بن حسن کاقول ہے ۔‘‘دیکھیے(شرح معاني الآثار1/184‘وفتح الباري1/55)ملا علی قاری حنفی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں(صلوها في وقت الاسفار اوطولوها الى الاسفار وهو اختيار الطحاوي من اصحابنا)’’اسے روشنی میں پڑھویا(اسفرواسے مراد یہ ہے کہ)اسےروشنی ہونے تک لمبا کرو‘ہمارے اصحاب (احناف)میں سے امام طحاوی کے نزدیک موخرالذکر موقف پسندیدہ ہے ۔‘‘(مرقاة المفاتيح 2/293‘ حديث614)علامہ میرک نے بھی دونوں مفہوم ذکر کرنے کےبعد موخرالذکر مفہوم ہی کو اقوی قرار دیا ہے کیونکہ اس طریقہ تطبیق سے اسفار وتغلیس کی تمام روایات میں موافقت پیدا ہوجاتی ہے ‘یعنی تعارض رفع ہوجاتاہے ۔ (مرقاة المفاتيح 2/393)لیکن جمہور احناف کےہاں یہ مذہب مختار نہیں ہے ۔ (حوالہ مذکور)شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نےبھی تغلیس (اندھیرے میں نماز پڑھنے)ہی کو افضل قراردیا ہے ۔ دیکھیے(فتاوی ابن تیمیہ22/95) واضح رہے کہ اس طرح کاطویل قیام ورکوع اورسجود ہی یقینا اجروثواب کےاضافے کاباعث ہے ۔امام ابن قیم مذکور الصدر حدیث کی توضیح میں فرماتے ہیں (وهذا بعد ثبوته انما المرادبه الاسفار بها دواما لاابتداء ‘فيدخل فيها مغلسا ويخرج منها مسفرا كما كان يفعله ‘فقوله موافق لفعله ‘لامناقض له‘ وكيف يظن به المواظبة علي فعل ما الاجر الاعظم في خلافه ()اعلام الموقعين 2/363)’’اگریہ حدیث پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے توپھر اسفار سے مراد یہ ہے کہ اختتام اس وقت ہونہ کہ آغاز ‘یعنی اندھیرے میں نماز کاآغاز کیاجائے اورروشنی ہونےپر فراغت ہوجیاس کہ نبی اکرمﷺ کاعمل تھا ‘لہذا آپﷺ کاقول ‘فعل کےموافق ہے نہ کہ اس کےمعارض ۔ رسول اللہﷺ کےمتعلق ایسے فعل پر ہمیشگی کاگمان کیسے کیاجاسکتا ہے کہ اجر عظیم اس کے برخلاف کسی اور عمل میں ہو۔‘‘یعنی آپﷺ کےقول اورفعل میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔ نبی ﷺ کاروز مرہ عمل تاریکی میں نماز پڑھنا ہی تھا۔ رہی مذکورہ حدیث تواس کےمعنی بھی یہی ہیں کہ آغاز نماز اندھیرے میں ہو۔صاحب تحفۃ الاحوذی علامہ مبارکپوری ابن قیم کی مذکورہ توضیح کےبارےمیں فرماتےہیں (اسلم الاجوبة واولاها ماقال الحافظ ابن القيم في اعلام الموقعين)’’عمدہ اورمحفوظ ترین جواب وہ ہے جوحافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں دیا ہے ۔‘‘دیکھیے(تحفۃ الاحوذی 1/409)گویا علامہ مبارکپوری کاموقف بھی یہی ہے۔محدث العصر شیخ البانینے بھی اسی مفہوم کی پرزورتائید کی ہے اوردلیل کےطورپر حضرت انس بن مالک کی حدیث پیش کی ہے جس سے صراحتا اس موقف کی تائید ہوتی ہے ‘وہ فرماتےہیں (والصبح اذا طلع الفجر الى ان ينفسح البصر)’’اورآپﷺ نماز صبح کاآغاز اس وقت کرتےجب فجر صادق طلوع ہوتی اور اس وقت فارغ ہوتے جب صاف دکھائی دیتا۔ ‘‘(مسند احمد3/129‘169وارواء الغليل1/280)مزید فرماتےہیں ’’یہ حدیث(انس)خصوصا مسند احمد کے الفاظ‘نمازفجر کےاندھیرے میں شروع کرنے اور روشنی میں فارغ ہونے پر صریح دلیل ہیں۔ آئندہ آنے والی حدیث (اسفروابالفجر)کےیہی معنی ہیں۔‘‘(ارواء الغلیل 1/281)بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں(فما اصبحتم بها فهوا اعظم للاجر)’’تم جس قدراسے روشنی میں پڑھوگے‘اسی قدر یہ اجر عظیم کاباعث ہوگی۔‘‘(شرح معانی الاآثار1/179)
سوال یہ ہے کہ اگر اسفار کےوہی معنی مراد ہوں جو احناف لیتے ہیں توپھر کیا یہ کہنا درست ہے کہ جس قدر تاخیر سےطلوع شمس سےقبل ممکن ہو‘نماز فجر کا آغاز کیاجائے تاکہ اجر میں اور اضافہ ہو؟کیا اس طرح طویل قیام وسجود کابھی موقع ملےگا جویقینا بڑھوتری اجر کاباعث ہے ؟یامقصد صرف تاخیر ہی تاخیر ہے جس کی نبی اکرمﷺ کے روزہ مرہ عمل سے مخالفت کےسواظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی ؟ا سی لیے ائمہ ومحدثین نے احناف کے اس مجمل غیر صریح حدیث سے مندرجہ بالااستدلال کومردود قرار دیا ہے ۔ دیکھیے(اعلام الموقعین2/363)حدیث(اسفروا بالفجر) کےاورمعانی بھی بیان کیے گئےہیں جن میں ایک معنی تحقیق فجر کےہیں(فتح الباري2/55 تحت حديث 578)یعنی صبح کےوقت فجر کاذب اورفجر صادق میں اچھی طرح تمیز کر لینا کہ کہیں غلطی سےوقت سےپہلے اذان نہ ہو۔ لیکن دلائل کی روشنی میں یہ مفہوم مرجوح ہے کیونکہ تحقق فجر توفی نفسہ ضروری ہے‘ اس لیے کہ طلوع فجر سے قبل شرعا نہ تو اذان فجر دی جاسکتی ہے اور نہ فرض نماز جائز ہے جب تک کہ بالیقین اس کاوقت نہ ہوجائے۔ اس سےپتا چلتا ہے کہ یہاں کوئی اورعمل مطلوب ہے جس کی وجہ سے اجر عظیم کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور وہ ہے اندھیرے میں نماز شروع کرکے روشنی میں فارغ ہونا جیسا کہ مسند احمد کی حدیث کےحوالے سےگزار ہے ۔بعض نےحکم اسفار چاندنی راتوں اوربعض نےصرف چھوٹی راتوں کے ساتھ خاص کیا ہے‘یعنی نماز فجر میں اس قدر تاخیر ہو کہ لوگوں کی نیند پوری ہواور وہ نماز باجماعت ادا کرسکیں۔ لیکن یہ اقوال بھی سابقہ قول کی طرح بلادلیل ہیں۔احناف اپنے موقف کی تائید میں ابراہیم نخعی کایہ قول بھی پیش کرتےہیں(مااجتمع اصحاب رسول الله ﷺعلى شيء مااجتمعوا على التنوير)’’اصحاب رسول اللہﷺ کاجس قدر اتفاق روشنی میں نماز پڑھنے پر ہے‘اتنا کسی اور چیز پر نہیں ۔‘‘
اولا:یہ اثرمنقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ ابراہیم نخعی کا اصحاب رسول اللہﷺ سےلقاء وسماع ثابت نہیں ہے۔ علی بن مدینی فرماتےہیں(ابراهيم النخعي لم يلق احدا من اصحاب النبي ﷺ )’’ نبی اکرمﷺ کےصحابہ کرام میں سے ابراہیم نخعی کی کسی سےملاقات نہیں ہوئی ۔‘‘(علل الحديث ومعرفة الرجال‘ص:75)یہ قول ابن ابی حاتم نےبھی ذکر کیا ہے (كتاب المراسيل‘رقم:19)امام ابوزرعہ فرماتےہیں،(ان ابراهيم دخل على عائشة وهو صغير ولم يسمع منها شيأ)’’ابراہیم جب سیدہ عائشہؓ کےپاس آئے تو چھوٹے بچے تھے اوران سے کچھ بھی نہیں سنا۔‘‘ ( كتاب المراسيل‘رقم22)امام ابوحاتم ان کے متعلق فرماتےہیں(لم يلق ابراهيم النخعي احدا من اصحاب النبيﷺ الاعائشة ولم يسمع منها شيافانه دخل عليها وهو صغير‘وادرك انسا ولم يسمع منه)’’ابراہیم نخعی کی سوائے سیدہ عائشہ کے کسی اور صحابی سےملاقات نہیں ہوئی اور ان سے انہیں شرف سماع نصیب نہیں ہوا کیونکہ جب وہ ان کے پاس آئے تھے توچھوٹے سےبچےتھے۔ ہاں ‘انس کوپایا ہے لیکن ان سےسماع نہیں کیا۔‘(كتاب المراسيل رقم21)امام عجلی فرماتےہیں(ابراهيم بن يزيد لم يحدث عن احد من اصحاب النبيﷺوقد ادرك منهم جماعة ورأي عائشة رويا)’’ابراہیم بن یزید نے اصحاب النبیﷺ میں سےکسی سےحدیث حدیث بیان نہیں کی۔ صحابہ کرام میں سے ایک جماعت کو انہوں نےپایا ہے اورحضرت عائشہؓ کو صرف دیکھا ہے۔‘‘(تاريخ الثقات‘رقم :45)یحییٰ بن معین فرماتےہیں انہیں حضرت عائشہؓ کے ہاں لایا گیا تھا۔ (كتاب المراسيل‘رقم:20)علامہ ذہبی فرماتےہیں (قدرأي زيد بن ارقم وغيره ولم يصح له سماع من صحابي)’’انہوں نے زید بن ارقم وغیرہ کو دیکھا ہے لیکن کسی صحابی سے ان کاسماع درست نہیں ۔‘‘(ميزان الاعتدال 1/75)الجرح والتعدیل(2/18)میں بھی ان کاترجمہ موجود ہے ‘مزید تفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائیے :(تہذیب التہذیب1/155)ثانیا: بالفرض اگریہ اثر صحیح بھی ہو‘ تب بھی اس کی روشنی میں مزعومہ اسفار پر صحابہ کرام کےاجماع کادعوی کرناباطل ہے کیونکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔امام ترمذی نے کثیر صحابہ کرام سے غلس(اندھیرے)میں نماز پڑھنے کا استحباب نقل کیا ہے ‘فرماتےہیں(وهو الذي اختاره غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبيﷺ)’’اس موقف (اندھیرے میں نماز پڑھنے )کو بہت سےاہل علم صحابہ کرام نے اختیار فرمایا ہے۔(جامع الترمذي‘ الصلاة‘ حديث: 153)نیز متاخرین احناف اس اثر کاجو مفہوم سمجھتے ہیں ‘سرخیل احناف امام طحاوی حنفی نے اس کے برخلاف سمجھا ہے ۔ انہوں نے اس اثر کی توجیہ وہی کی ہے جس کی تصدیق دیگر احادیث وآثار‘یعنی رسول اللہﷺ اورصحابہ کرام کےروز مرہ عمل سےہوتی ہے‘وہ فرماتےہیں(فاخبر انهم كانوا قداجتمعوا على ذلك‘ فلايجوز عندنا والله اعلم اجتماعهم على خلاف ماقدكان رسول اللهﷺ فعله الابعد نسخ ذلك وثبوت خلافه)(شرح معاني الآثار1/184)’’چنانچہ انہوں نے یہ خبردی ہے کہ صحابہ کرام روشنی کرنے پر متفق تھے۔ ہمارے نزدیک ان کا یہ اجماع رسول اللہﷺ کےعمل کے برخلاف ممکن نہیں۔ ہاں یہ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب رسول اللہﷺ کا اندھیرے میں نماز پڑھنے کاعمل منسوخ یااس کے برخلاف دلیل کاثبوت ہو۔‘‘امام طحاوی کےرجحان کےمطابق یہ اثر متاخرین احناف کے اپنے موقف کے برخلاف دلیل ہے‘ بصورت دیگر یہ اثر لائق حجت نہیں کیونکہ دریں صورت دیگر احادیث وآثار سےاس کاسخت تعارض ہوتا ہے ۔الحاصل:(اسفروا بالفجر)کاراجح اورمحفوظ مفہوم یہی ہے کہ اجالے میں نماز فجر سے فراغت ہو‘ نہ کہ آغاز ۔ یہی عمل اجروثواب کی بڑھوتری کاباعث ہے اسی کو علامہ مبارکپوری نے (اسلم الاجوبة) ’’محفوظ ترین جواب ‘‘قرار دیا ہے ۔ لیکن اس پر ایک اشکال واقع ہوتا ہے کہ اگر روشنی میں فراغت مراد ہے تو پھر حضرت عائشہؓ کی معروف حدیث کا کیا مفہوم ہے جس میں اندھیرے ہی میں نماز فجر سےفراغت کاذکر ہے ؟مزید اس میں یہ صراحت بھی کہ انہیں کوئی اندھیرےکی وجہ سے پہچان نہیں سکتا تھا۔ (لايعرفهن احد من الغلس)صحيح البخاري ‘المواقيت ‘حديث:578)اس کاجواب یہ ہے کہ نماز فجر سے فراغت کی دو مختلف حالتیں تھیں‘ رسول اللہﷺ کبھی اندھیرے ہی میں فارغ ہوجایا کرتےتھے اور کبھی روشنی میں‘ گویا ایک ہی عمل پر دوام نہیں تھا جیسا کہ محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی1/410) میں فرمایا ہے۔اس کی تائید ابوبرزہ کی حدیث سےہوتی ہے‘وہ فرماتےہیں(وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف الرجل جليسه)’’آپﷺ نماز صبح سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھے ساتھی کو پہچان لیتا تھا۔ ‘‘(صحيح البخاري ‘المواقيت ‘حديث547)حضرت انس بن مالک کی حدیث سےبھی اس مفہوم کی تصدیق ہوتی ہے ‘وہ فرماتےہیں (والصبح اذا طلع الفجر الى ينفسح البصر)’’اورصبح (کی نماز اس وقت پڑھتے)جب فجر طلوع ہوتی یہاں تک کہ واضح دکھائی دیتا۔ ‘‘(مسنداحمد 3/129،169)شیخ البانی فرماتےہیں کہ ہمیشہ تاریکی ہی میں صبح کی نمازسےفراغت رسول اللہﷺ کی سنت نہیں‘ بلکہ آپ کبھی تاریکی میں فارغ ہوتے جیسا کہ عائشہؓ کی گزشتہ حدیث میں ہے اور کبھی اس وقت جب چہرے دکھائی دیتے اور ایک دوسرے کی پہچان ہوجایا کرتی تھی۔ ‘‘دیکھیے (ارواءالغلیل1/280)جبکہ حافظ ابن حجر حدیث عائشہ اورحدیث ابوبرزہؓ کےمابین یوں تطبیق دیتےہیں کہ حدیث عائشہ میں دور سےپردے میں لپٹی ہوئی عورت کے بارےمیں خبر ہے جبکہ ابوبرزہ کی حدیث میں اس شخص کےمتعلق خبر ہے جوپہلو میں بیٹھا نماز پڑھنے والا ساتھی ہو۔ (فتح الباري2/55‘تحت حديث:578)الغرض اس قسم کی توجیہات سےتعارض رفع ہوجاتا ہے ۔ابتدائے وقت ظہر:حکم باری تعالیٰ ہے (أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ)بني اسرائيل 78:17)’’نماز قائم کیجیے سورج کےڈھلنےپر ۔‘‘اس حکم سےثابت ہواکہ نماز ظہر سورج ڈھلتے ہی فرض ہو جاتی ہے ۔ یہ ظہر کااول وقت ہے۔امام ابن منذر فرماتےہیں(اجمع اهل العلم على ان اول وقت الظهر زوال الشمس)’’اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ ظہر کا اول وقت زوال شمس ہے ۔‘‘(الاوسط2/326)امام ابن قدامہ فرماتےہیں(واجمع اهل العلم على ان اول وقت الظهر اذا زالت الشمس)’’ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ ظہر کاوقت اول زوال شمس ہے ۔‘‘(المغنی 1/412)امام نووی اورابن حجر نےبھی اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ تفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائیے(المجموع 3/24‘وفتح الباري2/21‘تحت حديث:540)حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی حدیث میں ہے‘آپﷺ نے فرمایا(وقت الظهر اذا زالت الشمس وكان ظل الرجل كطوله مالم يحضر العصر)’’ظہر کاوقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج زوال پذیر ہواور آدمی کاسایہ اس کی لمبائی کےبرابر ‘جب تک عصر نہ ہو۔ ‘‘(صحيح مسلم‘ المساجد‘حديث(173)612)ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں(وقت الظهر مالم تحضر العصر)’’ظہر کاوقت(اس وقت تک باقی) رہتا ہے جب تک عصر کا وقت نہ ہو۔ ‘‘(صحيح مسلم‘ المساجد‘حديث(172)612)آپﷺ نے یہ جواب کسی سائل کے سوال میں دیا ہے ۔( صحيح مسلم‘ المساجد‘ حديث 174)612)بلکہ احادیث میں تصریح ہے کہ آپ نے عملا دودن نمازپڑھ کر دکھائی پہلے دن اول وقت میں اوردوسرے دن تاخیر کے ساتھ ۔( صحيح مسلم‘ المساجد‘ حديث:613)ابن عباسؓ کی حدیث میں صراحت ہےکہ جب جبریل نے رسول اللہﷺ کو پہلے دن نمازپڑھائی تواس وقت سورج زوال پذیر ہو چکا تھا اور سائہ زوال بقدر تسمہ تھا۔ (وكانت قدر الشراك )(سنن ابى داود‘ الصلاة‘حديث :393‘جامع الترمذي الصلاة‘ حديث:149)ترمذی کے یہ الفاظ ہیں(حين كان الفيئ مثل الشراك(’’جب سایہ بمثل تسمہ تھا۔‘‘اس حدیث سےمعلوم ہواکہ سایہ اصلی نکالا جائےگا‘تب ایک یادومثل شمار ہوگا۔ اس مفہوم کی حدیث جابر بن عبداللہؓ سےبھی منقول ہے ۔ دیکھیے(سنن النسائي‘المواقيت‘ حديث:525) لہذا سایہ زوال واضح ہونے کےبعد ظہر کاآغاز ہوگا‘خواہ یہ سایہ تھوڑاہویازیادہ۔ اگریہ سایہ مشرقی جانب نمایاں نہ ہوتو یہ وقت استواءشمس کاہوتا ہے جو سورج کے ہنوززوال پذیر نہ ہونے کی دلیل ہوتی ہے ۔ جبریل نے نبی اکرمﷺ کوپہلے دن سورج ڈھلتے ہی نماز پڑھائی اور آپ نے ان کی اقتدامیں پڑھی۔ (سنن النسائي‘المواقيت‘حديث:503)حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں بھی بصراحت ظہر کے اول وقت کی تحدید ہے (ان اول وقت صلاة الظهر حين تزول الشمس)’’نماز ظہر کااول وقت زوال شمس ہے۔(جامع الترمذي‘الصلاة‘ حديث:151) بغرض تحقیق ملاحظہ ہو۔(شرح جامع الترمذي الاحمد شاكر:1 /284‘ 285وسلسة الاحاديث الصحيحة ‘ حديث:1696)معرفت زوال اورظہر وعصر کاوقت معلوم کرنے کاطریقہ:ظہروعصر کےوقت کےمتعلق احادیث میں ایک یادومثل کاجوذکر آتاہے‘ اس کی معرفت حاصل کرناکوئی مشکل کام نہیں۔ اگرچہ یہ گھڑی اور کیلنڈرکاجدید دور ہے لیکن پھر بھی افضل یہ ہے کہ مثل اول وثانی کامشاہدہ مؤذن خود کرے یاپھروہ شخص جسے اس کی اچھی مشق ہو۔ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا(ان خيار عبادالله الذين يراعون‘الشمس والقمر والنجوم‘ والاظلة لذكر الله عزوجل)’’ یقینا اللہ تعالیٰ کےبہترین (پسندیدہ ترین)بندے وہ ہیں جو اللہ کےذکر کےلیے سورج ‘چاند‘ ستاروں اورسایوں کاخیال رکھتے ہیں۔‘‘(المستدرك للحاكم1/51‘والسنن الكبري للبيهقي 1/379،والتلخيص الحبير1/371 وصحيح الترغيب 1/217وقال حسن لغيره، وسلسلة الاحاديث الصحيحة حديث:3440)لیکن افسوس کہ مصروفیت اور مادہ پرستی کی شدید یلغار اس سنت پر عمل پیرا ہونے سےمانع ہے ۔ سایہ دیکھنےاورناپنے کی یہ عملی مشق اورسنت اب تقریبامتروک ہے۔ لیکن موجودہ تقویمات اورکیلنڈربھی توسالہاسال کی محنت شاقہ اورتجربات اور مشاہدات ہی کانتیجہ ہیں‘خصوصا جدید سائنسی تحقیقات نےتواس دشوار امر کو مزید آسان تربنادیا ہے ‘لیکن اس کےباوجود ان تقویمات میں غلطی کاامکان رہتاہے ‘اس لیے (خير الهدي هدي محمدﷺ)’’بہترین طریقہ طریقہ محمدی ہے ۔‘‘لہذا دنیا کے کسی ملک یاخطے میں اگر زوال شمس دیکھنے کی ضرورت ہوتو ایک سیدھی لکڑی یاسرویاوغیرہ سورج ڈھلنے سےقبل زمین میں بالکل سیدھا گاڑھ دیا جائے‘پھر دیکھا جائے اگر بدستور سایہ گھٹ رہا ہے تواس کامطلب ہے کہ ابھی سورج نہیں ڈھلا اور اگر کم ہوتے ہوتے ایک جگہ پر رک جائے ‘ پھر کم ہو نہ زیادہ توجان لیجیے یہ عین استواء شمس ہے جسے نصف النہار بھی کہا جاتا ہے ۔ وہاں نشان لگائیے ‘یہ سایہ اصلی ہوگا۔ زوال کایہ وقت چند لمحے ہی رہتاہے ۔ اس کےبعد سائے میں جونہی کچھ اضافہ ہوتواس کامطلب ہے کہ اب سورج ڈھل گیا ہے او رنماز ظہر کےوقت کاآغاز ہوچکاہے ۔ وقت عصر کی ابتداء معلوم کرنی ہوتو جب اس لکڑی یا سریے کاسایہ ‘سایہ اصلی کے علاوہ ٹھیک ان کی ایک مثل ‘یعنی لکڑی یاسریے وغیرہ کی لمبائی کےبرابر ہو چکا ہوتو یہ مثل اول اوروقت عصر کاآغاز ہے ۔معرفت زوال کی مزید تفصیل کےلیے دیکھیے(الاوسط لابن المنذر2/328‘والمغني لابن قدامة:1/414وذخيرة العقبي شرح سنن النسائي 6/492)انتہائے وقت ظہر:نماز ظہر کےآخری وقت میں علماء کا اختلاف ہے ۔ جمہور اہل علم کاموقف یہ ہے کہ جب ہرچیز کاسایہ ‘سایہ اصلی نکالنے کےبعد اس کےبرابر‘یعنی ایک مثل ہوجائے تو ظہر کاوقت اورعصر کاوقت شروع ہوجاتاہے ۔امام ابن منذر نے اسی قول کو صحیح ترین قراردیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل کابھی یہی موقف ہے دیکھیے (الاوسط 2/327‘328‘والمغني 1/416)امام نووی نےبھی اسی قول کو ترجیح دی ہے ۔(المجموع 3/34) ابن عبدالبرمالکی فرماتےہیں (واختلفوا في آخر وقت الظهر‘فقال مالك واصحابه ‘آخر وقت الظهر اذا صار ظل كل شئ مثله بعد القدر الذي زالت عليه الشمس‘ وهو اول وقت العصر بلافصل‘ وبذلك قال ابن المبارك وجماعة)’’ظہر کےآخری وقت کے بارےمیں علماء کااختلاف ہے ۔ امام مالک اوران کے اصحاب کاقول یہ ہے کہ جب سایہ زوال کےبعد ہرشے کاسایہ اس کی مثل ہوجائے تویہ ظہر کاآخری وقت ہے اوریہ بغیر کسی وقفے کےعصر کاوقت اول ہے۔ یہی قول ابن مبارک اورایک جماعت کاہے۔ ‘‘( التمهيد 8/73،74 طبعة المکتبہ القدوسية)صحیح اورصریح احادیث کی روشنی میں یہی مذہب حق اور راجح ہے ۔ بالاختصار چند دلائل ملاحظہ فرمائیں۔1۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نبی اکرمﷺ کےحوالے سےنقل کرتےہیں کہ آپ نے فرمایا(وقت الظهر اذا زالت الشمس ‘وكان ظل كطوله ‘مالم يحضر العصر)’’ظہر کاوقت اس وقت ہوتاہے جب سورج ڈھل جائے اورآدمی کاسایہ اس کےقدکےبرابر ہوجائے‘ جب تک کہ عصر کاوقت(شروع)نہ ہو۔‘‘ (صحيح مسلم‘ المساجد‘ حديث:612)یعنی زوال شمس سے لے کر ایک مثل تک ظہر کاوقت باقی رہتا ہے ۔ اس کےبعد عصر کاوقت شروع ہوجاتا ہے ۔2۔حضرت ابن عباسؓ سےامامت جبریل کےمتعلق حدیث مروی ہے کہ آپﷺ نےفرمایا(وصلي بي العصر حين كان ظله مثله)’’اوراس نے مجھے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب اس کاسایہ اس کےمثل ہوگیا‘‘(سنن ابي داؤد‘ الصلاة‘ حديث:393)3۔حضرت ابوہریرہ سےبھی امامت جبریل کےمتعلق یہ صراحت موجود ہے (ثم صلى العصر حين راي الظل مثله)’’پھر جبریل نےعصر کی نماز پڑھائی ‘جب اس نےدیکھا کہ سایہ ایک مثل ہوگیا ہے۔‘‘(سنن النسائي ‘المواقيت ‘حديث:503)4۔حضرت جابر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نےاوقات نمازپنجگانہ کےحوالے سے ایک سائل کےجواب میں اسے اپنے ساتھ نماز پڑھنے کاحکم دیا اورعصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہرچیز کاسایہ اس کےبرابر ہوگیا۔ (سنن النسائي ‘المواقيت ‘حديث:505)
5۔حضرت ابومسعود سےبھی امامت جبریل کےحوالے سےیہ صراحت ملتی ہے کہ جونہی سورج ڈھلا‘ آپ ﷺ نےنماز ظہر پڑھ لی‘ پھر جب ہرچیز کاسایہ اس کےمثل ہوگیا تو نماز عصر پڑھی(السنن الكبري للبيقهي1/365)مذکورہ صحیح اورصریح احادیث سےمعلوم ہواکہ ظہر کاآخری وقت ایک مثل تک ہے ۔ اس کےبعد عصر کا وقت شروع ہوجاتاہے ۔ اس کےبرعکس دوسرا قول امام ابوحنیفہ کاہے کہ ظہر کاوقت دومثل تک رہتا ہے ۔ ان کا استدلال حضرت انس اورابوذرؓ سےمروی ان احادیث سے ہے جن میں نماز ظہر کوٹھنڈا کرکے پڑھنے کاحکم ہے یاصحیح بخاری کی حدیث(مثلكم ومثل اهل الكتاب قبلكم)حدیث:2268) سے ہے جس میں اہل کتاب کی مزدوری کاذکر ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان احادیث میں یہ صراحت کہاں ہے کہ ظہر کاوقت مثلین تک باقی رہتا ہے یاعصر کااس وقت تک آغاز نہیں ہوتا؟امام نووی نے امام ابن منذر کےحوالے سےنقل کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے سوااس بات کا کوئی قائل نہیں ۔دیکھیے (المجموع 3/25) لیکن احناف نے فرط عقیدت وتقلید میں امام صاحب کی اس مرجوح اور بے دلیل رائے کی تقویت کےلیے بہت سی صحیح اورصریح احادیث تختہ مشق بناڈالیں۔ محتمل دلائل کی آڑ میں ان صریح نصوص صحیحہ کی پرواتک نہیں کی ۔ بدستور تاویلات باردہ سےان کا دفاع کرتے رہے اور ہنوز کرر ہے ہیں۔ ملاحظہ ہو(فتح الملہم 4/297۔307) محبان سنت اصحاب العلم کایہ وتیرہ نہیں ہوتا۔ امام صاحب کی فضیلت ومنقبت اپنی جگہ ‘ لیکن تھے تو وہ بھی انسان ‘یہت سےمسائل میں ان کارجوع ثابت ہے ۔
یادرہے! امام صاحب سے ایک رائے جمہور کےموقف کےمطابق بھی ملتی ہے ‘صاحبین (ان کے شاگردان رشید)کاموقف بھی وہی ہے لیکن ان کے اس فتوے کی بنیاد امام صاحب کی رائے نہیں بلکہ صریح احادیث ہیں ۔ بہر حال علمائے احناف کی اسی قسم کی تاویلات باردہ سے دل برداشتہ ہوکر حافظ ابن قیم نےاس رویے کو رد سنت سے تعبیر کیا ہے ‘پھر انہوں نے نماز عصر کےآغاز کےمتعلق مختصر اورعمدہ بحث کی ہے جس کاماحصل یہی ہے کہ ایک مثل پر اس کاوقت شروع ہوجاتاہے ۔دیکھیے (اعلام الموقعین:2/364۔365)یہی وجہ ہے کہ احناف کی تاویلات باردہ اورکھوکھلی دلیلوں کاتجزیہ کرنے کےبعد بالاآخر گرامی قدرمولانا تقی عثمانی نے حقیقت پسندی کاثبوت دیتےہوئے تسلیم کیا ہ کہ حدیث جبریل میں صراحتا پہلے دن عصر کی نماز مثل اول پر پڑھنے کاذکر موجود ہے جس سےمعلوم ہوتا ہے کہ مثل اول پر ظہر کےوقت کااختتام ہو جاتا ہے فرماتےہیں ’’مثلین پر ظہر کاوقت ختم ہونے کے سلسلہ میں عموما احناف کی طرف سےبھی تین دلیلیں پیش کی جاتی ہیں‘ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی حدیث بھی اوقات کی تحدید پر صریح نہیں ہے ۔ اس کے برخلاف حدیث جبریل میں صراحتا پہلے دن عصر کی نماز مثل اول پرپڑھنے کاذکر موجود ہے ‘اس لیے یہ حدیثیں حدیث جبریل کامقابلہ نہیں کرسکتیں ‘اسی بناپر بعض احناف نے مثل اول والی روایت کولیا ہے ۔ (كمافي الدرالمختار...(درس ترمذي 1/396‘ ناشر مكتبة دار العلوم ‘كراچی)اکابرعلمائے احناف کی انتہائے وقت ظہر کےمتعلق تحقیقات: امام محمد امام ابوحنیفہ کے بلاواسطہ شاگرد ہیں ‘وہ فرماتےہیں (نقول اذا زاد الظل علي المثل فصار مثل الشئ و زياة حين زالت الشمس فقد دخل وقت العصر)’’ہم کہتے ہیں کہ جب سایہ ایک مثل سے کچھ اوپڑ بڑھ جائے اور وہ زوال شمس کےوقت سے لے کر کسی چیز کےایک مثل اوراس سے کچھ زیادہ ہوتو عصر کاوقت داخل ہوجاتا ہے ۔‘‘ (موطا امام محمد‘ص:43‘44)صاحب قدوری لکھتے ہیں(قال ابويوسف ومحمداذاصار ظل كل شيئ مثله)’’جب ہرچیز کاسایہ اس کی مثل (برابر)ہوجائے تو امام ابویوسف اورامام محمد کا کہنا ہےکہ عصر کاوقت داخل ہوجاتاہے ۔‘‘(القدوري مع التنقيح الضروري‘ص:19)اسی لیے شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث فرماتےہیں’’اس مسئلہ میں تمام امام مجتہد ایک طرف ہیں اور اکیلے امام ابوحنیفہ بنابرمذہب مشہور کے ایک طرف‘یہاں تک کہ امام محمد اورابویوسف شاگرد ان کے بھی‘ اس مسئلہ میں ان سے الگ ہیں اور اکیلے امام ابوحنیفہ سےیہ مشہور ہے کہ دومثل تک وقت ظہر کاباقی رہتا ہے اورعصر داخل نہیں ہوتی مگر بعد دو مثل کے۔ ‘‘ (معيار الحق ‘ص:266‘طبع جديد)قاضی ثناءاللہ پانی پتی اپنی تفسیر میں فرماتےہیں(واما آخروقت الظهر فلم يوجد في حديث صحيح ولاضعيف انه يبقي بعد مصير ظل كل شيئ مثله‘ ولذا خالف ابا حنيفة في هذه المسئلة صاحباه‘ ووافقا الجمهور )’’جہاں تک ظہر کےآخر وقت کی بات ہے توکسی صحیح یاضعیف حدیث میں یہ نہیں ملتا کہ ہرشے کےسائے کےایک مثل ہونے کےبعد بھی وہ باقی رہتاہے ‘ اس لیے اس مسئلے میں ان دونوں شاگردوں نے ان کی مخالفت اورجمہور کی موافقت کی ہے۔ ‘‘ (تفسير مظهري‘سورة النسآء3/103)علامہ نیموی فرماتےہیں(واني لم اجد حديثا صريحا صحيحا او ضعيفا يدل على ان وقت الظهر الي ان يصي الظل مثليه)’’مجھے ایسی کوئی صحیح صریح یاکوئی ضعیف حدیث نہیں ملی جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ ظہر کاوقت سائے کےدومثل ہونے تک رہتا ہے ۔ ‘‘ (آثار السنن،ص:53)مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی فرماتےہیں(الإنصاف في هذا المقام ان احاديث المثل صريحة صحيحة‘ واخبار المثلين ليست صريحة في انه لايدخل وقت العصر الي المثلين ‘واكثر اخبار المثلين انما ذكر فيه توجيهة احاديث‘ استنبط منها هذا الامر‘ والامرالمستنبط لايعارض الصريح)’’اس مقام پر انصاف کی بات یہ ہے کہ احادیث مثل‘ صریح اور صحیح ہیں‘ جبکہ مثلین کی احادیث غیر صریح(مبہم) ہیں‘ اس بات میں کہ وقت عصر دومثل تک داخل نہیں ہوتا ۔ مثلین کی اکثراحادیث میں صرف توجیہات کی جاتی ہیں اور استنباط کیاجاتاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ استنباط شدہ امرصریح(بات)کامقابلہ نہیں کر سکتا۔ ‘‘(التعلیق الممجد ،ص:44،درسی نسخہ)بلکہ انہوں نے اس کےبعد برملااس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ صاحب البحر الرائق علامہ ابن نجیم نےاس موضوع پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے بڑی طویل بحث کی ہے لیکن (لم يات بما يفيد المدعي ويثبت الدعوي(’’وہ کوئی ایساثبوت ودلیل پیش کر سکےجومدعا کےلیے مفید ہو اورجس سے ان کادعوی ثابت ہوتا ہو‘ نیز وہ لکھتے ہیں(وقال ابوحنيفة‘ اول وقت العصر من حين يصير الظل مثلين وهذا خلاف الآثار وخلاف الجمهور وهو قول عند الفقهاء من اصحابه وغيرهم مهجور)’’امام ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ جب سایہ دومثل ہوجائے توتب عصر کاوقت اول ہوتا ہے مگر یہ قول آثار واحادیث کےخلاف ہے اورجمہور کےبھی خلاف ہے۔ یہ قول ان کے فقہاء اصحاب(شاگردان) اوران کےعلاوہ دیگر فقہاء کےہاں بھی مہجور ومتروک ہے ۔‘‘(التعلیق الممجد ص:43)مذکورہ معروضات سےبخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کاآخری وقت مثل اول پر ختم ہوجاتاہے ۔ مثلین کاقول مرجوع اورناقابل حجت ہے ‘نیز مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ کایہ باورکرانا کہ مثل اول ‘اختتام ظہر اور آغاز عصر کےحوالے سے مشکوک اورغیر یقینی ہے‘محض سینہ زوری ہے۔ ملاحظہ فرمائیے(فتح الملہم 4/304)تنبیہ:امام مالک سے ایک روایت کےمطابق منقول ہے کہ مثل اول پر ظہر اورعصر کاوقت مشرتک ہوتاہے اوریہ اشتراک تقریبا چاررکعات کےبقدر رہتا ہے لیکن یہ قول صریح احادیث کی روشنی میں درست نہیں۔ حضرت ابوہریرہ سےمروی ایک صحیح حدیث میں پانچ نمازوں کے اول وآخر اوقات کی تحدید ہےجس میں ظہر کے آخری وقت کے بارےمیں نبیﷺ نے فرمایا(وآخروقتها حين يدخل وقت العصر)’’ظہر کاآخری وقت وہ جب عصر کاوقت شروع ہوتاہے ۔ ‘‘(جامع الترمذي ‘الصلاة‘ حديث:151)معلوم ہواجونہی عصر کاوقت شروع ہوتاہے‘ ظہر کاوقت ختم ہوجاتا ہے۔ یہ موقف امام مالک‘ شافعی‘ جمہور اورصاحبین کاہے۔ فتح الملهم:4/305‘ودرس ترمذي1/ 395) حدیث جبریل میں دوسرے دن نماز ظہر کےمتعلق جوآتاہے (وصلى بي الظهر في اليوم الثاني حين صار ظل كل شئي مثله)’’جبریل نے مجھے دوسرے دن ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کاسایہ اس کی مثل ہوا۔ ‘‘ اس کایہ مقصد نہیں کہ ایک مثل ہونے پر نماز ظہر کاآغاز کیابلکہ مقصود یہ ہے کہ ایک مثل پر نماز سےفارغ ہوچکے تھے۔امام طحاوی نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے دیکھیے(شرح معاني الآثار 1/149 ‘حاشية ابن عابدين)کیونکہ پہلے دن نبی ﷺ نے جب ایک مثل ہونے پرعصر پڑھی تولازما دوسرے دن ایک مثل ہونے سےقبل نمازظہر سے فراغت ہوئی‘ اس لیے کہ اگر اسی طرح نہ ہوتو انتہائے وقت ظہر کی تحدید نہیں ہوتی جبکہ امامت جبریل سےاولین مقصد یہی تھا اوراس حدیث سے توبالکل اس موقف کی تردید ہوتی ہے جس میں یہ صراحت ہے(وقت الظهر مالم تحضر العصر)’’ظہر کاوقت اس تک تک رہتاہے جب تک عصر کاوقت نہ ہو۔ ‘‘ (صحيح مسلم‘ المساجد‘حديث (172)-612عن عبدالله بن عمرورضى الله عنهما )والله اعلم.امام ابن العربی نےبھی اشتراک ظہرین(ظہروعصر)کےموقف کی تردید فرمائی ہے ۔ اگرچہ (فصلیٰ بی) ’’مجھے نماز پڑھائی‘‘کےدونوں مفہوم ہوسکتے ہیں: آغاز کیایافارغ ہوئے‘ لیکن یہاں فراغت ہی مراد ہے ۔ وہ فرماتے ہیں( لانه ان لم يكن معنى قوله:وصلى بي الظهر..فرغ لم يكن بيان)’’کیونکہ اگر (وصلى بي الظهر) کےمعنی فارغ ہونے کےنہیں یہ (وقت نماز کےلیے) وتحدید) نہیں۔‘‘اسی لیے سختی سےاشتراک ظہرین کی نفی کرتےہوئے فرماتے ہیں( وتاالله مابينهما اشتراك) ’’ اللہ کی قسم !دونوں کےدرمیان اشتراک وقت نہیں ہے۔ ‘‘القبس 1/52)شیخ الاسلام ابن تیمیہ کابھی یہی موقف ہے ۔ دیکھیے (شرح لشیخ الاسلام2/152)امام نووی ی امامت جبریل والی حدیث کی شرح میں فرماتےہیں (معناه:فرغ من الظهر حين صار ظل كل شي مثله وشرع في العصر في اليوم الاول حين صار ظل كل شيئ مثله فلا اشتراك بينهما فهذا التاويل متعين للجمع بين الاحاديث وانه اذا حمل على الاشتراك يكون آخروقت الظهر مجهولا....ولايحصل بيان حدود الاوقات)’’اس حدیث کےمعنی یہ ہیں کہ ظہر کی نماز سےفارغ ہوئے‘ جب ہرچیز کاسایہ اس کےمثل برابر ہوا۔ اورپہلے دن جب ہرچیز کاسایہ اس کےبرابر ہواتوعصر پڑھنا شروع کی تھی۔ اس طرح ان کے مابین اشتراک وقت نہ رہا۔ احادیث کےمابین جمع وتطبیق اورموافقت کےلیے یہ تاویل کرنا ضروری ہے ۔ کیونکہ اگریہ حدیث اشتراک پر محمول کی جائے تو ظہر کاآخری وقت مجہول (نامعلوم )رہے گا....اوراوقات کی حدود کابیان حاصل نہ ہوگا۔ ‘‘(شرح صحيح مسلم للنووي5/154‘تحت حديث612)یعنی اس طرح اوقات کی حدبندی نہیں ہوسکتی۔ شیخ سلام اللہ حنفی نےمحلی شرح موطا میں عدم اشتراک ظہرین کےموقف ہی کی موافقت کی ہے اوراس حوالے سےجمہور کایہ موقف ذکر کیا ہے (معناه:فرغ من الظهر حين صار ظل كل شي مثله فلا اشتراك بينهما وهذا التاويل بين الاحاديث )’’یہاں اس کےمعنی یہ ہیں کہ جب ہرچیز کاسایہ اس کےمثل ہواتوآپ نماز ظہر سےفارغ ہوچکے تھے‘ لہذا اس طرح (ظہرین کےمابین )کوئی شراکت نہ رہی ۔ مختلف احادیث کےمابین تطبیق کےلیے یہ تاویل لازمی ہے ۔ ‘‘ بحوالہ معیار الحق ‘ص:271)
حدیث ابوموسیٰ سےاس موقف کی واضح تائید ہوتی ہے‘ وہ فرماتےہیں(ثم اخر الظهر حتى كان قريبا من وقت العصر بالامس)’’پھرآپﷺ نے نماز ظہر موخر کی یہاں تک کہ گزشتہ کل کےوقت عصر کےقریب قریب وقت ہوگیا۔ ‘‘(صحيح مسلم‘ المساجد‘حديث:614)اس تصریح سےدیگر روایات میں واقع اجمال رفع ہوجاتاہے ‘وہ اس طرح کہ جب عصر کےقریب وقت ہواتو اس وقت ظہر سےفراغت ہوچکی تھی۔ان تصریحات کی روشنی میں یقینا انتہائے وقت ظہر کی تحدید ہوتی ہے اوروہ ہے انتہائے مثل اول لہذا علامہ صنعانی کا(صلى بي الظهر.....حين صار ظل الشي مثله)کے‘مثل اول پر فارغ ہونے کےمعنی وتاویل کو بعید قرار دینا ازخود بعید ازصواب ہے۔ (سبل السلام 1/194)اکثر علمائے احناف نے بربنائے احتیاط اوراشتراک ظہرین کےتردد وشک سے بھاگتےہوئے مثلین ہی کاموقف اختیارکیا ہے (اورایڑی چوٹی کایہ سارا زورصرف امام صاحب سےمنقول ایک مرجوح روایت اورشاذ رائے کی تقدیم واثبات کی خاطر ہے ) کہ مثل اول سے کچھ قبل ظہر کاوقت بالاتفاق قطعی طورپر ثابت ہے اور ایک مثل سےمابعد تک بھی۔ اگرچہ اس اثنا میں عصر کاوقت ہوجاتاہے لیکن مشکوک ہوتاہے ۔ اس کابالیقین وقت تب شروع ہوتاہے جب سایہ دومثل ہوجائے ۔ تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو: (فتح الملہم 4/304)لیکن سوال یہ ہے کہ کیاجبریل نے پہلےدن(نعوذباللہ)مشکوک وقت میں نماز پڑھائی کہ انہیں عصر کےوقت کاقطعی تحقق نہ ہوااورنبی اکرمﷺ نےبھی شک واضطراب کی حالت میں نماز پڑھی کہ جنہیں پوری امت کےلیے نمونہ قرار دیا گیاہے جبکہ یہ نماز تھی بھی بطور تعلیم اورتحدید وقت کےلیے ‘ مزید برآں یہ کہ اس ترددوشک پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ بھی خاموش رہا اورجبریل اورنبی کو اس مشکوک عمل پر برقرار رکھا اورکوئی تنبیہ نہ فرمائی ؟والعیاذ باللہ..اس طرح تو گویا جس مقصد کےلیے جبریلکی تشریف آوری ہوئی ‘وہ بھی پورا نہ ہوا۔ الغرض مثل اول کی اختتامی اوروقت عصر کی ابتدائی گھڑیوں کومشکوک قراردے کر احتیاط امام ابوحنیفہ کےقول وعمل میں نہیں جنہیں واجب التقلید سمجھ لیا گیا ہے بلکہ احتیاط اس معصوم ہستی کےاعمال واقوال اپنانے میں ہے جوشریعت کے بارےمیں اپنی مرضی سےکبھی لب کشائی نہیں کرتی ۔ ﷺمسئلہ تعجیل وابراد: گزشتہ صفحات میں تعجیل ظہر دلائل کی روشنی میں افضل قرار دی گئی ہے ۔ اس پر علماء کااجماع ہے اوراس کی تصدیق اس سےبھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ خودبھی اس کااہتمام فرمایا کرتےتھے(كان رسول اللهﷺ يصلي الظهر بالهاجرة )صحيح مسلم‘المساجد‘حديث:646)لیکن کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں ابراد‘یعنی نماز ظہر کو ٹھنڈک میں پڑھنے کی تلقین ہے‘ مثلا: حضرت ابوذر کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرمﷺ سفرمیں تھے ‘ جب مؤذن نے ظہر کی اذان دینے کاارادہ کیا تو آپ نےفرمایا’’ٹھنڈک ہونےدو۔ ‘‘پھرمؤذن نےاذان دینے کاارادہ کیا توآپ نے فرمایا’’ٹھنڈک ہونے دو۔ ‘‘یہاں تک ہم نے ٹیلوں کاسایہ دیکھا ‘اس کےبعد آپﷺ نے فرمایا(ان شدة الحرمن فيح جهنم فاذا اشتدالحر فابردوا بالصلاة)بلاشبہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ کاحصہ ہے ‘لہذا جب گرمی زیادہ ہوتو نماز (ظہر)ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ ‘‘ صحيح البخاري‘مواقيت الصلاة‘حديث:539)نیز ابوسعید خدری وغیرہ سےبھی حدیث ابراد مروی ہے۔ دیکھیے(صحيح البخاري‘مواقيت الصلاة‘حديث:538)مزید جن سےیہ روایت مروی ہے ‘ امام ترمذی نےوفی الباب میں ان کاذکر کیاہے ۔ دیکھیے: (جامع الترمذي‘الصلاة‘حديث:157)یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ شدت حرارت کی وجہ سے جہنم نے اللہ عزوجل سےشکایت کی کہ’’میرا کچھ حصہ دوسرے کو کھا گیا ہے ۔ ‘‘تواسےدوسانسوں کی اجازت ملی: ایک گرمی میں ایک سردی میں۔‘‘ (صحيح البخاري‘بدالخلق ‘حديث:3260‘ وصحيح مسلم‘ المساجد‘حديث:617)لہذا یہ گرمی اورسردی حقیقت میں جہنم ہی کاحصہ ہیں ۔ اگرچہ بعض علماء نےیہاں اوربھی مفاہیم بیان فرمائے ہیں لیکن اقرب الی الصواب اورظاہر الفاظ کےزیادہ موافق یہی معنی ہیں۔نبی اکرمﷺ نے اس قسم کی احادیث ابراد(ٹھنڈک کرنا) میں تاخیر کاحکم صرف اسی وجہ سے دیا ہے‘ نیز یہ حکم عموم علت کی وجہ سے ہرفرد کےلےی ہے‘ تخصیص کی ضرورت نہیں۔ امام ترمذی فرماتےہیں، اہل علم کی ایک جماعت نے شدید گرمی میں نماز ظہر کوموخر کرناپسند کیاہے ۔ یہ قول ابن مبارک‘ احمد اوراسحاق کاہے ۔ امام شافعی فرماتےہیں کہ نماز ظہر کےلیے حکم ابراد اس شخص کےلیے ہے جو مسجد میں دور سےآتا ہو‘ وہ شخص جواکیلے یاقبیلے کی مسجد میں نماز پڑھتا ہوتو میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ شدید گرمی میں وہ نماز لیٹ نہ کرے۔ امام ترمذی فرماتےہیں ’’جس کاموقف شدیدگرمی میں تاخیر ظہر کاہے ‘ وہی اولیٰ اوراتباع سنت کےزیادہ موافق اورلائق ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي‘الصلاة‘ حديث:157‘ تحت حديث: 533‘534)بہرحال اس رخصت میں مقیم‘ مسافر‘ منفرد یاباجماعت نماز پڑھنے والے سبھی افراد داخل ہیں کیونکہ (ان شدة الحر من فيح جهنم)کی علت عام ہے۔
ابرادکےمعنی ومفہوم اورحد: علامہ زمخشری اس کی توضیح کرتےہوئے فرماتےہیں( حقيقة الابراد الدخول في البرد)’’ ٹھنڈک کےوقت داخل ہونے کو ابراد کہتےہیں ۔‘‘ نیز(اذا اشدالحر فابردوا بالصلاة)کی توضیح میں وہ فرماتےہیں(صلوها اذا انكسر وهج الشمس بعدالزوال)’’بعد اززوال جب سورج کی شدت کم ہوجائے تواس وقت یہ نماز پڑھو۔ ‘‘ مزید فرماتےہیں جب عرب کسی سفر پرہوتے ‘سورج ڈھل جاتا اورہوائیں چلنا شروع ہوجاتیں توآپس میں پکار اٹھتےاب تم ٹھنڈک میں کوچ کرو۔ (الفائق ‘ص:89‘ طبع المكتبة العصرية ‘ وفتح الباري2/16‘تحت حديث: 533‘534)علامہ خطابی فرماتےہیں (معني الابراد في هذا الحديث انكسارشدة حرالظهيرة)’’ اس حدیث میں ابراد سےمراد دوپہر کےوقت شدت گرمی کاٹوٹناہے ۔‘‘ (معالم السنن1/111)احادیث میں حکم ابراد سےمقصود حقیقتا ٹھنڈک میں نماز ظہر پڑھنا نہیں بلکہ شدیدگرمی میں نسبتا تاخیر مراد ہے کیونکہ حرارت میں کمی آجانا بھی شدید دھوپ کی نسبت ٹھنڈک ہی ہے ۔ اسی تاخیر کو ابراد سےتعبیر کیا گیا ہے ‘یہ نہیں کہ حقیقتا ٹھنڈک کاانتظار کیا جائے ‘وہ تو یقینا عصر بلکہ اس کےبعد تک بھی نہیں ہوتی ۔ کلام عرب سے اس مفہوم کی تصدیسق ہوتی ہے ۔ مزید دیکھیے(عمدة القاري5/29‘ تحت حديث: 533‘534)الغرض گرمی کی شدت کےپیش نظر نماز ظہر میں تاخیر کی جاسکتی ہے ‘بالخصوص سفر میں زیادہ تاخیر کابھی ثبوت ملتاہے ۔ اس کی تائید ابوذر کی درج ذیل حدیث سےہوتی ہے (حتى ساوي الظل التلول)یعنی آپﷺ نےظہر اتنی تاخیر سےپڑھائی کہ سایہ ٹیلوں کےبرابر ہوگیا ۔ ( صحيح البخاري‘ الاذان‘ حديث : 629)نماز ظہر موسم گرما میں کتنی موخر کی جاسکتی ہے؟احادیث کی روشنی میں اس کی تحدید کاصراحت کےساتھ ثبوت نہیں ملتا‘ البتہ کچھ علمائے کرام نے اس کی تحدید بھی کی ہے۔حافظ ابن حجر فرماتےہیں زیادہ سےزیادہ ٹھنڈک میں پڑھنے کےبارےمیں علماء کااختلاف ہے ایک قول یہ ہے کہ جب سایہ زوال کےبعد سایہ ایک ہاتھ ہوجائے ۔ بعض نے ربع قامت(قدکا چوتھائی )کہا ہے ۔ بعض نے ثلث (تہائی) قامت اوربعض نے نصف قامت وغیرہ ‘ جبکہ مازری نے مختلف اوقات وحالات کااعتبار کیا ہے ۔ صورت حال یہ ہے کہ اختلاف احوال سے اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ابراد آخری وقت تک ممتد نہ ہو۔ (یعنی ظہر اتنی موخر نہ ہوکہ اس کاآخری وقت آن پہنچے اوربجائے ظہر کے عصر محسوس ہونے لگے( فتح الباري2/20‘21‘تحت حديث:539)البتہ سنن ابوداؤد اورسنن نسائی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود سےمروی حدیث سے اس کی تاخیر کاکچھ اندازہ ملتاہے ‘وہ فرماتےہیں (كان قدرصلاة رسول الله ﷺالظهر في الصيف ثلاثة اقدام الي خمسة اقدام‘ وفي الشتاء خمسة اقدام الى سبعة اقدام)’’گرمیوں میں نبی اکرمﷺ کی نماز ظہر کا اندازہ یہ ہوتا تھا کہ انسان کاسایہ تین قدم سےلے کر پانچ قدم تک اورسردیوں میں پانچ سے سات قدم کےمابین ہوتا تھا۔ ‘‘(سنن ابي داؤد‘ الصلاة‘ حديث:400‘وسنن النسائي‘المواقيت حديث: 504)تنبیہ: جس انسان کاسایہ دیکھا جائے‘ قدم بھی اسی کےہونے چاہئیں اوراس سائے میں اصل اورزائد دونوں سائے شمار کیےجائیں جیسا کہ علامہ سیوطی اورعلامہ سندھی نےسنن ابوداؤد اورسنن نسائی کےحاشیے میں وضاحت فرمائی ہے ۔ایک اشکال اوراس کاازالہ: یہاں یہ اشکال وارد ہوتاہے کہ نبی اکرمﷺ کےحوالے سے تویہ آتاہے کہ آپ نماز ظہر سخت دھوپ میں پڑھا کرتےتھے جیسا کہ حضرت جابر سےمروی ہے (كان النبي ﷺيصلي الظهر بالهاجرة)صحيح البخاري‘مواقيت الصلاة‘ حديث: 560‘ وصحيح مسلم‘ المساجد‘حديث: 646)اس حدیث سےتوبظاہر یوں لگتاہے کہ نبی ﷺ کاروز مرہ کاعمل یہی تھا۔اس کا ایک جواب تویہ ہے کہ تعجیل ظہر کی احادیث پہلے کی ہیں‘یعنی نبی اکرمﷺ شروع شروع میں نماز ظہر سورج ڈھلتے ہی پڑھ لیتےتھے‘ خواہ دھوپ کتنی ہی شدید ہوتی۔ بعد میں آپﷺ نےسخت دھوپ میں نماز پڑھنے کی بجائے کچھ ٹھنڈک میں پڑھنے کاحکم دیا۔ نسخ کایہ موقف امام طحاوی وغیرہ کا ہے ۔ (شرح معاني الآثار: 1/187‘188‘وفتح الباري تحت حديث:2/17)نیز خلال نےامام احمد سےنقل کیا ہےکہ انہوں نے فرمایا (هذا الامرين من رسول الله ﷺ)’’حکم ابراد نبیﷺ کاآخرکاحکم ہے۔‘‘(فتح الباری 2/17)اس موقف کی توثیق حضرت مغیرہ شعبہ کی حدیث سےہوتی ہے جس میں وہ فرماتےہیں(صلى بنارسول اللهﷺ الظهر بالهجير ‘ثم قال: ان شدة الحر من فيح جهنم فابردوا بالصلاة)’’رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز ظہر سخت دھوپ میں پڑھائی‘ اس کےبعد فرمایا یقینا شدت حرارت جہنم کی لپٹ کاحصہ ہے ‘ اس لیے نمازٹھنڈک میں پڑھا کرو۔‘‘ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ‘ اس لیے نسخ کایہ قول مرجوح ہے ۔ دیکھیے: (الضعيفة للالباني2/362)دوسر اجواب یہ ہے کہ شدیدگرمی میں تعجیل ظہر کی نسبت اس میں تاخیر مستحب ہے ۔ جمہور ائمہ اسلام کایہی موقف ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے(شرح صحيح مسلم للنووي5/163‘وفتح الباري2/16‘ تحت حديث : 533‘ 534‘ ومحلى ابن حزم 3/182)جہاں تک حدیث خباب کاتعلق ہے جس میں وہ فرماتےہیں (شكونا الى رسول الله ﷺالصلاة في الرمضاء فلم يشكنا)’’ہم نےرسول اللہﷺ کی خدمت میں سخت گرم ریت میں نماز پڑھنے کاشکوہ کیا توآپ نے اس کاازالہ نہ کیا۔ ‘‘(صحيح مسلم‘ المساجد‘ حديث:619)اس سےبھی اگرچہ بظاہر تعارض معلوم ہوتاہے لیکن حقیقت میں یہ احادیث ابراد کےمخالف نہیں۔حافظ ابن حجر اس اشکال کےجواب میں فرماتےہیں کہ یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ انہوں نے وقت ابراد کی رخصت سےمزید تاخیر کامطالبہ کیا تھا اور وہ اس حدتک کہ ریت کی گرمی زائل ہوجائے‘ جبکہ اس طرح خروج وقت لازم آتا تھا‘ اس لیے نبیﷺ نے انہیں جوا ب نہیں دیا۔ یاپھر یہ حدیث ٹھنڈک میں نماز پڑھنے والی احادیث سےمنسوخ ہے کیونکہ وہ بعد کی ہیں۔‘‘دیکھیے(فتح الباری2/17)الحاصل:تاخیر کے ساتھ نماز ظہر پڑھنے کاحکم صرف شدید گرمی کے ساتھ مشروط ہے ۔ اگرموسم معتدل ہویاگرمی شدت اختیار کیے ہوئے نہ ہو یاموسم سرما ہوتو نماز ظہر اول وقت ہی میں پڑھنا افضل ہے ۔ نبی ﷺ کایہی معمول تھا۔ حضرت انس فرماتےہیں(كان رسول الله ﷺاذا كان الحر ابرد بالصلاة واذا كان البرد عجل) ’’جب گرمی ہوتی تو اللہ کےرسول اللہﷺ نماز ٹھنڈک میں پڑھتے اورجب سردی ہوتی توجلدی کرتے۔ ‘‘(سنن النسائي ‘المواقيت ‘حديث:500)مولانا ظفر احمد عثمانی نے اس حدیث سے یہی استدلال کیا ہے (دیکھیے (اعلاء السنن1/35) نیز اس حدیث میں صرف گرمی ہی مراد نہیں بلکہ شدت کی گرمی مراد ہے ۔ اس کی تصریح سیدنا انس ہی سےمنقول صحیح بخاری کے ان الفاظ سےہوتی ہے ‘ وہ فرماتےہیں (كان النبي اذا اشتد البرد بكر باالصلاة واذا اشتد الحر ابرد بالصلاة)(صحيح البخاري‘الجمعة‘ حديث: 906)’’جب سخت سردی ہوجاتی تو نبی اکرمﷺ نمازظہر جلد پڑھتے اور جب سخت گرمی پڑتی توآپﷺ نماز ظہر ٹھنڈک میں ادا فرماتے۔ ‘‘جبکہ ہمارے ہاں احناف ‘گرمی ہے ۔ یاسردی ہے اس کی ایک ہی وردی ہے ‘کہ مصداق دیگر نمازوں (فجراورعصر) کی طرح نماز ظہر بھی ہرموسم میں ہمیشہ تاخیر ہی سے پڑھتے ہیں۔ الا ماشاءالله ‘ والله المستعان.وقت کی ابتداوانتہا: صحیح اورصریح نصوص کی روشنی میں وقت عصر کاآغاز اس وقت ہوتاہے جب سایہ اصلی کے بغیر مثل اول اختتام پذیر اور مثل ثانی کاآغاز ہو۔ یہ عصر کاافضل وقت ہے‘ اگرچہ وقت جواز غروب آفتاب تک رہتا ہے ۔ تفصیل کےلیے ’’انتہائے وقت ظہر‘‘کےتحت ضمنا یہ بحث دیکھی جاسکتی ہے‘لہذا تاخیر عصر کاقول اورمزید برآں یہ کہ اسے مستحب بھی باورکرانا‘ اپنی تمام ترکٹ حجتیوں کےباوجود ساقط الاعتبار ہے‘ اس لیے بلاعذر تاخیر عصر غیر مستحب ہے۔ نبی اکرمﷺ کی سنت تعجیل عصر ہی ہے۔ رافع بن خدیج فرماتےہیں(كنا نصلي العصر مع رسول الله ﷺثم تنحر الجزور فنقسم عشر قسم ‘ثم نطبخ فنا كل لحما نضيجا قبل مغيب الشمس)’’ہم رسول اللہ ﷺ کےساتھ نماز عصر پڑھتے‘ پھراونٹ ذبح کرتے اوراسے دس حصوں میں تقسیم کرتے‘ پھر اسے پکاتے‘ بعدازاں غروب آفتاب سےقبل پکا ہواگوشت کھاتے۔‘‘(صحيح البخاري‘الشركة‘حديث:2485‘وصحيح مسلم‘ المساجد ‘حديث:625)غور فرمائیں ! کیایہ سب کچھ دومثل کےبعد ممکن ہے؟ حضرت انس سےمروی ہے کہ ہمیں رسو ل اللہﷺ نےنماز عصر پڑھائی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے توبنوسلمہ کاکوئی آدمی آیا اوراس نے کہا: اےاللہ کےرسول ! ہم اونٹ ذبح کرناچاہتےہیں‘ ہماری تمناہے کہ آپ تشریف لائیں‘آپ تشریف لائیں‘ آپ ﷺ نےفرمایا:ٹھیک ہے۔ آپ چل دیے اورہم بھی آپ کےساتھ چلے۔ دیکھا توابھی تک اونٹ ذبح نہیں ہوئے تھے‘ چنانچہ انہیں ذبح کیا گیا ‘ پھر انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیاگیا ‘ پھر ان میں سے کچھ پکایا گیا‘ پھر ہم نے وہ کھایا جبکہ ابھی تک سورج غروب نہیں ہوا تھا۔ (صحيح مسلم‘ المساجد‘ حديث:624)انس بن مالک فرماتےہیں (كان رسول اللهﷺ يصلي العصر‘ والشمس مرتفعة حية فيذهب الذاهب الى العوالي فياتيهم والشمس مرتفعة)’’رسول اللہ ﷺنماز عصر اس وقت پڑھتے جبکہ سورج بلند اورزندہ (روشن) ہوتا اور(عصر پڑھ کر) جانے والاعوالی مدینہ کی طرف جاتا اوران کے پاس پہنچتا جبکہ سورج ابھی بلند ہوتاتھا۔ ‘‘(صحيح البخاري‘مواقيت الصلاة‘ حديث:550‘وصحيح مسلم‘ المساجد‘جديث: 621)حضرت عبداللہ بن عمرو کی حدیث میں ہے (ووقت العصر مالم تصفر الشمس....) ’’اورعصر کاوقت (باقی رہتا) ہےجب تک سورج زرد نہ ہو۔‘‘(صحيح مسلم‘ المساجد‘حديث: 612)رسول اللہﷺ نےحضرت جبریل کےحوالے سےفرمایا(وصلى بي العصر حين كان ظله مثله)’’اس نے مجھے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب اس کاسایہ اس کےمثل ہوا۔‘‘ سنن ابي داؤد‘ الصلاة‘ حديث:393)حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں بھی عصر کےاول وآخروقت کی تحدید موجود ہے کہ کاوقت اول وہ ہے جب وہ داخل ہوتاہے (یعنی مثل اول کےاختتام پر اس کاآغاز ہوتاہے ) اورآخری وقت اصفرارشمس(سورج کازرد ہوجانا)ہے ۔(جامع الترمذي ‘الصلاة‘ حديث: 151)حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ غروب شمس سےقبل ایک رکعت ملنے سےپوری نماز عصر مل جاتی ہے (ومن ادرك ركعة قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك العصر)’’جس نےغروب آفتاب سے قبل ایک رکعت پالی تواس نےعصر پالی۔ ‘‘(صحيح البخاري‘المواقيت الصلاة‘ حديث: 579‘وصحيح مسلم المساجد‘حديث:608)اس حدیث کایہ مفہوم نہیں کہ عصر کی صرف ایک رکعت ہی پڑھ لینے سے فرض کی ادائیگی ہوجائےگی‘ بلکہ مقصود یہ ہے کہ اس کی یہ نماز بروقت شمار ہوگی اگرچہ باقی تین رکعتیں بدستور نماز جاری رکھتےہوئے بعد تک ادا کی جائیں اوراس پراجماع ہے ۔ تفصیل کےلیے دیکھیے (سبل السلام 1/202)ان الفاظ کے بارےمیں امام نووی فرماتےہیں کہ ان کےظاہری معنی مراد نہیں اوراس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے‘ یعنی ایک رکعت پالینے والا پوری نماز پانے والا نہیں کہ اسے صرف ایک ہی رکعت سے پوری نماز مل جائے اورفرض سے اس کی خلاصی ہوجائے اوروہی ایک رکعت اسےکافی‘ بلکہ یہاں ان الفاظ کی تاویل ضروری ہے ۔ یہاں کچھ الفاظ پوشیدہ مانےجائیں گے۔ اس کی تقدیری عبارت یوں ہوگی(فقد ادرك حكم الصلاة اووجوبها اوفضلها)’’تواس نے نماز کےحکم یا اس کے وجوب یااس کی فضیلت کو پالیا۔ ‘‘دیکھیے(شرح صحيح مسلم للنووي‘حديث :608)مزید یہ کہ سیدہ عائشہ ؓ کی حدیث میں نماز مکمل کرنے کاحکم ہے (فليتم صلاته)’’وہ (بدستور) اپنی نماز کی تکمیل کرے۔ ‘‘(صحيح مسلم‘ المساجد‘حديث:609)سنن نسائی میں یہ الفاظ ہیں(من ادرك ركعة من صلاة من الصلوات فقد ادركها‘ الاانه يقضي مافاته)’’جس نے نمازوں میں سے کسی نماز کی ایک رکعت پالی توتحقیق اس نے وہ نماز پالی مگرجو رکعتیں اس سے رہ گئی ہوں‘ وہ ادا کرے۔ ‘‘ (سنن النسائي‘المواقيت‘ حديث: 559‘ وصحيح سنن النسائي‘حديث: 557‘ مطبوعه مكتبة المعارف)مسند احمد میں یہ حدیث مزید وضاحت سے ہے‘ اس میں ہے (ومن صلى ركعة من صلاة العصر قبل ان تغرب الشمس فلم تفته)’’اورجس نے غروب آفتاب سےقبل عصر کی ایک رکعت پڑھ لی تواس کی یہ نماز فوت نہیں ہوئی (یہ نماز اداشمارہوگی)۔‘‘(مسنداحمد:2/254‘والموسوع‘الحديثية‘مسنداحمد12/445)بہرحال وقت ادا کی آخری امکانی حدیہی ہے ۔عبداللہ بن عمرواورابوہریرہ وغیرہ کی احادیث سےانتہائے وقت عصر کی تحدید ہوتی ہے‘ لیکن بظاہر عبداللہ بن عمروؓ کی حدیث سے انتہائے وقت عصر کی تحدید اصفرارشمس(سورج کےزردہونے) سے قبل تک ہے ۔ روایات کے اس اختلاف کےپیش نظر اگرچہ علمائے سلف کےاس کےمتعلق مختلف موقف ہیں لیکن امام شافعی وغیرہ نےمثلین اوربعض ائمہ نے حدیث عبداللہ کو عصر کےآخری وقت مختار سےمقید کیا ہے‘ ہاں بوجہ عذر اس کاوقت جواز غروب آفتاب تک ہے ۔ اس طرح دونوں قسم کی احادیث معمول بہ رہتی ہیں اور کسی کاترک لازم نہیں آتا۔ مزید تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو(الاوسط 2/330‘333‘والمجموع3/32‘ والمغني1/419‘ والروضة الندية 1/226) لیکن بلاوجہ تاخیر عصر مکروہ ہےجیسا کہ امام ترمذی نےکچھ صحابہ وتابعین سے اس کی کراہت نقل کی ہے ۔ (جامع الترمذي‘ الصلاةحديث:159)اس کی تائید سیدناانس کی حدیث سےبھی ہوتی ہے جوآگے آرہی ہے۔امام ابن منذر تعجیل عصر کےموقف ہی کی تائید کرتےہوئے فرماتےہیں’’یہی مذہب اہل مدینہ کاہے ۔ امام اوزاعی‘شافعی‘احمد اوراسحاق اسی کےقائل ہیں۔ اس قول کی صحت پر احادیث ثابتہ دلالت کرتی ہیں۔‘‘ (الاوسط 2/363)اس کی تصدیق عبداللہ بن مسعود وغیرہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں سب افضل عمل نماز اس کےاول وقت میں ادا کرنا قرار دیاگیاہے۔صلاۃ وسطیٰ کی تعیین: اللہ تعالیٰ نےتمام نمازوں کی محافظت کےساتھ ساتھ’’صلاۃ وسطیٰ‘‘یعنی نمازعصرکی بطور خاص تاکید فرمائی ہے(حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ..)البقرۃ2/238)’’تم سب نمازوں اورخاص طورپر درمیان والی نماز کی حفاظت کرو۔‘‘صلاۃ وسطیٰ کی تعیین میں اگرچہ فقہاء ومحدثین کےمابین خاصا اختلاف ہے لیکن حق یہ ہے کہ اس سے مراد نماز عصر ہے۔ حافظ ابن حجر نےفتح الباری(8/195۔198،تحت حدیث:4533)میں ’’صلاۃ وسطیٰ‘‘کے متعلق علماء کےبیس اقوال ذکرکیےہیں۔ ان کےدلائل کاجائزہ لینے کےبعدحافظ ابن حجر نےاسی قول کےحاملین کاموقف راجح قراردیا ہے۔ احادیث صحیحہ سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے‘ باقی سب اقوال مرجوح ہیں۔ اردودان طبقہ تفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائے(فقه الصلاة ازمنيرقمر:1/694-7066)امام ابن منذر فرماتےہیں (ودلت الاخبار الثابتة على ان صلاة الوسطى صلاة العصر)’’احادیث ثابتہ اسی بات پر دلالت کناں ہیں کہ صلاۃ وسطیٰ سےمراد نماز عصر ہے ۔ ‘‘الاوسط:2/367) خندق کےموقع پر رسول اللہﷺ نےفرمایا تھا ’’اللہ تعالیٰ ان سمیت ان کےگھروں اورقبروں کوآگ سےبھردے کہ انہوں نےہمیں صلاۃ وسطیٰ (درمیانی نماز) سےمصروف رکھا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔‘‘(صحيح البخارى ‘المغازي‘حديث:4111‘وصحيح مسلم‘ المساجد‘حديث:627)غروب شمس کی تصریح سےمعلوم ہواکہ رہ جانی والی یہ نماز ‘نماز عصر تھی۔ علاوہ ازیں صحیح مسلم،حدیث:628میں توبصراحت ’’صلاۃ العصر‘‘کاذکر موجود ہے۔بہرحال نماز عصر میں بلاعذرتاخیر درست نہیں۔ علاء بن عبدالرحمٰن فرماتےہیں کہ میں نماز ظہر پڑھ کر بصرہ میں حضرت انس بن مالک کےگھرآیا۔ ان کاگھر مسجد کےپہلو میں تھا۔ انہوں نے پوچھا کیاتم نےعصر پڑھ لی ہے ہم نےجواب دیا کہ ابھی ہم ظہر سے فارغ ہوئے ہیں۔ سیدناانس نےفرمایا عصر پڑھ لو! جب پڑھ لی توانہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتےہوئے سنا ہے(تلك صلاة المنافق‘يجلس يرقب الشمس‘حتى اذا كانت بين قرني الشيطان قام فنقرها اربعا‘لايذكرالله فيها لاقليلا)’’یہ منافق کی نماز ہے وہ بیٹھا رہتاہے ‘سورج کامنتظر رہتاہے یہاں تک کہ جب وہ شیطان کےدوسینگوں کےدرمیان میں ہوتاہے تو کھڑا ہوتاہے اورچارٹھونگیں مارتاہے اوران چار(رکعات )میں اللہ کاذکر تھوڑاہی کرتاہے۔‘‘(صحيح مسلم‘ المساجد‘حديث:622)عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن بوجہ مصروفیت نمازعصرکچھ لیٹ کردی‘ اس پر عروہ بن زبیر نے انہیں تنبیہ کی اور حضرت ابومسعود کےحوالے سےامامت جبریل والی حدیث بطور دلیل پیش کی۔ مطلب یہ تھا کہ عصر جلدی ہی پڑھنی چاہیے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ مدینے کےامیرتھے اور مصروفیت کی وجہ بھی عوام الناس کےمسائل تھے۔ یہ اشارہ سنن ابوداؤد وغیرہ کی حدیث سےملتاہے (ان عمربن عبدالعزيز كان قاعدا على المنبر‘فاخر العصر شيا)’’عمر بن عبدالعزیز منبرپر تشریف فرماتھے اورانہوں نےعصر کی نماز کچھ لیٹ کردی ۔ ‘‘ (سنن ابي داؤد‘الصلاة‘حديث: 394)معلوم ہوتاہے کہ مستحب وقت سےکچھ تاخیر ہوئی تھی۔یہی خیال علامہ ابن عبدالبر وغیرہ کا ہے ۔دیکھیے(ذخيرة العقبى شرح سنن النسائي6/450)وقت مختار سےعمد انماز لیٹ کرنے کو نبی اکرمﷺ نے اسے’’ماردینے‘‘کےمترادف قراردیاہے۔ حضرت ابوذر سےرسول اللہﷺ نےفرمایا’’ابوذر!تمہارا اس وقت کیاحال ہوگا جب امراء(حکمران )نمازوں کےاوقات سےموخر کرکے یاانہیں موت کےگھاٹ اتار کر پڑھیں گے۔ ‘‘ انہوں نے جوابا کہا آپ کا کیا ارشاد ہے؟تب نبیﷺ نےفرمایا ’’بروقت نماز پڑھ لینا۔ اگران کےساتھ بھی نماز مل جائے توپڑھ لینا‘ یہ نماز نفل ہوگی۔ ‘‘ملاحظہ ہو(صحيح مسلم‘ المساجد ‘حديث: 648)مذکورہ تصریحات سےیقینا یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ عصر کاوقت کب شروع ہوتاہے؟نبی اکرم کی عام عادت مبارکہ کیاتھی اورصحابہ وتابعین کاطرز عمل کیا تھا؟ لیکن اس کے باوجود صریح نصوص چھوڑ کر محتمل اورغیرصریح یاضعیف روایات کی بنیادپر تاخی عصر کو مستحب قرار دینایقینا غیرمعقول اورارہ صواب سےدوری ہے اوراس کی وجہ صرف تقلیدی جموداوراحادیث سےبےاعتنائی ہے۔تاخیر عصر کی یہ رائے امام ابوحنیفہ کی ہے۔ انتہائے وقت ظہر اورابتدائے وقت عصر کےبارےمیں ان سےچار روایات (آراء)منقول ہیں۔ (درس ترمذی1/395) اورہررائے دوسر ی سےمختلف ہے۔ مثلین کی رائے اکثر احناف کےنزدیک معمول اورمفتی بہ ہے امام محمدفرماتےہیں(وبه ناخذ وهو قول ابي حنيفة)’’ہم اسے ہی اختیار کرتےہیں اور یہ ابوحنیفہ کاقول ہے (اعلاءالسنن1/39‘ودرس ترمذي1/395)یعنی امام صاحب کےنزدیک وقت عصر کاآغاز مثلین کےبعدہوتاہے ۔ اس سے قبل نماز پڑھناجائز نہیں۔ تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو(الاوسط1/330)ہاں ‘امام صاحب کی جورائے جمہور اورصحیح صریح احادیث کےموافق ہےاحناف کےہاں متروک ہے اور وہ ہے مثل اول پر ظہر کااختتام اورعصر کاآغاز ۔ان کےہاں امام صاحب کی مفتی بہ اس شاذرائے کےمتعلق امام ابن منذر فرماتےہیں(وهوقول خالف صاحبه الاخبار الثابتة عن رسول الله ‘والنظرغير دال عليه ولانعلم احدا سبق قائل هذا القول الى مقالته وعدل اصحابه عن القول به فبقي قوله منفردا لامعنى له)’’یہ ایساقول ہے جس کےقائل نےنبی اکرمﷺ کی ثابت شدہ احادیث کی مخالفت کی ہے۔ نظروقیاس بھی اس پر دلالت نہیں کرتا۔ ہمارے علم کےمطابق ان سے قبل یہ بات کسی نے نہیں کہی اوران کے اصحاب نےبھی اس قول سے منہ موڑلیاہے‘ لہذا ان کاقول اکیلا ہی رہ گیا ہےجس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ‘‘(الاوسط 2/330)حافظ ابن حجر نےفتح الباری میں فرمایا ہے(ولم ينقل عن احدمن اهل العلم مخالفة في ذلك‘ الاعن ابي حنيفة فالمشهور عنه انه قال: اول وقت العصر مصيرظل كل شئي مثليه بالتثنية قال القرطبي: خالفة الناس كلهم في ذلك حتى اصحابه يعني الآخذين عنه)(فتح الباري‘ باب وقت العصر‘ تحت حديث:546)’’اورکسی اہل علم سے اس میں مخالفت منقول نہیں ہے‘ سوائے امام ابوحنیفہ کے۔ ان کےمشہور قول کےمطابق عصر کااول وقت ہرشےکے سائے کےدومثل ہونے پر ہوتاہے ۔قرطبی نےکہا اس میں سب لوگ ان کے مخالف ہیں یہاں تک کہ ان شاگر بھی‘ یعنی جوان سے (بلاواسطہ )اخذکرنےوالےہیں۔ ‘‘امام نوو عصر کے اول وقت پر دلالت کرنےوالی احادیث کی تشر یح میں لکھتےہیں(وفي هذه الاحاديث وما بعدها دليل لمذهب مالك والشافعي واحمد وجمهور العلماء ان وقت العصر يدخل اذا صار ظل كل شئي مثله‘ وقال ابو حنيفة : لايدخل حتى يصير ظل الشئي مثليه ‘وهذا الاحاديث حجة للجماعة عليه مع حديث ابن عباس في بيان المواقيت ‘وحديث جابر وغير ذلك)’’ان احادیث اوران کےبعد کی احادیث میں امام مالک‘ شافعی‘ احمد اورجمہور علماء کےمذہب کی دلیل ہے کہ ہرشے کاسایہ ایک مثل ہونے پر وقت عصر شروع ہوجاتاہے ۔ اورامام ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ اس وقت تک وقت عصر شروع نہیں ہوتا جب تک کہ سایہ دومثل نہ ہوجائے۔ اوریہ احادیث اوراس کے ساتھ ابن عباس اورحضرت جابر وغیرہ کی احادیث‘ جوکہ بیان اوقات کےمتعلق مروی ہیں‘جمہور کےحق میں اور امام صاحب کےخلاف حجت ہیں۔‘‘(شرح صحيح مسلم للنووي‘ الصلاة‘ تحت حديث:621)شیخ الکل میاں نذیرحسین محدث دہلوی نےشیخ سلام اللہ حنفی سےبھی ان کی شرح موطا کےحوالے سےجمہور کامذکورہ موقف نقل کیاہے جس سے شیخ سلام اللہ کی جمہور کےساتھ موافقت ظاہر ہوتی ہے۔ تفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائیے(معیار الحق ‘ ص:267)ائمہ ومحققین کے ان تبصروں کےبعد اور کیا کہاجاسکتا ہے ؟ان اريد الاالاصلاح مااستطعت‘تاخیرعصر اورافضلیت تاخیر کےقائلین کےاہم دلائل اوران کاتحقیقی جائزہ: مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اہم دلائل کابالاختصار تحقیقی تجزیہ کیاجائے جنہیں حاملین فقہ حنفی اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتےہیں تاکہ احادیث میں بظاہر نظرآنے والا تعارض ختم ہوجائے‘ احناف کےیہ دلائل حسب ذیل ہیں:
1۔محمد بن یزید یمامی کےطریق سےعلی بن شیبان سےمروی ہے ‘ وہ فرماتےہیں (قدمنا على رسول اللهﷺ المدينة فكان يوخر العصر مادامت الشمس بيضآء نقية)’’ہم مدینے میں رسو ل اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ عصر کو اس وقت تک موخر کرتےجب تک سورج سفید اورصاف رہتا۔ ‘‘(سنن ابي داؤد‘الصلاة‘ حديث: 408)وضاحت :یہ حدیث سند اضعیف ہے۔ اس کی سند میں باپ بیٹا‘ محمد اوریزید دونوں مجہول ہیں۔ محمد بن یزید یمامی کو ابن ابی حاتم نے مجہول کہا ہے۔ دیکھیے(الجرح والتعدیل8/128)
حافظ ابن حجر نے تقریب(ص909طبع دارالعاصم)میں ان کےمتعلق حتمی فیصلہ دیتےہوئے انہیں مجہول قرار دیاہے ۔مزیدیکھیے(ميزان الاعتدال 2/70‘ولسان الميزان 5/426‘والمغني 2/387‘ والضعفاء والمتروكين3/107)دوسرے راوی یزید بن عبدالرحمٰن بن علی بن شیبان کےبارےمیں حافظ ابن حجر فرماتےہیں’’مجہول۔ (التقریب،ص1/1079)علامہ ذہبینےمیزان الاعتدال میں (لایعرف)کہاہے ‘لہذا یہ حدیث ناقابل حجت ہے ۔یہ ان صحیح احادیث کےمخالف ہےجن میں عصر کی نماز جلدی پڑھنے کاذکر ہے۔ غالبا اسی مخالفت کی وجہ سے امام نووی نےاسے (باطل لایعرف)کہہ کر رد کردیا ہے کہ یہ حدیث باطل اورغیر معروف ہے۔ دیکھیے(المجموع 3/58)محدث العصر شیخ البانی نےبھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔(ضعيف سنن ابي داؤد(مفصل)للالباني: 9/148)اس لیے صاحب ’’اعلاء السنن‘‘مولانا ظفر احمد عثمانی کااس ناقابل حجت حدیث سےیہ استدلال کرنا درست نہیں کہ یہ حدیث نبی اکرمﷺ کی تغیرشمس سےقبل عصر کی تاخیر کی مواظبت پر دلالت کرتی ہے ۔ (اعلاءالسنن : 2/37)2۔دوسری حدیث جواحناف کےنزدیک تاخیر عصر پر صراحتا دلالت کرتی ہے‘ رافع بن خدیج کی حدیث ہے۔ اس میں ہے کہ رسول اللہﷺ انہیں دیرسے عصر پڑھنے کاحکم فرمایاکرتےتھے (كان يامرهم بتاخير العصر)سنن الدارقطني: 1/558‘طبع جديد‘دار المعرفة‘والسنن الكبري للبهقي: 1/443)وضاحت:یہ حدیث بھی سند اضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل حجت ہے۔ اس کی سند میں عبدالواحد بن نافع یانفیع کلاعی ابورماح متکلم فیہ راوی ہے ۔اس کےبارےمیں امام ابن حبان فرماتےہیں(يروي عن اهل الحجاز المقلوبات وعن اهل الشام الموضوعات ‘لايحل ذكره في الكتب الاعلي سبيل القدح فيه)’’یہ اہل حجاز سےمقلوب اوراہل شام سےموضوع (من گھڑت) روایات بیان کرتاہے ‘کتابوں میں اس کاذکر صرف نقدوجرح کےطورپر جائز ہے ۔‘‘(المجروحین:2/154)امام بخاری بواسطہ موسیٰ بن اسماعیل عبدالواحد بن نافع کےطریق سےمنقول اس روایت کےمتعلق فرماتے ہیں(ولايتابع عليه)’’اس کی متابعت نہیں کی جاتی۔‘‘(التاريخ الكبير5/89)یعنی یہ حدیث بیان کرنے میں عبدالواحدمتفرد ہےاورہے بھی متکلم فیہ۔میزان الاعتدال میں علامہ ذہبی نےامام ابن القطان کےحوالے سے اسے مجہول الحال قراردیاہے (الميزان : 2/677)مزيد(نصب الراية1/245‘والمغني في الضعفاء‘ رقم:3878‘ وتعجيل المنفعة ‘رقم : 675)اس کی مزید وضاحت کرتےہوئے امام دارقطنی اس حدیث کےبعد فرماتےہیں(وهذا حديث ضعيف الاسناد من جهة عبدالواحد هذا‘ لانه لم يروه عن ابن رافع بن خديج غيره...ولايصح هذا الحديث عن رافع ولا عن غيره من الصحابة والصحيح عن رافع بن خديج وعن غير واحد من اصحاب النبي ﷺضد هذا وهو التعجيل بصلاة العصر والتبكيربها)’’یہ حدیث عبدلواحد کی وجہ سے ضعیف الاسناد ہے کیونکہ ابن رافع بن خدیج سےیہ حدیث اس کےسواکوئی اوربیان نہیں کرتا ...صحابہ کرام میں سے یہ حدیث نہ تو رافع سےاورنہ کسی دوسرے صحابی سےصحیح طورپر ثابت ہے ‘ہاں! رافع بن خدیج اوردیگرصحابہ کرام سےجوصحیح طورپر ثابت ہے وہ اس کےبرخلاف ہے‘اوروہ ہے تعجیل عصر‘ یعنی نماز عصرجلد پڑھنا۔‘‘(سنن الدارقطني: 1/558)گویاامام الجرح والتعدیل معروف نقاد حدیث امام دارقطنی کےنزدیک یہ حدیث کسی صحابی سے صحیح سند سےثابت نہیں۔ امام ترمذی نےبھی اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے ۔ انہوں نے تعجیل عصر کےحوالے سے’’وفی الباب‘‘میں مختلف صحابہ کرام کاحوالہ دیتےہوئے آخرمیں فرمایا(فيروي عن رافع ايضا عن النبي ﷺفي تاخير العصر ولايصح)’’رافع بن خدیج سےنبی اکرمﷺ کےحوالے سے تاخیر کی روایت بھی منقول ہےلیکن وہ صحیح نہیں ہے۔ ‘‘(جامع الترمذي‘ الصلاة‘ حديث: 159)امام ترمذی کی اس تصریح کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ’’وفی الباب‘‘میں رافع بن خدیج کےحوالے سے تعجیل عصر کی روایت کااشارہ کیاہے جبکہ ان سے تاخیر عصر کی روایت بھی منقول ہے‘ اس لیے امام صاحب نے اس پر تنبیہ کرناضروری مجھا۔ امام نووی نےبھی اسے ضعیف قراردیا ہے ۔دیکھیے (المجموع :3/58)الحاصل:ائمہ فن کی تصریحات کی روشنی میں یہ روایت بھی مردود اورناقابل حجت ہے۔3۔تاخیر عصر کےقائلین کی تیسری دلیل سیدنا علی کاوہ اثر جوعباس بن ذریح بواسطہ زیاد بن عبداللہ(عبدالرحمٰن) سےمنقول ہے۔ اس میں ہےکہ ہم مسجدالاعظم میں علی کےہمراہ بیٹھےہوئے تھے۔ ان دنوں کو فہ بانس اورلکڑیوں کےچھونپڑوں پر مشتمل تھا۔ مؤذن آیا اور اس نےنماز عصر کےلیے امیر المومنین کو آواز دی۔ آپ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ‘وہ بیٹھ گیا‘ پھر اس نے دوبارہ یہی بات کہی توعلی نےفرمایا یہ کتا ہمیں سنت کی تعلیم دیتا ہے ۔ پھر حضرت علی کھڑےہوئے‘ ہمیں عصر کی نماز پڑھائی ‘اس کےبعد ہم پلٹے اور اسی جگہ چلے گئے جہاں پہلے بیٹھے ہوئے تھے‘ پھر ہم نے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر سورج غروب ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ (سنن الدارقطني: 1/557‘والمستدرك للحاكم :1/192)وضاحت :یہ اثر سند ضعیف ہےکیونکہ اس کی سند میں زیاد بن عبداللہ (یاعبدالرحمٰن نخعی) مجہول العین ہے۔امام دارقطنی اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں:( وزياد بن عبدالله النخعي مجهول، لم يرو عنه غير العباس بن ذريح )زیادبن عبد الله مجہول ہے یہ حدیث اس سے عباس بن ذریح کے سوا کوئی روایت نہیں کرتا۔(سنن الدارقطني: ا/ 556، والميزان: 91)جبکہ امام حاکم نے مذکورہ روایت کے بعد فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن شیخین نے اس کے رواة کو قابل جت سمجھنے کے باوجود اسے ذکر نہیں کیا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ لیکن یہ ان کا وہم ہے کیونکہ مذکورہ راوی مجہول ہے شیخین ایسے راوی کو کب قابل حجت سمجھتے ہیں پھر صرف امام حاکم کی تصحیح بھی تومحل نظر ہے جیسا کہ اس کے متعلق ائمہ فن کی تصریح موجود ہے:( الا تغتر بتصحيح الحاكم)اس روایت پر امام ذہبی کی موافقت بھی تعجب خیز ہے کیونکہ انھوں نے اپنی کتاب ”ديوان الضعفاءوالمتروکین“(۱/ 308 اور ”المغني في الضعفاء“(1/373)وغیرہ میں خود زیاد بن عبد اللہ امام دارقطنی کے حوالے سے مجہول قرار دیا ہے لہذا جس روایت کی سند میں مجہول راوی ہو اور اس کی ٹھوسں متابعت یا شاہد بھی موجود نہ ہو تو وہ کیسےصحیح ہوسکتی ہے؟ نیز علامہ زیلعی پر بھی حیرانی ہے کہ مذکورہ بالا حدیث رافع اور زیر بحث حدیث کے بارے میں علمائے جرح وتعدیل کی تضعيف نقل کرنے کے باوجود بھی اپنے مرجوح موقف کی تائید میں یوں فرماتے ہیں کہ وہ احادیث جو ہمارے موقف کی تائید کرتی ہیں غور فرمائیں! کیسی تائید؟ ہاں ضعیف موقف کی تائید ضعیف احادیث سے۔ پھر اثر علی کے بعد ان کا یہ فرمانا ( وهذا الأثر في حكم المرفوع أو قريب منه)یہ اثر حكما مرفوع یا اس کےقریب قریب ہے۔درست نہیں کیونکہ سند تویہ ساقط الاعتبار ہے۔ دیکھیے : (نصب الراية:1/246)4۔تاخیر عصر کی افضلیت کے قائلین کی چوتی دلیل حضرت ام سلمہؓ ان کی درج ذیل حدیث ہے۔(کان رسول اللهﷺ أشد تعجيلا للظهر منکم، وأنتم أشد تعجيلا للعصر منه)رسول الله تمہاری نسبت ظہر کی نماز بہت جلد پڑھتے تھے اور تم عصران سے بہت جلد پڑھتےہو۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: ۱۷) غور فرمائیں تو حدیث کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ تم ظہر کی نماز نبیﷺ کے معمول سے لیٹ پڑھتےہو جبکہ آپ ﷺ بہت جلد پڑھ لیا کرتے تھے اور تم عصر کی نماز رسول اللہﷺ سے بھی پہلے پڑھتے ہو یعنی تمہاری عصر رسول اللهﷺکی نسبت بھی پہلے ہوتی ہے یہ درست نہیں۔ یہ ہے اس حدیث کا یہ مفہوم۔
الغرض جو حدیث تاخیر عصر کے اسباب کے طور پر پیش کی گئی وہ تو تعجیل عصر پر دلالت کرتی ہے اوراپنے ہی موقف کے خلاف نکلی۔ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔مولانا عبدالحی لکھنوی التعليق الممجد میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یہ حدیث عصر کی نسبت ظہر کچھ زیادہ جلدی پڑھنے پر دلالت کرتی ہے نہ کہ تاخیر عصر کی افضلیت پر دلالت کرتی ہے۔ (بحواله تحفةالأحوذي: ۱/ 424)بہرحال مذکورہ حدیث سے تاخیر عصر کے استحباب پر استدلال کرنا سینہ زوری ہے ۔ سیاق اور الفاظ سے اس مفہوم کی قطعا تائید نہیں ہوتی۔
یہ ہیں وہ چار بنیادی دلیلیں جنھیں احناف اپنے موقف کی تائید میں بڑے زور و شور سے پیش کرتے ہیں۔ پہلی تین دلیلیں تو ضعیف ہیں اور موخر الذکرصحیح لیکن اس سے وجہ استدلال باطل ہے اسی لیے مولانا عبرالحی نے احقاق حق کے پیش نظر تا خیر عصر کی افضلیت پر دلالت کرنے والے پیش کردہ دلائل کا تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے انھیں نا قابل حجت و استناد قرار دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں( ولا يخفى على الماهر ما في الإستناد بها الأحادیث) ان احادیث سے استناد کرنے (حجت پکڑنے) میں( جو کمزوری) ہے اور حدیث پرمخفی ہیں۔ دیکھیے : (التعليق الممجد بحواله تحفة الأحوذي1/421)خلاصہ کلام : عصر کا آغازمثل اول کے اختتام پر ہوتا ہے۔ ظہر اور عصر کے وقت میں کوئی اشتراک نہیں۔ عصر کا وقت مختارمثل اول سے لے کر اصفرار شمس سے قبل تک ہے جبکہ وقت جواز بوجہ عذر غروب شمس سے قبل ایک رکعت پا لینے تک ہے۔ دلائل سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ اس کے برعکس موقف امام ابوحنیفہ کا ہے۔ ان کے نزدیک عصر کا وقت مثلین کے بعد ہوتا ہے۔ اس سے قبل نماز عصر پڑھنا جائز نہیں ان کی یہی رائے مفتی بہ ہے۔ عملا اکثر احناف اسی کے قائل و فاعل ہیں ۔ امام صاحب اپنی اس رائے میں بالکل اکیلے ہیں۔ کتاب وسنت کی کسی صریح دلیل سے ان کے موقف کی تائید نہیں ہوتی۔ یہ موقف صریح روایات کے بالکل مخالف ہے۔ عقیدت مندوں نے اس شازرائے کی توثیق اور اثبات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے جس کی وجہ سے صحیح اور صریح احادیث کوتختہ مشق بنایا گیا حالانکہ اس موقف میں صاحبین بھی اپنے شیخ کے مخالف ہیں ۔ انھوں نے صریح اور احادیث کی روشنی میں جمہور ہی کا موقف اختیار کیا ہے۔یاد رہے! امام ابوحنیفہ سے صریح صحیح احادیث اور جمہور کی رائے کے مطابق بھی ایک رائےمنقول ہے لیکن یہ اتفاق رائے کے حاملین فقہ حنفی کو ایک نظر نہیں بھاتی۔اسی طرزتقلید سے رنجیدہ ہو کر امام ابن قیم نے اس رویے کورد سنت سے تعبیر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو جائے تو عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرام نبی ﷺ کے ساتھ عصر کی نماز پڑھتے تھے پھر کوئی ایک عوالی مقام کی طرف جاتا جو تقریبا چارمیل کے فاصلے پر واقع تھا تو سورج اس وقت تک بلند ہوتا تھا۔ حضرت انس فرماتے ہیں: ہمیں رسول اللہ ﷺنے عصر کی نماز پڑھائی تو بنوسلمہ کا ایک فرد آپ ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! ہم اونٹ دبح کرنا چاہتے ہیں ہماری خواہش ہے کہ آپ بھی تشریف لائیں ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ٹھیک ہے۔ آپ چلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ چل پڑے۔ دیکھا تو اونٹ ابھی تک ذبح نہیں ہوئے تھے چنانچہ اونٹ ذبح کیے گئے انھیں کاٹا گیا اور اس میں سے کچھ گوشت پکایا گیا۔ پھر ہم نے اس میں سے غروب آفتاب سے قبل کچھ کھایا۔ (صحیح مسلم المساجد حديث:624) دومثل کے بعد یہ سب محال ہے۔ صحیح مسلم میں انس ہی سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں: ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک عصر کا وقت نہ ہو۔ (صحیح مسلم، المساجد حديث:(172)612) من حديث عبد الله ابن عمرو ) ان احادیث کی کوئی معارض (مخالف) دلیل نہیں ہے نہ تو صحت میں اور نہ صراحت و بیان میں ۔ لیکن یہ احادیث وسنن اس مجمل حدیث کی وجہ سے رد کر دی گئی ہیں( مثلکم و مثل أهل الكتاب قبلكم(صحیح البخاري، الإجارة حديث :2268)
نیز افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہائے تعجب! اس حدیث میں دلالت کی کون سی قسم ہے کہ عصر کا وقت اس وقت تک شروع نہیں ہوتا جب تک سایہ دومثل نہ ہو جائے۔ یہ حدیث صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت نصف النہار سے عصر تک کے وقت سے کم ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ۔ دیکھیے :(إعلام الموقعين:2/364،365طبعة دار الكتاب العربي)ان اختلافات سے قطع نظر قرآن وحدیث کے عام دلائل کی روشنی میں بھی نیکی کے تمام اعمال میں مسابقت ومسارعت ہی کاحکم ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے(وسارعوا إلى مغفرة من ربكم (آل عمران3/238)اور اپنے رب کی بخشش کی طرف جلدی کرو‘‘ نیز ارشاد ہے: (فاستبقوا الخيرات (البقرۃ:2/14) نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔“ (مزید فرمایا: (والسابقون السابقون أوليك المقربون (الواقعة56/10‘11) ’’اور سبقت لے جانے والے تو سبقت ہی لے جانے والے ہیں ۔ یہی لوگ مقرب ہیں۔ ہاں جواس عام اصول سے دلیل کی بنا پر مستثنی چیز یں ہیں وہ خارج ہوں گی جیسے نماز عشاء کہ اس میں تاخیر افضل ہے اور ظہر کہ شدت حرارت میں ابرا مستحب ہے، جبکہ باقی نمازوں میں تعجیل ومسارعت ہی افضل ہے۔ وبالله التوفيق.مزید دیکھیے : (محلی ابن حزم 3/182)وقت مغرب کی ابتدا و انتہا: جب سورج کی پوری ٹکیہ افق میں غائب ہو جائے تو مغرب کا وقت شروع ہو جا تا ہے۔ حدیث جبریل میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جبریل نے دو دن سورج غروب ہوتے ہی نماز پڑھائی ہے(ثم الله صلى المغرب حين وجبت الشمش..... (جامع الترمذي الصلاة حديث149)حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (إن أول وقت المغرب حين تغرب الشمس و إن آخر وقتها حين يغيب الأفق) ’’مغرب کا اول وقت وہ ہے جب سورج غروب ہوجائے اور آخری وقت جب افق غائب ہو جائے ۔ (جامع الترمذي، الصلاة حديث151)صحیح مسلم میں ہے:( ووقت المغرب مالم يسقط ثورالشفق)اور مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ شفق کی سرخی غائب نہ ہو جائے ۔ (صحیح مسلم المساجد حديث:(172)۔612)امام ابن منذر کے بقول نماز مغرب جلدی پڑھنے پر اہل علم کا اجماع ہے اور یہ افضل ہے۔ وہ فرماتے ہیں(واجمع کل من نحفظ عنه من أهل العلم على أن التعجيل بصلاة المغرب أفضل)الاوسط2/369)سلمہ بن اکوع ب سے مروی ہے(کان رسول اللهﷺ كان يصلي المغرب إذاغربت الشمس و توارت بالحجاب)یقینا رسول اللهﷺ مغرب کی نماز اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج غروب ہو جاتا اور پردے میں چھپ جاتا تھا۔‘‘(صحيح البخاري مواقيت الصلاة حدیث:561و صحیح مسلم المساجد حديث:636 واللفظ له)رافع بن خدیج سے منقول ہے(کنا نصلي المغرب مع النبي ﷺفينصرف أحدنا و أنه ليبصر مواقع نبله)’’ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھا کرتے تھے اور ہم میں سے جب کوئی نماز سے فارغ ہوتا تو اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا۔(صحيح البخاري: مواقيت الصلاة، حديث:559 و صحیح مسلم المساجد حديث:637و إرواء الغليل:1/277)مقصود یہ ہے کہ ابھی تک روشنی ہوتی تھی اندھیرہ نہیں چھایا ہوتا تھا۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ مذکورہ دونوں حدیثیں اس بات کی دلیل ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب جلد پڑھ لینی چاہیے۔ اس بات پر اجماع ہے۔ جن احادیث میں شفق کے غائب ہونے پرنماز مغرب پڑھنے کا ذکر ہے وہ بیان جواز کے لیے ہیں۔ ثانیا: وہ کسی سائل کے جواب میں تھیں۔ اور یہ دونوں احادیث نبی ﷺکی عادت مبارکہ کے بارے میں ہیں جن پر آپ ﷺ سوائے عذر کے مسلسل قائم رہے۔ لہذا انہی پر اعتماد ہو گا ۔ (شرح صحیح مسلم للنووي:5/190تحت حدیث:637)مغنی میں ہے(و إذا غابت الشمس وجبت المغرب ولا يستحب تأخيرها إلى أن يغيب الشفق)جب سورج غروب ہو جائے تو نماز مغرب واجب ہو جاتی ہے اور اسے شفق کے غائب ہونے تک مؤخر کرنامستحب نہیں ہے۔( المغني1/424)لیکن وقت ادا غروب شفق تک رہتا ہے۔معلوم ہوا مغرب کا وقت موسع ہے اور یہی بات راجح ہے۔ احناف کا یہی قول ہے۔ ابن العربی کے نزدیک امام مالک کا راجح قول بھی یہی ہے۔ دیکھیے : (القبس:1/ ۵۸) اور شوافع کا قول محقق بھی یہی ہے۔ دیکھیے : (شرح صحيح مسلم للنووي:5/155، تحت حديث612)الغرض دلائل کی روشنی میں وجوب مغرب کا اول وقت غروب آفتاب ہے نیز راجح قول کے مطابق یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ وقت غروب شفق تک باقی رہتا ہے۔ لیکن یہاں ایک اشکال وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ نبی اکرمﷺکو جبریل نے دو دن غروب آفتاب کے بعد ہی نماز پڑھائی ہے۔ اس سے یوں لگتا ہےکہ مغرب کا وقت موسع (شفق کے غائب ہونے تک وسیع نہیں بلکہ مضيق (تنگ) ہے یعنی اس کی ادائیگی کے لیے صرف یہی وقت ہے۔ لیکن یہ خیال مرجوح ہے۔ علمائے محققین نے اس کا جواب یہ دیاہے کہ حدیث جبریل میں مغرب کے مستحب وقت کا ذکر ہے اور حدیث عبداللہ بن عمرو میں جو آتا ہے (ووقت صلاة المغرب مالم يسقط ثورالشقق) مغرب کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک شفق کی سرخی ختم نہ ہو۔(صحیح مسلم المساجد، حدیث:612) وہ وقت جواز ہے پھر حدیث جبریل میں فعل ہے اور اس میں آپ کا قول ہے۔ یقینا قول وفعل کے تعارض کے وقت قول کو ترجیح ہوتی ہے کما في كتب الأصول ۔ اسی طرح حضرت بریدہ کی حدیث بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے کہ جس میں ایک سائل کے جواب میں نبی اکرم ﷺ عملأ دو دن نماز پڑھ کر سکھائی۔ دوسرے دن جب نماز پڑھائی تو صراحت ہے(وصلی المغرب قبل أن يغيب الشفق) آپ نے مغرب غروب شفق سے قبل پڑھائی۔(صحیح مسلم المساجد حديث:613) پھر یہ بھی ہے کہ حدیث جبریل متقدم یعنی مکی دور کی اور حدیث بریده و غیره متاخر مدنی دور کی ہیں یقینا ترجیح متا خرعمل کو ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مغرب کا وقت غروب شفق سے قبل تک رہتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (شرح صحيح مسلم للنووي5/156 و إعلام الموقعين2/364 وغيره)شفق کا معنی ومفہوم: اگر چہ قول محقق کے مطابق مغرب کا وقت موسع (کشادہ) ہے اور غروب شفق تک رہتا ہے لیکن شفق کے معنی اور مفہوم میں اختلاف ہے کہ آیا اس سے مراد غروب آفتاب کے فورا بعد مغربی افق پر نمودار ہونے والی سرخی ہے یا وہ سفیدی جو سرخی غائب ہونے کے بعد ہوتی ہے؟ جمہور اہل لغت محدثین اور فقہائے عظام کے ہاں اس سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب آفتاب کے بعد مغربی جانب میں رونما ہوتی اور افق پر پھیلی ہوتی ہے۔ جب یہ سرخی اختتام پذیر اور ان سے غائب ہو جاتی ہے تو اسے غروب شفق کہا جاتا ہے۔ یہ نماز عشاء کے اول وقت اور نماز مغرب کے انتہائے وقت کی علامت ہے۔ دلائل و براہین کی روشنی میں یہی موقف راجح ہے۔ ملاحظ فرمائے:جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبد الله بن عمر سے بسند صحیح مروی ہے انھوں نے فرمایا (الشفق الحمرة)شفق سے مراد سرخی ہے۔ (سنن الدارقطنی1/588،و السنن الكبرى للبيهقي:1/373)اس تفسیر کے تحت بلوغ المرام کی شرح میں علامہ صنعانی فرماتے ہیں (قلت البحث لغوي والمرجع فيه إلى أهل اللغة و ابن عمر من أهل اللغة وقح العرب، فكلامه حجة و إن كان موقوفا عليه) میں کہتا ہوں : بعث لغوی ہے۔ اس میں اصل مربع اہل لغت ہیں اور ابن عمر خالص عربی النسل اور اہل لغت میں سے ہیں لہذا ان کا کلام حجت ہے اگر چہ یہ ان کا موقوف اثر ہے۔(سبل السلام1/210) نیز علامہ صنعانی نے( فلا أقسم بالشفق) کی تفسیر میں بھی یہی معنی کیے ہیں۔ (تفسير غريب القرآن للصنعاني ص204)معتبر ائمہ لغت کی تصریحات :1 ۔موجد علم عروض امام لغت خلیل بن احمد فرماتے ہیں( الشفق: الحمرۃ من غروب الشمس إلى وقت العشاء)’’ شفق سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب آفتاب سے وقت عشاء تک باقی رہتی ہے۔“(کتاب العین، ص486، طبع دار إحياء التراث العربي)
2۔ابن فارس فرماتے ہیں:(الشفق الندءۃ التي ترى في السماء عند غيوب الشمس وهي الحمرة) شفق سے مراد وہ سرخی ہےجوغروب آفتاب کے وقت آسمان پر نظر آتی ہے۔‘‘(معجم مقاييس اللغة:3/198)3۔پھر اپنی سند سے خلیل بن احمد کا قول بھی نقل کرتے ہیں ۔ دیکھیے :(معجم مقاييس اللغة3/395)اس کے بعد امام مجاہد اور مقاتل سے بھی شفق کے معنی سرخی ہی نقل کرتے ہیں۔4۔امام زجاج فرماتے ہیں: (الشفق هي الحمرة التي ترى في المغرب بعد سقوط الشمس) شفق سے مراد وہ سرخی ہے جو مغرب میں غروب شمس کے بعد نظر آتی ہے۔ (معجم مقاييس اللغة: 3/ 39)5۔امام فراء فرماتے ہیں کہ شفق سے مراد حمرہ یعنی سرخی ہے۔ مزید کہتے ہیں( قد سمعت بعض العرب يقول: عليه ثوب مصبوغ كأنه الشقق وكان أحمر) میں نے بعض عرب کویہ کہتے ہوئے سنا کہ اس پر رنگا ہوا کپڑا ہے جیسے کہ وہ شفق ہے دیکھا تو وہ سرخ تھا۔ (معجم مقاييس اللغة: 3/ 198) مذکورہ عبارت کے بعد علامہ ابن فارس نے فرمایا ہے کہ قول حمرہ کا شاہد ہے۔6۔علامہ فیروز آبادی فر ماتے ہیں( الحمره في الأفق من الغروب إلى العشاء الآخرة أوإلى قريبها)غروب آفتاب سے نماز عشاء یا اس کے قریب قریب افق پر منتشر سرخی کو کہتےہیں۔(القاموس المحيط ص:897ماده: شفق)7۔القاموس المحیط کی شرح میں علامہ مرتضی زبیدی حنفی نے مختلف ائمہ لغت سے شق کے معنی "حمرة‘‘نقل کرنے کے بعد جب امام فراءکا قول اور مشاہدہ ذکر کیا کہ شفق سے مراد "حمرة“ ہے تو فرماتے ہیں( فهذا شاهد الحمر)’’یہ ( قائلین ) حمرہ کا شاہد ہے۔(تاج العروس:13/244)8۔ علامہ جو ہری کا بھی یہی قول ہے۔ تائید میں انھوں نے خلیل اور فراء کا قول پیش کیا ہے۔ دیکھیے: (الصحاح:4/1239)9۔علامہ راغب فرماتے ہیں(الشفق إختلاط ضوء النهار بسواد الليل عند غروب الشمس)غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کا رات کی تاریکی سے اختلاط شفق کہلاتاہے۔ (مفردات القرآن ص:297)10۔یہ کچھ معتبر ائمہ لغت کی تصریحات ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے شفق سے مراد’’حمرة‘‘ یعنی سرخی ہے۔مزید دیکھیے :(المصباح المنير للفيومي، ص:261)امام نووی نے علامہ از ہری اور ابن درید کے حوالے سے بھی یہی معنی نقل کیے ہیں۔ دیکھیے(المجموع3/45) مزید فرماتے ہیں(و الذي ينبغي أن يعتمد أن المعروف عند العرب أن الشفق الحمره و ذلك مشهور في شعرهم ونثرهم و يدل عليه أيضا نقل أئمة اللغة )قابل اعتمادبات یہی ہے کہ عرب کے ہاں شفق کے معروف معنی حمرة (سرخی) کے ہیں۔ یہ ان کے اشعار اور نثر میں مشہور ہے۔ مزید برآں یہ کہ اس پر اہل لغت کی نقل و روایت بھی دلالت کرتی ہے۔’’صحیح مسلم کی حدیث (ووقت المغرب مالم يسقط ثورالشفق) سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ثوران (جس کے معنی سرخی کی تیزی اور اس کی چمک کے ہیں) أحمر (سرخ چیز) کی صفت ہے نہ کہ أبيض (سفید چیز) کی یعنی جب تک شفق کی سرخی ختم نہ ہو مغرب کا وقت باقی رہتا ہے۔ (المجموع: 3/ 39)شیخ الاسلام ] نے بھی میں استدلال کیا ہے اور مزید وضاحت سے اسے بیان کیا ہے۔ دیکھیے (شرح العمدة2/175)ائمہ و محدثین اور فقہاء کی تصریحات : امام نووی نے امام بیہقی کے حوالے سے متعدد صحابہ کرام کا یہی موقف نقل کیا ہے کہ اس شفق سے مراد مغربی افق پر موجودسرخی ہے۔ ان میں عمر بن خطاب ،علی بن ابوطالب، ابن عمر، ابن عباس، ابو ہریرہ، عبادہ بن صامت اور شداد بن اوس ہیں، میزمکحول اور سفیان ثوری کا موقف بھی یہی ہے۔(المجموع: 3/ 44، و السنن الكبرى للبيهقي:1/373)امام ابن منذر نے مزید جن ائمہ کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں: مالک بن انس، ابن ابی لیلی، شافعی، احمد،اسحاق، ابوثور ابو یوسف اور محمد... . . (الأوسط:2/340)امام ابن حزم بھی حدیث میں وارد لفظ شفق سے شفق احمر ہی مراد لیتے ہیں۔ (محلی ابن حزم:3/192)شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا بھی یہی موقف ہے دلائل کی روشنی میں اس کا اثبات کرتےہوئے فرماتے ہیں(والشقق شفقان: أحمروهو الأول ،والأبيض، وهو الثاني، والعبرۃ بمغيب الشفق الأحمر فإذا غاب دخل وقت العشاء) شفق کی دوقسمیں ہیں : احمر (سرخ) اور دوسری شفق ابیض (سفید ) اعتبار شفق احمر کے غائب ہونے کا ہے لہذا جب (سرخی) غائب ہو جائے تو عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ (شرح العمدة:2/174)امام فراء کے قول: (عليه ثوب كأنه الشفق وكان أحمر) سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اسی لیے اکثر مفسرین نے اللہ تعالی کے فرمان (فلا أقسم بالشفق )سے مراد سرخی اور سرخی سے قبل دن کی روشنی مراد لی ہے پھر کہتے ہیں( او هم أكثر الصحابة و أكابرهم من الشفق الحمرة)اکثر اور اکابر صحابہ کرام شفق سے سرخی ہی سمجھتے ہیں ۔(شرح العمدة الشيخ الإسلام ابن تيمية:2/175۔176)اور شیخ الاسلام نے اس موقف کی تائید میں متعدد دلائل دیتے ہوئے مسند احمد وغیرہ کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں یہ صراحت ہے(ثم صلى العشاء قبل غيبوبة الشفق)پھر آپﷺ نے غروب شفق سے قبل عشاء کی نماز پڑھائی۔‘ ‘جابر بن عبداللہ کی یہ مفصل روایت اگرچہ مسند أحمد3/351)) وغیرہ میں موجود ہے لیکن مطلوبہ حصہ مجھے اس میں نہیں ملا البتہ یہ ٹکڑا شرح معاني الآثار (1/147) اور السنن الكبرى للبيهقي (1/373)میں موجود ہے۔علامہ طحاوی نے اس کی صحت کے حوالے سے تو کچھ نہیں فرمایا البتہ اس ٹکڑے سے جو استدلال شیخ الاسلام نے کیا ہے وہی استدلال ان سے قبل امام طحاوی بھی کر چکے ہیں جبکہ امام بیہقی اس حدیث کو اختصار سے ذکر کرنے کے بعد اس اضافے کو ذکر کرتے ہوئے بایں الفاظ اس کے شذوذ کی طرف اشارہ کرتے ہیں( مخالف سائر الروايات) ”مذکورہ الفاظ اس موضوع کی دیگر روایات کے خلاف ہیں ، جبکہ علامہ طحاوی اور شیخ الاسلام نے اس اضافے کو حجت مانتے ہوئے متعارض دلائل کے درمیان یہ تطبیق دی ہے کہ یہ بات معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء شفق احمر سے پہلےنہیں پڑھی جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تب آپ نے یہ نمازشفق ابیض سے پہلے پڑھی ہے۔ (شرح العمدة لشيخ الإسلام:2/175) گویا یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ شفق احمر کے غروب ہونے پر نماز عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے نیز اس سے لفظ شفق کے معنی کا تعین بھی نبیﷺکے عمل سے ہو جاتا ہے۔ والله أعلم.
در مختار میں ہے(الشفق وهو الحمرة عندهما وبه قالت الثلاثه وإليه رجع الإمام كما في شروح المجميع وغيرها فکان هوالمذهب)شفق سے مراد صاحبین کے نزدیک حمره (سرخی) ہے۔ ائمہ ثلاثہ (مالک، شافعی اور احمد ) کا یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ بھی اسی طرف رجوع فرما لیا تھا جیسا کہ مجمع کی شروح وغیرہ میں ہے لہذا (مفتی بہ ) مذہب یہی ہے۔ (درمختار:1/361)صدرالشریعہ نے بھی یہی فتوی دیا ہے۔’’ المواهب‘‘ میں بھی اسی کے مطابق فتوی بتایا گیا ہے اور ’’البرهان ‘‘میں بھی اس کو ترجیح دی گئی ہے۔الغرض یوں ائمہ اربعہ شفق کے معنی ’’سرخی‘‘ متفق ہو گئے ہیں۔ والحمد لله على ذلك. (مزیدتفصیل کے لیے ردالمحتار: 1/361کا حاشیہ ملاحظہ فرمایئے۔) امام زمخشری نے بھی امام صاحب کا رجوع اسد بن عمرو کے حوالے سےذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں( الشفق: الحمرة التي ترى في المغرب وروى اسد بن عمرو انه رجع منه) شفق سے مرادسرخی ہے جومغرب میں دکھائی دیتی ہے... اسد بن عمرو نے امام صاحب کا رجوع نقل کیا ہے۔ (الكشاف: ۴/ 727) لیکن کچھ احناف نے امام صاحب کے اس رجوع کی تردید کی ہے۔ بہر حال معتبر احناف امام صاحب کے رجوع کے قائل ہیں اور یہی بات اظہرالگتی ہے۔علامہ ملاعلی القاری حنفی نے بھی شفق کے معنی سرخی‘‘ ہی کو ترجیح دی ہے فرماتے ہیں( الشفق وهو الحمرة التي تلي الشمس بعد الغروب عند الشافعي وأبي يوسف و محمد‘ وهو المروي عن ابن عمر وابن عباس، وبه يفتی)’’شفق‘ غروب شمس کے فورا بعد نمایاں ہونے والی سرخی کو کہتے ہیں ۔ یہ شافعی‘ ابو یوسف اور محمد کا موقف ہے اور یہی بات ابن عمر اور ابن عباس سے مروی ہے اور اسی کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے۔ (المرقاة2/264 ، تحت حديث:581)امام شوکانیکی تحقیق بھی یہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: [وآخره ذ هاب الشفق الأحمر) مغرب کا آخری وقت غروب شفق احمر ہے۔(السيل الجرار1/408)الدرر البهية میں بھی ان کا یہی موقف ہے۔ اس کی شرح میں نواب صدیق حسن خاں فرماتے ہیں( جميع كتب اللغة مصرحة بهذا وجميع أشعار العرب ومن بعدهم، فمن زعم أن الشفق في لسان أهل اللغة أولسان أهل الشرع يطلق على البياض فعليه الدليل ولا دليل...)تمام کتب لغت اس (شفق احمر) کی تصریح کرتی ہیں ۔ تمام اشعار عرب اور جوان کے بعد کے ہیں وہ بھی اس مفہوم کی تائید کرتے ہیں لہذا جویہ گمان کرتا ہے کہ اہل لغت یا اہل شرع کی زبان میں بیاض (سفیدی) پربھی شفق کا اطلاق ہوتا ہے تو اس پر دلیل پیش کرنا لازم ہے لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں ۔‘‘ مزید فرماتے ہیں کہ اگر اس کا اطلاق بالفرض شفق ابیض پر ہوتا بھی ہو تو وہ نادر ہے جبکہ اعتبار اغلب اور عام استعمال کا ہے لہذا عام اور اغلب استعمال چھوڑ کر نادر اور شاذ معنی مراد لینا درست نہیں ۔ (الروضة الندية:1/228۔229بتصرف)نواب صاحب کا سرے سےشفق ابیض کا انکار تو مبالغے پر محمول ہے کیونکہ ثعلب وغیرہ سے اس کی تصریح موجود ہے نیز علامہ ابن اثیر نے لفظ شفق کو اضداد میں شمار کیا ہے۔ (النهاية في غريب الحديث، ماده شفق)بہرحال نواب صاحب کی موخر الذکر بات قوی اوردیگر تحقیقات وتصریحات کی روشنی میں درست ہے۔واللہ اعلمصاحب عون المعبود شمس الحق محدث فرماتے ہیں( الأحمر على الأشهر) مشہور ترین قول کے مطابق شفق‘‘ سے شفق احمر مراد ہے۔‘‘(عون المعبود:2/41)الحاصل : مذکورہ تصریحات سے بالیقین معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں وار دلفظ شفق سے مرادشفق احمر ہے لیکن نماز مغرب کا وقت ادا بحالت عذر اس وقت تک رہتا ہے جب تک مغربی افق پر سرخی باقی رہتی ہے۔ سرخی کے ختم ہونے پر نماز عشاء کا اول وقت شروع ہو جا تا ہے۔رہا دوسرا موقف کی شفق سے مراد وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد مغربی افق پر نمایاں ہوتی ہے اس کے ختم ہونے کے بعد نماز عشاء کا آغاز ہوتا ہے مرجوح ہے۔ اس بارے میں امام ابوحنیفہ ان کی کئی روایات ہیں اور بعض روایات میں جمہور کے قول کی طرف رجوع بھی ثابت ہے لہذا باتفاق ائمہ اربعہ اور دلائل صریحہ کی روشنی میں یہی موقف راجح ہے شفق سے مراد احمر ہے اگر چہ امام موصوف کے رجوع کے با وجود حنفیہ کی ایک جماعت ان کی مرجوح رائے ہی پر اڑی ہوئی ہے۔ یہ اپنے اس موقف کی تائید میں مزید ایک صریح روایت بھی پیش کرتے ہیں جو حضرت جابر سے مروی ہے۔ اس میں صراحت ہے(ثم اذان العشاء حين ذهب بياض النهار، وهو الشفق)پھر اس نے عشاء کی اذان کہیں جس وقت دن کی سفیدی ختم ہوئی اور یہی شفق ہے۔(المعجم الأوسط للطبراني: حديث:6787 ، و مجمع الزوائد:1/304)علامہ ہیثمی نے اس کی سند حسن قرار دی ہے جبکہ اس کی سند میں امام طبرانی کے شیخ ہیں جن کے حالات نہیں مل سکے۔ طبرانی اوسط کے محقق نے بھی یہ تصریح فرمائی ہے۔ کہتے ہیں(وإسناده ،حسن لولا شيخ الطبراني فلم أجده) لہذا اس جہالت راوی کی وجہ سے روایت ضعیف ہے۔ اس سے مزعومہ موقف کی تائی نہیں ہوتی ۔ والله أعلمنماز مغرب سے اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت نماز کا استحباب : نماز مغرب اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے لیکن اس سے قبل دو رکعت کی مشروعیت بھی ثابت ہے۔ اس بارےمیں نبی ﷺکے ترغیبی حکم کے ساتھ ساتھ آپ کی تقریر بھی اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے۔ کبار صحابہ کرام عہد نبوت میں اس پرعمل پیرا تھے نیز زریں عہد نبوت کے بعد تابعین عظام کے ہاں بھی عمل معمول بہ تھا اور تاحال حاملین کتاب وسنت کے ہاں بتوفيق اللہ بدستور اس پر عمل جاری ہے۔محدث کبیر امام محمد بن نصر مروزی فرماتے ہیں(وقدروي عن جماعة من الصحابة والتابعين أنهم كانوا يصلون قبل المغرب ركعتين و ثبت عن النبيﷺ أنه أذن في ذلك لمن أراد أن يصلي و فعل على عهده بحضرته فلم ينه عنه) صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ وہ نماز مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ اور نبی اکرم ﷺسے ثابت ہے کہ آپ نے اس شخص کو اجازت دی ہے جو پڑھنا چاہے۔ اور آپ ﷺکی موجودگی میں یہ عمل ہوتا رہا لیکن آپ نے اس سے روکا نہیں ۔ ‘‘(قيام الليل، ص:45 طبع مکتبه سبحانيه)لہذامختصرسی دو رکعتوں سے کہ جن پر زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ صرف ہوتے ہیں کوئی تاخیر نہیں ہوتی اور نہ اس سے اول وقت ہی نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد نبوت میں صحابہ کرام بڑے شوق اور لگن سے اس پر عمل پیرا تھے۔ اس موقف کے بنیادی دلائل مندرجہ ذیل ہیں۔حضرت عبداللہ مزنی سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا (صلوا قبل صلاة المغرب. قال في الثالثة : لمن شاء كراهية أن يتخذها الناس سنة )نماز مغرب سے قبل نماز پڑھونماز مغرب سے قبل نماز پڑھو) تیسری مرتب فرمایا: جس کی مرضی ہو کہ آپ نے اس بات کو نا پسند کرتے ہوئے فرمایا کہ ہیں لوگ اسے لازمی نہ سمجھ لیں۔ (صحیح البخاري، التهجد حديث:1183)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ مستخرج میں اب نعیم کی روایت میں آپ ﷺ( قبل المغرب رکعتین )تین مرتبہ فرمایا ہے پھر اس کے بعد فرمایا: ’جس کی مرضی ہو۔(فتح الباري 30حديث: 1183)محب طبری فرماتے ہیں (لم يرد في استحبابها لانه يمكن أن يأمربما لا يستحب، بل هذا الحديث من أقوى الأدلة على استحبابها) ’’اس نماز کے عدم استحباب پرنفی وارد نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ آپ ﷺغیرمستحب چیز کا حکم دیں بلکہ یہ حدیث اس کےاستحباب پر قوی ترین دلائل میں سے ہے۔ (فتح الباري:3/60، حدیث:1183)سیدنا انس بن مالک فرماتے ہیں( كان المؤذن يؤذن على عهد رسول اللهﷺ لصلاة المغرب فیبتدر باب أصحاب رسول اللهﷺ و السواري يصلون الركعتين قبل المغرب حتى يخرج رسول الله وهم يصلون) عہد رسول اللهﷺ میں جب مؤذن نماز مغرب کی اذان کہتا تو خواص اور کبارصحابہ کرام جلدی سے ستونوں کی طرف لپکتے اور مغرب سےقبل دو رکعت نماز ادا کرتے یہاں تک کہ اللہ کے رسول ﷺ نکلتے تو وہ نماز پڑھ رہے ہوتےتھے۔صحيح البخاري، الصلاة حديث:503۔625، وقيام الليل لابن نصر المروزي، ص:46 واللفظ له)صحیح بخاری میں( رأيت كبار أصحاب النبيﷺ ) کے الفاظ ہیں۔صحیح مسلم میں ہی اضافہ بھی ہے (حتى إن الرجل الغريب ليدخل المسجد فيحسب أن الصلاة قد صلیت، من كثرة من يصليهما)حتی کہ کوئی اجنبی آدمی مسجد میں داخل ہوتا تو یہ سمجھتا کہ نماز ہو چکی ہے کیونکہ کثیر صحابہ کرامیہ دورکعتیں پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم صلاة المسافرين باب استحباب ركعتين قبل المغرب، حدیث:837)اس حدیث سے چند باتیں اخذ ہوتی ہیں 1۔عہد رسالت میں اکثر صحابہ کرام اس کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ 2۔یہ عمل کبارصحابہ کرام کا ہے3۔ رسول اللہﷺ نے یہ عمل ملاحظہ فرما کر خاموشی اختیار فرمائی لہذا یہ دین ہے۔ اگر یہ عمل ناجائز یا مکروہ یا خلاف اولی ہوتا تو صحابہ کی اس کثیر تعداد کو رسول اللہ ﷺ ضرور کوئی نہ کوئی تلقین فرماتے ، جبکہ اللہ رب العزت نے بھی اسے برقرار رکھا اور کوئی تردید نہیں فرمائی اس لیے نبی ﷺ کی یہ خاموشی سند کی حیثیت رکھتی ہے اور امت کے لیے حجت ہے4۔ کسی اجنبی کا یہ سمجھنا کہ نماز ہو چکی ہے اور لوگ اب فرضوں کے بعد سنتیں پڑھ رہے ہیں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عمل دو چار یا آٹھ دس صحابہکا نہ تھا بلکہ اکثر کا تھا۔ والله أعلمعبداللہ بن بریدہ کے واسطے سے عبداللہ بن مغفل سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔(بين كل أذانين صلاة)ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔(صحيح البخاري، الأذان حدیث:624وصحيح مسلم صلاة المسافرين حديث:838)اذانین سے مراد اذان اور اقامت ہے۔ تغلیبا اقامت کو بھی اذان سے تعبیر کر لیا جاتا ہے کیونکہ اس میں بھی اعلام اور نماز شروع ہونے کی اطلاع ہوتی ہے جیسے قمرین سورج اور چاند کو کہتے ہیں۔ دیکھیے (فتح الباري:2/107تحت حديث:624)چند فقہائے محدثین کا مذکورہ حدیث سے استدلال : اس حدیث کے عموم کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ہر اذان اور تکبیر کے درمیان میں دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے لہذا اس عموم سے اذان مغرب کے بعد بھی دو رکعت نماز کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے اسی لیے محدثین نے اس حدیث سے مغرب سے قبل دو رکعت نماز کا استنباط کیا ہے۔امام ابو داونے اپنی سنن میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے( باب الصلاۃ قبل المغرب) اور اس کے تحت مذکورہ حدیث بھی ذکر فرمائی ہے۔ (سنن أبي داود التطوع حدیث:1283)امام ترمذی نے بھی یہی استنباط کیا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة باب ماجاء في الصلاةقبل المغرب، حدیث:185)امام ابن ماجہ نے بھی اس سے مغرب سے قبل دو رکعت کے استحباب کا استنباط کیا ہے وہ فرماتے ہیں(باب ماجاء في الركعتين قبل المغرب )ترجمۃ الباب کے تحت انھوں نے پہلی حدیث یہی ذکر فرمائی ہے۔ (سنن ابن ماجه إقامة الصلوات حديث:1162)امام دارقطنی نے بھی اس قسم کی احادیث سے یہی مفہوم اخذ کیا ہے۔ (سنن الدارقطني :1/580)ملحوظہ : اس حدیث کے بعض طرق میں(إلا المغرب) کا استثنا مذکور ہے۔ لیکن یہ اتنا ضعیف اورناقابل حجت ہے جیسا کہ تفصیل آگے آ رہی ہے۔مذکورہ مفہوم کی تصدیق مزید وضاحت کے ساتھ اس صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے۔(مامن صلاة مفروضة إلا و بين يديها ركعتان) ہر فرض نماز سے قبل دو رکعات ہیں۔(قيام الليل للمروزي،ص:۴۵ مزیدتحقیق وتخریج کے لیے ملاحظہ ہو: (سلسلة الأحاديث الصحيحةللألباني: 1/464۔466،حدیث:232)اس حدیث سے بھی قبل از مغرب دو رکعات کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔ اس کی مزید توثیق حضرت انس کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں مختار بن فلفل نے نبیﷺ کے حوالے سے دریافت کیا کہ کیا آپ بھی یہ دو رکعت پڑھتے تھے؟ تو انھوں نے جواب دیا: آپ ہمیں پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے لیکن ہمیں نہ حکم دیا اور نہ اس سے منع فرمایا۔(صحیح مسلم صلاة المسافرين حديث:836)یہاں’’نہ حکم دیا‘‘ سے مرادحکم ایجاب ہے نہ کہ علم ترغیب کیونکہ یہ تو احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ آغاز میں عبداللہ مزنی کے حوالے سے گزرا ہے۔امام قرطبی فرماتے ہیں: (ظاهر حديث أنس : أن الركعتين بعد غروب الشمس و قبل صلاة المغرب كان أمرا قرر النبيﷺ و أصحابه عليه، وأنهم عملوا بذلك وتضافروا عليه حتى كانوا یبتدرون السواري لذلك، وهذا يدل على الجواز وعدم الكراهية بل على الإستحباب) حدیث انس کا ظاہر اس بات پر دلالت کناں ہے کہ بعد از غروب آفتاب او قبل از نماز مغرب دو رکعتیں پڑھنا ایسا کام تھا جس پر نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو برقرار رکھا ہے اور انھوں نے یہ عمل کیا اور با ہم ایک دوسرے کا تعاون کیا یہاں تک کہ اس مقصد کے لیے ستونوں کی طرف لپکنے میں وہ مسابقت کرتے اس لیے یہ عمل جواز اور عدم کراہت بلکہ اس کے استحباب پر دلالت کرتا ہے۔ دیکھیے :( المفهم:2/467)شوافع کے ہاں دو قول ہیں لیکن محققین کے نزدیک صحیح اور راجح قول استحباب کا ہے۔ ان کے دلائل مذکورہ بالا احادیث ہیں۔ دیکھیے : (شرح صحيح مسلم للنووي، حديث:838)حافظ ابن حجر ا فرماتے ہیں(وإلى استحبابهماذ هب أحمد و إسحاق وأصحاب الحديث) ’’ان دو رکعتوں کے استحباب کا قول امام احمد ،اسحاق اور اصحاب الحدیث کا ہے۔(فتح الباري:2/108 حدیث:624نیز امام تر مذی نے بھی امام احمد و اسحاق سے استحباب کا قول نقل کیاہے۔ دیکھیے : (جامع الترمذي، الصلاة حديث:۱۸۵)حافظ ابن حجر طرفین کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد اسی موقف کی تائید میں فرماتے ہیں: قلت: ومجموع الأدلة يرشد إلى استحباب تخفيفهما كما في ركعتي الفجرمیں کہتا ہوں: مجموعی دلائل اس طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ ان دو رکعات کو نظر انداز میں ادا کرنا مستحب ہے جیسا کہ فجر کی دو رکعتوں میں ہے۔ (فتح الباري:2/109)الحاصل: نماز مغرب سے قبل دو رکعت نماز مستحب ہے بشرطیکہ بعد از اذان شروع کر لی جائے اورزیادہ تاخیر نہ کی جائے ۔ کراہت کا قول مرجوح بے دلیل اور کھوکھلا ہے۔مکروہ کہنے والوں کے دلائل کا مختصر تحقیقی جائزہ:مالکیہ اور حنفیہ کے نزدیک قبل از مغرب دو رکعتیں پڑھنا مکروہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں عام حنفی مساجد میں مؤذن جونہی اذان سے فارغ ہوتا ہے امام صاحب مصلے پر جلوہ افروز ہو جاتے ہیں، فورا اقامت ہوتی ہے اور تسویہ صفوف (صف بندی) اور اس کی ترغیب کے بغیر تکبیر تحریمہ کہہ دی جاتی ہے۔ احادیث کی روشنی میں یہ تعجیل غیر مسنون ہے بلکہ اس قسم کی تعجیل مذموم ہے۔ کم از کم اذان کے بعد ادعیہ مسنونہ اور صف بندی کی تلقین ضروری ہے۔ احادیث میں اس کا بیان بڑی وضاحت سے آیا ہے۔ بہرحال وہ چند بنیادی دلائل جن کا سہارا قائلین کراہت لیتے ہیں درج ذیل ہیں:پہلی دلیل : مسند بزار وغیرہ کی روایت ہے جس میں قبل از مغرب نماز پڑھنے کا استثنامذ کور ہے بين كل أذانين صلاة إلا المغرب)ہر دو اذ انوں کے درمیان نماز ہے سوائے مغرب کے۔ (مسند البزار (کشف الأستار)، حدیث: 693 وسنن الدارقطني:1/58 حدیث:1026والسنن الكبرى للبيهقي:2/474)حکم : یہ حدیث (إلا المغرب) کے اضافے کے ساتھ منکر (ضعیف) ہے۔ اس کی سند میں حیان بن عبید اللہ ہے۔ امام دارقطنی نے مذکورہ حدیث ذکر کرنے کے بعد اسے غیر قوی قرار دیا ہے۔ دیکھیے : (سنن الدارقطني:1/580)امام ابن عدی نے اسے ضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ دیکھیے (الكامل في الضعفاء:3/347) نیز فرماتے ہیں(وعامة مايرويه إفرادات ینفر بها)یہ جو عام روایات بیان کرتا ہے وہ اس کے تفردات ہی ہیں ان میں وہ منفرد رہتا ہے۔علامہ ہیثمی اور امام ذہبی اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مختلط بھی ہے جو سوئے حفظ کی علامت ہے۔ (مجمع الزوائد:2/231 ، و میزان الاعتدال:1/623)امام بزارنے اگر چہ حیان بن عبیدالله کو( بصري مشهور ليس به بأس) مشہور بصری ہے‘ اس کے ساتھ کوئی حرج نہیں ۔کہا ہے لیکن انھوں نے اس کی بیان کردہ روایت کو اس کا تفرد قرار دیا ہے جو کہ دیگر روایات کی روشنی میں مردود ہے۔ وہ فرماتے ہیں( ا علم أحدا يرويه إلا بریدة ولا رواه إلأحيان . .. (کشف الأستار: حدیث:693)ہمارے علم میں اسے صرف بریدہ اورحیان ہی بیان کرتے ہیں۔ یہ اصل میں حیان بن عبید اللہ کے شذوذ اور تفرد کی طرف اشارہ ہے۔امام ابن جوزی ] نے بھی اس حدیث کو (هذا حديث لأيصح) یہ حدیث صحيح نہیں ہے۔کہہ کر رد کر دیا ہے۔دیکھیے :(الموضوعات الصلاة:2/182)امام سیوطی نے بھی اس روایت کو’’ اللالي‘‘ میں ذکر کیا ہے چونکہ امام ابن جوزی نے حیان کو فلاس کے حوالے سے کذاب قرار دیا ہے اس لیے امام سیوطی نے ان کی تصحیح فرمائی اور یہ بیان کیا کہ جس حیان کو فلاس نے کذاب قرار دیا ہے وہ یہ حیان نہیں بلکہ وہ حیان بن عبداللہ ہے۔ (اللآلي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة:2/14) مزیددیکھیے:(تنزيه الشريعة:2/99)امام شوکانی نے بھی اسے ضعیف (شاذ) قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں: اس زیادتی میں حیان بن عبیداللہ منفرد ہے اور اس کی کوئی متابعت موجود ہیں۔ دیکھیے : (الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة حديث:16)امام بیہقی نے قدرے تفصیل سے بحث کی ہے اور اس روایت کو حیان کا تفرد اور اس کی خطا قراردیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں( ورواه حيان بن عبیدالله عن عبدالله بن بريدة و أخطأ في إسنادہ وأتي بزيادة لم يتابع عليها و في رواية لحسين المعلم ما يبطلها ویشهد بخطائه فيها)اس روایت کو حيان بن عبید اللہ نے عبداللہ بن بریدہ کے واسطے سے بیان کیا ہے۔ وہ اس کی سند میں غلطی کا مرتکب ہوا ہے اور اس کی زیادتی بیان کی ہے جس پر اس کی کوئی متابعت نہیں جبکہ حسین معلم کی روایت کی روشنی میں اس کا بطلان ہوتا ہے اور اس میں واقع خطا کا ثبوت ملتا ہے۔(السنن الكبرى للبيهقي:2/474)اس کے بعد انھوں نے امام ابن خزیمہ کے کلام کی روشنی میں اس روایت کا بطلان کیا یعنی ابن خزیمہ بھی(إلا المغرب) کے اضا فے کوراوی کی خطا قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول اگر یہ زیادتی مرفوعا محفوظ ہوتی تو راوی حدیث ابن بریدہ اس کی اپنےعمل سے مخالفت نہ کرتے کیونکہ مغرب سے قبل وہ خودبھی دورکعت ادا فرمایا کرتے تھے۔ (السنن الكبرى للبيهقي:2/475)اس بات کی قوی دلیل ہے کہ یہ زیادتی نا قابل حجت ہے۔ ابن بریده کایہ اثر صحیح ابن خزیمہ ، حدیث:1287میں وغیرہ میں بھی ہے۔ شیخ البانی نے اس کی سند قرار دی ہے۔ (سلسلة الأحاديث الضعيفة القسم الأول:12/377 ، رقم5662)صاحب الجو ہرالنقی نے امام بیہقی کا تعاقب کرتے ہوئے(إلا المغرب) کے اضافے کو ثقہ کی زیادتی قراردیا ہے لیکن یہ موقف چند وجوہ سے باطل ہے۔ ایک تو یہ کہ امام ابوحاتم نے جو اسے صدوق کہاہے اور امام بزارنے (ليس به بأس) تو کیا اس کا یہ مقصد ہے کہ یہ را وی مستند اور قابل حجت ہے؟ ایا ہرگز نہیں ۔ ائمہ جرح و تعدیل کی اپنی اپنی اصطلاحات ہیں لہذا ان کے مفہوم اور مقاصد کا تعین اسی کے مطابق ہوگا جیسا کہ ابن ابی حاتم امام ابوحاتم کی اصطلاح کی توسیع کرتے ہوئے فرماتے ہیں( و إذا قيل له: إمام صدوق أو محله الصدق أو لابأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه) جب کسی راوی کے بارے میں کہا جائے کہ یہ صدوق ہے یا اس کا کل صدق یابی لا بأس ہے تو اس کا شمار ان لوگوں میں سے ہے جن کی حدیث لکھ لی جاتی ہے اور اس میں دیکھا (غور کیا جاتا ہے۔(الجرح والتعديل :2/37)گویا اس سے علی الاطلاق حجت نہیں پکڑی جائے گی بلکہ اس کی مرویات کی تفتیش کی جائے گی۔ مخالفت اور شذوز کی صورت میں رد کی جائیں گی جیسا کہ زیر بحث مسئلہ میں ہے لہذا جسے حافظ ابن حجر یا امام ذہبی صدوق کہیں وہ وہ نہ ہوگا جسے ابوحاتم صدوق کہتے ہیں اسی لیے امام دارقطنی نے حیان بن عبید اللہ کوغیرقوی اور ابن عدی نے ضعفاء میں شمار کیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ مختلط بھی ہے پھر خود امام بزارنے روایت ذکر کرنے کے بعد اس اضافے کو حیان کا تفرد قرار دیا ہے۔ امام ابن عدی نے بھی اس پر یہی تبصرہ فرمایا: [عامة مايرويه إفرادات ينفرد بها )نیز ابن خزیمہ کی یہ تصریح کہ حیان بن عبید اللہ سے سند اور متن دونوں میں خطا سرزد ہوئی ہے اور اس اضافے پر اس کی کوئی متابعت بھی موجود ہیں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ راوی علی الاقل سئ الحفظ اور تفرد کی صورت میں ساقط الاعتبار ہے۔ اسے ثقہ کہنا غلط اور اس کی زیادتی کو زیادتی ثقہ باور کرانا دلائل کی روشنی میں مرجوح موقف ہے۔بنابر یں جس راوی کی یہ حیثیت ہو تو اس کی زیادتی ، جس میں تین چار معتبر ثقات کی مخالفت بھی ہو کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے؟ اسی وجہ سے حافظ ابن حجر نے اسے شاذ قرار دیا ہے وہ فرماتے ہیں( وأما رواية ان فشاذة) (فتح الباري: 2/ 108) اور التلخیص الحبیر میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں( وفي رواية ضعيفة للبيهقي: بين كل أذانين صلاة ما لا المغرب) بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے:”مغرب کے سوا ہر دو اذ انوں کے مابین نماز ہے۔(التخليص الحبير:2/30مؤسة قرطبة)دوسری دلیل : (ولم يكن بينهما بين الأذان والإقامة( شيئ) اذان اور اقامت کے درمیان زیادہ وقفہ نہ ہوتا تھا۔(صحيح البخاري، الأذان، حديث:625) اس حدیث کا لفظ ” شيئ “ ان کا مدار استدلال ہے۔ یہاں قلت کی نفی کے معنی کرتے ہیں يعنى (لم يكن بين الأذان والإقامة شیی) اذان و اقامت کے درمیان تھوڑا سا وقت بھی نہ ہوتا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دو رکعتیں نہیں پڑھی جاتی تھیں ۔ یہ مفہوم غلط ہے کیونکہ پوری حدیث کے سیاق سے مفہوم بےمعنی ٹھہر تا ہے اسی لیے ہم نے شيئ “ کا ترجمہ زیادہ وقفہ سے کیا ہے کیونکہ دیگر قرائن اور روایت کے سیاق و سباق کی روشنی میں یہاں ” شيئ کا یہی مفہوم بنتا ہے چنانچہ حدیث ملاحظہ فرمایئے: سیدنا انس بن مالک فر ماتے ہیں:”جب مؤذن اذان دےلیتا تو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں سے کچھ لوگ اٹھتے اور جلدی سے ستونوں کی طرف لپکتے یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ نکل آتے جبکہ وہ اسی حالت میں مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھ رہے ہوتے اور ان دونوں (اذان واقامت )کے درمیان بہت زیادہ وقت نہ ہوتا تھا۔‘ شیئی سے اگر قلت کی نفی مراد ہوتی تو صحابہ کرام قبل از مغرب دو رکعتیں کیسے ادا کر لیتے تھے؟ الغرض یہاں کثرت اور مبالغہ کی نفی ہےیعنی بہت زیادہ وقفہ نہ ہوتا تھا صرف اتنا ہوتا تھا کہ دو مختصر رکعتیں پڑھ لی جاتی تھیں ۔ ابن خزیمہ فرماتے ہیں( بريد شيئا كثيرا) بہت زیادہ وقت نہ ہونا مراد ہے۔ (صحیح ابن خزيمة حديث:1288)حافظ ابن حجر نے مذکورہ حدیث کی شرح میں (شيئ) کی تنوین مبالنے اور تنظیم کی نفی پر محمول کی ہے اس کی تائید اگلی معلق روایت سے ہوتی ہے۔ جس کے یہ الفاظ ہیں لم يكن بينهما إلا قليل کہ اذان و اقامت کے درمیان تھوڑاوقفہ ہوتا تھا۔‘‘ حافظ ابن حجر نے اسماعیلی کے حوالے سےاسے موصولأ ذکر کیا ہے لہذایہ قابل حجت ہے۔(فتح الباري:2/108)امام بیہقی نے اپنی سنن میں اسماعیلی کی سند سے اسے موصولا بیان کیا ہے۔ (السنن الكبریللبيهقي2/19 اس کے الفاظ ہیں:(و كان بين الأذان والإقامة قريب )امام ابن نصر مروزی نے محمد بن یحییٰ کے حوالے سے (و كان بين الأذان والإقامة يسیر) اذان اور اقامت کے درمیان تھوڑا وقت ہوتا تھا۔“ کے الفاظ نقل فرمائے ہیں۔ (قيام الليل للمروزي، ص:46مزید دیکھیے مختصرصحيح ‘البخاري‘للألباني:1/205 وسلسلةالأحاديث الصحيحةحديث:234)الحاصل : کثرت و زیادتی اور مبالغے کی نفی سے قیل و یسیر کی نفی نہیں ہوتی لہذا اس حدیث سے یہ مفہوم اخذ کرنا کہ عہد رسالت مآب میں مغرب کی اذان واقامت کے درمیان وقفہ بالکل نہ ہوتا تھایا انتہائی تھوڑا ہوتا کہ دو رکعتوں کی ادائیگی مشکل تھی دلائل کی روشنی میں مرجوح ہے اس لیے اس حدیث سےقبل از نماز مغرب دو رکعتوں کی کراہت پر استدلال درست نہیں۔
تیسری دلیل : ابن عمرؓکی روایت ہے: (سُئل ابن عمر عن الركعتين قبل المغرب فقال: ما رأيت أحدا على عهد رسول اللهﷺ يصليهما)ابن عمر ؓ سے قبل از مغرب دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیامیں نے عہد نبوی میں کسی کو یہ رکعتیں پڑھتے نہیں دیکھا۔(سنن أبي داود التطوع حديث:1284 و السنن الكبرى للبيهقي:476۔477)مذکورہ اثر سے معلوم ہوا کہ یہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ یہ ہے ان کا استدلال۔اس حدیث پر امام ابو داود اور منذری نے سکوت فرمایا ہے۔ اگر چہ بعض علماء اس سکوت کوتصحیح پرمحمول کرتے ہیں لیکن دلائل و براہین اور بحث وتحقیق کی روشنی میں حق یہی ہے کہ ان کا سکوت قابل حجت نہیں کیونکہ عند التحقیق بہت سی احادیث پر ان کے سکوت کے باوجود حدیث ضعیف نکلتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : (مقدمة صحيح سنن أبي داود (مفصل للألبانی و تمام المنة ص:27، و مقدمة صحيح الترغيب)ادھر بھی یہی معاملہ ہے لیکن یہاں بھی انھوں نے سکوت فرمایا ہے جبکہ اس کی سند میں ابوشعيب ہے۔محدث العصر شیخ البانی اس اثر کی تحقیق میں فرماتے ہیں قلت : وهو عندي مستور ’’ یہ میرے نزدیک مستور ہے۔ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں: اگر چہ حافظ ابن حجر نے تقریب میں اسے لا بأس به کہا ہے۔ اور اس کی بنیاد ابوزرعہ کا قول ہے جبکہ ابوزرعہ کا یہ قول شعیب سمان کے بارے میں ہے جیسا کہ خودحافظ ابن حجر نے تہذیب میں یہ ذکر کیا ہے اور فرمایا کہ یہ صاحب ترجمہ کے علاوہ کوئی اور ہے۔ ابن ابی حاتم کے انداز سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے ان دونوں کے در میان فرق کیا ہے لہذا میری (شیخ البانی کی) نظر میں کسی قابل اعتماد محدث نے اس کی تعدیل نہیں فرمائی۔ آخر میں شیخ البانی خلاصة الكلام ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن عمر سے منقول اس اثر کی صحت کے متعلق دل مطمئن نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر نے بھی فتح الباری میں (وروي عن ابن عمر..] کہ کر اس کی تضعیف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھیے :(فتح الباري:2/108 ،حدیث:625)بالفرض اگر اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی سیدنا انس کی مثبت روایت اس کی نفی پر مقدم ہے جیسا کہ امام بیہقی اور ابن حجر وغیرہ نے فرمایا ہے۔ اس کی تائید ابن عمر کے اس اثر سے ہوتی ہے جسے ابن نصر نے ذکر کیا ہے کہ ابن عمر نے کسی آدمی سے پوچھا: تم کہاں سے ہو؟ اس نے جواب دیا: اہل کوفہ سے۔ ابن عمر نے فرمایا: ان میں سے جو چاشت کی دو رکعتوں پر محافظت کرتے ہیں؟ اس نے کہا: اورتم وہ ہو جوقبل از مغرب دو رکعتوں پر مداومت کرتے ہو؟ تو ابن عمر نے فرمایا: میں یہ بات بیان کی جاتی تھی کہ ہر اذان کے وقت آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔(قيام الليل للمروزي، ص:47مكتبه سبحانيه)شیخ البانی مزید فرماتے ہیں: یہ ابن عمر کی طرف سے ان دو رکعتوں کی مشروعیت پرنص ہے اور ان سے جو ضعیف حدیث منقول ہے کہ اس کے برخلاف ہے۔ لیکن علامہ مقریزی نے اس کی سند حذف کر دی جیسا کہ عموما قیام الیل میں ان کا یہی طریقہ ہے لہذا اس پرصحت وضعف کا حکم لگانے سے قاصر ہوں۔ (سلسلة الأحاديث الصحيحة القسم الأول:1/469۔470رقم:234)محدث الحصر شخ البانی کی تحقیق کی روشنی میں ابن عمر کا اثر ضعیف ہے۔دوسرا یہ کہ اگر بالفرض یہ اثر درست بھی تسلیم کر لیا جائے جیسا کہ شیخ وغیرہ نے فرمایا ہے تب بھی عدم جواز کی دلیل نہیں بنتا کیونکہ بلاشک وشبہ عہد نبوی میں یہ عمل جاری و ساری رہا۔ اللہ کے رسول ﷺنے ترغیبی حکم کے ساتھ ساتھ انہیں پڑھتے دیکھ کر برقرار رکھا لہذا ابن عمر کی نفی اپنےعلم کی حد تک ہے۔ اس جواب پر علامہ زیلعی حنفی نے بھی سکوت فرمایا ہے اور اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دیکھیے(نصب الراية/2/140)چوتھی دلیل :ابرہیم نخعی کا یہ اثر ہے وہ بیان کرتے ہیں(لم يصل أبو بكر ولاعمرولا عثمان قبل المغرب ركعتين)ابوبکر، عمر اور عثمان نے قبل از مغرب دو رکعات نہیں پڑھیں ۔‘‘(قيام الليل لابن نصر المروزي، ص:49، و السنن الكبرى للبيهقي: 2/476)یہ اثرمنقطع ہے ۔ ابراہیم نخعی کی صحابہ میں سے حضرت عائشہ ؓ کے سوا کسی سے ملاقات ثابت نہیں ۔عائشہ ؓ سے ملاقات کے باوجود ایک حدیث بھی ان سے نہیں سنی۔
علامہ مبارکپوری محدث فرماتے ہیں( قد ثبت أن إبراهيم النخعي لم يلق أحدا من أصحاب النبي ﷺالاعائشة و لم يسمع منها شیئا)’’یہ ثابت ہے کہ ابراہیم نخعی کی اصحاب النبیﷺ میں سے کسی سے ملاقات نہیں ہوئی سوائے حضرت عائشہ کے لیکن ان سے بھی سماع نہیں ہے۔(تحفةالأحوذي:1/470) جبکہ منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک کہ اس کا متصل ہونا ثابت نہ ہو۔ حافظ ابن حجر نے بھی اس روایت کو منقطع قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 2/ 108) اسی مفہوم کی ایک مرفوع روایت بواسطہ ابراہیم نخعی مروی ہے۔ علامہ زیلعی نے اسے معضل (ضعیف کی ایک قسم ہے جس میں سند سے پے در پے ایک ہی مقام سے دو راوی گرے ہوتے ہیں) قرار دیا ہے۔ (نصب الراية:2/141)ابن نصر مروزی نے ابراہیم نخعی کے حوالے سے دیگر صحابہ کرام سے بھی قبل از مغرب دو رکعات کی عدم ادائیگی نقل کی ہے۔ ان میں علی بن ابوطالب ‘عبد الله بن مسعود‘ حذیفہ بن یمان‘ ابوسعود انصاری‘ عمار بن یاسر اور براء بن عازب شامل ہیں ۔ (قيام الليل للمروزي، ص:49)یہ اثر ابراہیم نخعی کے شیخ کے مجہول (نامعلوم) ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں(فأخبرني من رمقهم) مجھے اس شخص نے خبر دی جس نے انھیں بغور دیکھا ۔ معلوم ہوا کہ براہ راست ان کا مشاہدہ نہیں ہے۔ خبر دینے والا کون ہے؟ کوئی پتا نہیں اس لیے یہ مجہول ہے۔ اس جہالت کی وجہ سے مذکورہ اثر ساقط الاعتبار ہے۔ اس سےاستدلال ناکافی بلکہ ایک مجہول پراعتماد ہے۔ محدثین کے ہاں اس قسم کی روایات و آثار نا قابل حجت ہوتے ہیں جب تک کہ شواہد یا متابعات سے تائید نہ ہو۔ بالفرض اسے میں تسلیم کر بھی لیا جائے تب بھی اس سے کراہت یا عدم جواز ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس میں نفی کا ذکر ہے ممانعت یانہی نہیں ۔یعنی یہ ذکر ہے کہ مذکورہ حضرات نے یہ دو رکعتیں نہیں پڑھیں‘ کیوں نہیں پڑھیں؟ ہوسکتا ہے کہ مصروفیات کی وجہ سے نہ پڑھی ہوں یا محض نفلی نماز ہونے کی وجہ سے نہ پڑھی ہوں ۔ اس سے یہ استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے کہ ان کا پڑھنا یا ان کے نزدیک پڑ ھنا نا جائز ہے؟ فافهم ولا تكن من الغافلين.امام ابن نصر کی توجیہ : محدث کبیر امام ابن نصر‘ ابرا ہیم نخعی کے اس اثر کے بعد فرماتے ہیں: ابرا ہیم نخعی کے اس بیان میں جس میں وہ بغور مشاہدہ کرنے والے شخص کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ اس نے انھیں (صحابہ کو) یہ نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ مذکورہ بالا اشخاص بوجہ کراہت ہی دورکعات ادا نہ کرتے تھے اور ان کے ترک کی یہی وجہ تھی کیونکہ ان دو رکعتوں کا ترک کرنا بھی مباح (جائز) ہے۔ کیا آپ دیکھتے ہیں کہ خود نبیﷺ سے ان کا پڑھنا منقول نہیں ہاں آپ نے ان کی ترغیب دی ہے لہذا آپ ﷺکا اس نماز کو خود پڑھنے کی نسبت اس کی ترغیب دینا زیادہ مؤثر اور اہمیت کا حامل ہے اس لیے ممکن ہے کہ ان حضرات نے کسی اور وقت میں ہی نماز پڑھی ہو جبکہ دیکھنے والے نے اس وقت ان کا مشاہدہ نہ کیا ہو۔ اور نبی اکرم ﷺ سے بھی یہ ممکن ہے کہ آپ نے یہ نماز گھر میں پڑھی ہو کیونکہ آپ کی اکثرنفل نماز گھر میں ہوتی تھی کہ جہاں لوگ دیکھتے نہیں تھے۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ کے بعد بھی ممکن ہے کہ جن لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا گیا وہ اپنے گھروں میں ادا کرتے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ بغور مشاہدہ کرنے والا میں نماز پڑھتے ہوئے نہ دیکھ سکا نیز اکثر علماء بھی تونفل نماز مساجد میں ادا نہیں کرتے تھے۔(قيام الليل للمروزي،ص:49بتصرف)حافظ ابن حجر کی تحقیق : ابن حجر بھی ابن نصر کے موقف کی ترجمانی کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ ابراہیم نخعی کا اثر منقطع ہے۔ بالفرض اگر پایہ ثبوت کو پہنچتا بھی ہو‘ تب بھی اس میں نسخ اور کراہت کی دلیل نہیں‘ وہ فرماتے ہیں( ولولم يكن فيه دليل على النسخ الكراهة (فتح الباري:2/108حديث625)حافظ ابن حجر کی یہ بات بالکل اصولی ہے۔ اگر چہ ابن نصرمذکورہ توضیحات امکافی حد تک درست ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس قسم کے آثار میں یہ قوی احتمال موجود ہے کہ یہ لوگ بوجہ شغل و مصروفیت اس کی ادائیگی نہ کر پاتے ہوں جیسا کہ اس کی تصدیق عقبہ بن عامر کے قول سے ہوتی ہے۔ مرثد بن عبداللہ یزنی کہتے ہیں کہ میں عقبہ بن عامر جہنی کے پاس آیا اور کہا: کیا آپ کو ابوتمیم (عبداللہ بن مالک جیشانی) سے تعجب نہیں ہوتا؟ وہ نماز مغرب سے قبل دو رکعت نماز پڑھتے ہیں تو عقبہ نے فرمایا: (إنا کنا نفعله على عهدالنبيﷺ، فقلت: فما يمنعک الان؟ قال: الشغل) یقینا ہم یہ دو رکعتیں نبیﷺکے عہد مبارک میں ادا کیا کرتے تھے ۔ میں نے کہا: اب کیا رکاوٹ ہے؟ انھوں نے فرمایا: مصروفیت ۔‘‘(صحيح البخاري، التهجد، باب الصلاة قبل المغرب حديث:183)لہذا جن صحابہ کرام سےبسند صحیح ان کا ترک منقول ہے اس کی وجہ بھی یہی مصروفیت ہوسکتی ہے۔ابن حجر فرماتے ہیں (فلعل غيره أيضا منعه الشغل)شاید دوسروں کے لیے بھی رکاوٹ مصروفیت ہی ہو۔ (فتح الباري: 2/ 108)ابن نصر مروزی نے ان چند صحابہ کرام کے آثارنقل کیے ہیں جو ان دو رکعات پر مواظبت (ہمیشگی)کرتے تھے۔ دیکھیے :(قيام الليل للمروزي، ص:46۔48)حافظ ابن حجر اس کے بارے میں لکھتے ہیں( وقد روى محمد بن نضر وغيره من طرق قوية عن عبدالرحمن بن عوف وسعد بن أبي وقاص و أبي بن كعب و أبي الدارداء و أبي موسى وغيرهم أنهم كانوا يواظبون عليهما)’’محمد بن نصر وغیرہ نے قوی طرق سے عبدالرحمن بن عوف‘ سعد بن ابی وقاص ‘ابی بن کعب ‘ابودرداء اور ابوموی وغیرہ سے روایت کیا ہے کہ یہ سب ان دو رکعتوں پرہمیشگی کرتےتھے۔ (فتح الباري:2/108)امام ترمذی فرماتے ہیں (وقد روي عن غير واحد من أصحاب النبي ﷺو أنهم كانوا يصلون قبل صلاة المغرب ركعتين بين الأذان والإقامة) ’’کئی اصحاب النبی ﷺ سے منقول ہے کہ وہ اذان اور اقامت کے درمیان نماز مغرب سے قبل دو رکعات پڑھا کرتے تھے ۔ (جامع الترمذي الصلاةحديث:185)ابن العربی کا رد :انھی دلائل کی روشنی میں حافظ ابن حجرامام ابن العربی مالکی کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کا یہ قول (اختلف فيها الصحابة ولم يفعلها أحد بعدهم)ان دو رکعات کے پڑھنے کے متعلق صحابہ کرام کا اختلاف ہے ان کے بعد کسی نے یہ نماز نہیں پڑھی۔‘‘مردود ہے کیونکہ محمد بن نصر کہتے ہیں(و قد روينا عن جماعة من الصحابة والتابعين أنهم كانوا يصلون الركعتين قبل المغرب)’’صحابہ و تابعین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ قبل از مغرب دو رکعات ادا فرمایا کرتی تھی ۔ (فتح الباري:2/108)امام ابن نصر مروزی نے قیام اللیل میں متعدد اسانید سے صحابہ و تابعین کے ان آثار کی تخریج تک کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (قيام الليل، ص:46۔48، مكتبه سبحانیه)دعوائے نسخ: بعض مالکیہ نے قبل از مغرب دورکعات کی مشروعیت و استحباب کے نسخ کا دعوی کیا ہے۔ ان کے بقول مغرب سے قبل دو رکعتوں کی مشروعیت پہلے کی ہے۔ بعد میں رسول اللہ ﷺنے تعجیل مغرب کی ترغیب دی تھی لہذا اب یہ منسوخ ہیں۔یہ دعوی بے دلیل ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: (دعوی النسخ لادليل عليها )د عوائے نسخ کی کوئی دلیل نہیں ۔‘‘ (فتح الباري: 2/ 108)علامہ عینی کے بقول ابن شاہین نے بھی (ان عند كل أذانين ركعتين ما خلا المغرب )’’مغرب کے سوا ہر دواذانوں کے مابین نماز ہے۔‘‘ سے نسخ کا دعوی کیا ہے لیکن یہ حدیث (ما خلا المغرب )کے اضانے کے ساتھ منکر ہے۔ تفصیل گزر چکی ہے لہذا ابن شاہین کا دعوائے نسخ بھی کمزور ٹھہرا۔ علامہ مبارکپوری نے بھی دعوائےنسخ کی تردید فرمائی ہے وہ لکھتے ہیں(والقول بأنه منسوخ مما لالتفات إليه فانه لا دليل عليها (تحفة الأحوذي:1/446۔469)
یہ تھے فریق مخالف کے وہ چند کھو کھلے دلائل جن کی بنیاد پر وہ نماز مغرب سے قبل دو رکعت نفل نماز کو مکروہ اس کے ترک کو اولیٰ قرار دیتے ہیں۔خلاصہ کلام : مذکورہ تصریحات سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے (صلوا قبل المغرب، قبل المغرب،صلو قبل المغرب)کے حکم سے اس عمل کی ترغیب دی ہے۔ پھر غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اتنا وقفہ تعجیل مغرب کے منافی یا اس کی تاخیر کا سبب ہوتا تو آپ اس کی اتنی ترغیب نہ دیتے۔ غور فرمائیں تعجیل مغرب اگرآپ کی سنت فعلی ہے تو رکعتین کی ترغیب سنت قولی ہے۔ ایک سنت کو اپنانا اور دوسری کو ترک کرنا درست نہیں بلکہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اگر بظاہر احادیث میں اس قسم کا تعارض نظر آئے تو اسے جمع تطبیق سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ اپنے اپنے محل پر دونوں معمول بہ ر ہیں چہ جائیکہ دونوں کو ساقط الاعتبار قرار دیا جائے یا ایک حدیث لے کر دوسری ناقابل عمل اور رد کر دی جائے متبعین سنت کایہ شیوہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کبار صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں یہ نماز پڑھا کرتے تھے اور اسے تاخیر کا سبب یاتعجیل مغرب کے منافی نہ سمجھتےتھے۔ پھر تابعین سے بھی اس پر عمل منقول ہے۔ اس سب کے باوجود ضعیف اور محتمل دلائل کو صریح ‘صحیح اور کثیردلائل پر ترجیح دینا کہاں کی سمجھ داری اور کہاں کا انصاف ہے؟شارح صحیح مسلم امام نووی نے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو اسے مکروہ یا خلاف اولی سمجھتے ہیں اور دلیل میں تاخیر مغرب کو آڑ بناتے ہیں فرماتے ہیں(قول من قال إلى فعلهما يؤدي إلى تأخير المغرب عن أول وقتها خيال فاسد منابذ للسنة مع ذلك فزمنهمازمن یسیر تتأخر به الصلاة عن أول وقتها’جو یہ کہتا ہے کہ ان کی ادائیگی اول وقت سے تاخیر کا سبب بنتی ہے اس کا یہ خیال فاسد اور انکار سنت کے مترادف ہے جبکہ ان کے لیے وقت بھی تھوڑا سا درکار ہوتا ہے جس سے نماز اپنے اول وقت سے لیٹ نہیں ہوتی۔دیکھیے : (شرح صحيح مسلم للنووي:2/178 تحت حديث:838 وفتح الباري:2/109)الغرض علامہ زیلعی حنفی کا یہ کہنا(الأصحابنا في تركها أحاديث )’’ان نوافل کو چھوڑنے کی ہمارےاصحاب (احناف) کے پاس احادیث ہیں۔درست نہیں کیونکہ ان’’ احادیث‘‘ کی حقیقت واضح کی جا چکی ہے۔ملحوظہ: ابن حبان کے حوالے سے آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بھی قبل از مغرب دو رکعات ادا فرمائی ہیں ۔ بعض علماء نے اس سنت فعلی کوصحیح قرار دیا ہے۔ معروف محقق شیخ شعیب ارناؤط نے زاد المعاد (1/312) کی تحقیق میں اس کی سندصحیح قرار دی ہے لیکن اس تصحیح پر محدث کبیر شیخ البانی نے ان کا تعاقب کیا ہے۔ شیخ موصوف کے نزدیک یہ روایت اس اضافے سے شاذ ہے۔ وہ اس اضافے کو راوی کا ادراج قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھنے کا عمل ابن بریدہ کا ہے( کان ابن بريدة يصلي قبل المغرب رکعتین) نہ کہ خود اللہ کے رسول ﷺنے پڑھی ہیں مفصل تحقیق کے لیے ملاحظہ فرمایئے: (سلسلة الأحاديث الضعيفة:373۔377، حدیث:5662وضعيف موارد الظمآن للألباني حديث:62،وسلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني، حديث:233)اس موقف کی تائید ابن نصر کے قول سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں(ألا ترى أن النبيﷺنفسه لم يرو عنه أنه ركعهما)کیا آپ دیکھتے نہیں کہ خود نبی اکرمﷺسے ان کا پڑھنا منقول نہیں۔ (قيام الليل،ص:49)غالبا ان کا مقصد یہ ہے کہ صحیح اور مستند ذریعے سے مروی نہیں۔ والله أعلم.حافظ ابن قیم نے بالصراحت نبی اکرم ﷺ کے اپنے عمل سے اس کے ثبوت کی نفی کی ہے وہ فرماتے ہیں و أما الرکعتان قبل المغرب، فإنه لم ينقل عنه أنه كان يصليهما)نبی اکرم ﷺ سے قبل از مغرب دو رکعتوں کا پڑھنا منقول نہیں ہے۔ (زاد المعاد :1/312)لیکن آپ کی ترغیب وتقریر سے اس کی مشروعیت ثابت ہے۔حافظ ابن حجر کے کلام سے بھی اس قسم کا اشارہ ملتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں وأما كونهﷺ لم يصلهما فلاينفي الإستحباب )نبی اکرمﷺ کے نہ پڑھنے سے اس کے اسباب کی نفی نہیں ہوتی ۔ (فتح الباري:2/108 تحت حدیث:625 وما توفيقي إلا بالله عليه توكلت و إليه أنيب.نماز عشاء کامستحب وقت : نماز عشاء تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے۔ ابو برزہ اسلمی سے مروی ہے(وكان یستحب أن يؤخر من العشاء التي تدعونها العتمة) ’’نبی اکرمﷺ نماز عشاء جسے تم رات کی نماز کہتے ہو (آدھی رات تک )مؤخر کرنا پسند فرماتے تھے۔(صحيح البخاري مواقيت الصلاةحديث:547وصحیح مسلم المساجد حديث:647)اسی طرح سیدہ عائشہ ؓسے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ایک رات تاخیر کر دی یہاں تک کہ کافی رات گزرگئی ۔ اہل مسجد سو گئے‘ پھر آپ تشریف لائے اور فرمایا: ’یہ ہے اس کا اصل وقت ‘اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ سمجھتا ہوتا۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حديث:638) کچھ دیگر احادیث میں بھی اس قسم کی تاخیر کا ذکر ملتاہے۔ حدیث جبریل میں ہے(ثم صلی العشاء الآخرة حين ذ هب ثلث الليل (سنن أبي داودالصلاة حديث:393 ، وجامع الترمذي، الصلاة حديث:149،و اللفظ له) حدیث ابی موسیٰ اور حدیث بر یدہؓ میں بھی ثلث اللیل تک اس تاخیر کا بیان ملتا ہے جبکہ آپ ﷺنے کسی سائل کے جواب میں عملا دو دن نمازیں پڑھ کر دکھائیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:(صحيح مسلم المساجدحديث:613۔614)ان قولی و فعلی احادیث سے نماز عشاء کی تاخیر کی افضلیت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ عوام الناس اس کے لیے تیار ہوں اوریہ تاخیر ان کے لیے اذیت کا باعث نہ ہو نیز زیادہ تاخیر سے نمازیوں کے کم ہونے کا خدشہ بھی نہ ہو کہ لوگ نماز ہی سے جان چھڑانا شروع کر دیں ۔ تب اس قدر یا اس کے قریب قریب تاخیرمستحب ہے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: (من وجد به قوة على تأخيرها ولم يغلبه النوم ولم یشق على أحد من المأمومين فالتاخير في حقه أفضل، وقد قرر النووي ذلك في شرح مسلم وهو اختيار كثير من أهل الحديث من الشافعية وغيرهم. والله أعلم)’’جو اسے دور کر کے پڑھنے کی قوت پاتا ہو‘ اس پر نیند کا غلبہ بھی نہ ہو اور نہ مقتدیوں میں سے کسی ایک کے لیے باعث مشقت ہوتو ایسے شخص کے حق میں تاخیر افضل ہے۔ امام نووی نے شرح مسلم میں اسی کا اثبات کیا ہے۔ شوافع وغیرہ میں سے کثیر اہل الحدیث کا مختار مذہب یہی ہے۔والله أعلم. (فتح الباري: 2/ 48، تحت حدیث:567) بہر حال عوام الناس کو اس قسم کی ترغیب وتشویق دیتے رہنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو نماز عشاء تاخیر سے ادا کرنی چاہیے کیونکہ افضل یہی ہے۔ والله أعلم.انتہائے وقت عشاء: نماز عشاء کا وقت ادا آدھی رات تک رہتا ہے۔ اس کے بعد اس کا وقت ہو جاتا ہے۔ اضطراری حالت اس سے مستثنی ہے لہذا نصف اول کے بعد ادا کی جانے والی نماز عشاء(فقہاء کی اصطلاح میں) قضا شمار ہو گی۔ اس کی دلیل عبدالله بن عمرو وغیرہ سے مروی حدیث ہے نبیﷺنے فرمایا(ووقت العشاء إلى نصف الليل) ’’عشاء کا وقت نصف شب تک ہے۔“(صحیح مسلم المساجد حديث:(172)612) اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں(ووقت صلاة العشاء إلى نصف الليل الأوسط) ’’نماز عشاء کا وقت رات کےصف اول تک ہے۔(صحیح مسلم المساجد، حدیث:173/712)
اس مرفوع حدیث کے مطابق عبداللہ بن عمروؓ کا فتوی بھی موجود ہے وہ فرماتے ہیں(وصلاۃ العشاء درك حتى نصف الليل، فما بعد ذلك إفراط) نصف شب تک نماز عشاء پائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد حد سے تجاوز ہے۔(مصنف عبدالرزاق:1/58، رقم2215) اس کی سند میں اگر چہ قیادہ مدلس ہے لیکن سابقہ مرفوع حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
مذکورہ حدیث میں انتہائے وقت عشاء کی جوواضح تحدید ہے اس کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں (وهو أبین شيء في المواقيت) ’’یہ حدیث اوقات کی تحدید میں واضح ترین ہے۔ (شرح العمدة لشيخ الإسلام:2/177)علاوہ ازیں حضرت ابو ہریرہکی حدیث سے اس کی مزید توثیق ہوتی ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا(وان آخر وقتها حين ينتصف الليل) ’’نماز عشاء کا آخری وقت نصف رات تک ہے(مسند أحمد:2/323 و بتحقيق أحمد شاكر حدیث:7172،وجامع الترمذي،الصلاةحديث:151) یہ حدیث صحیح ہے محولہ کتب میں شیخ احمد نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ البانی کی حقیقت بھی یہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں نماز عشاء کا آخری وقت نصف شب تک ہے۔‘‘سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني،رقم:1696)
ان احادیث کی تائید میں خلیفہ راشد عمر بن خطاب کا یہ فرمان بھی ملتا ہے جو انھوں نے ابوموسی کے لیےتحریر فرمایا تھا(وأن صل العتمة مابينك و بين ثلث الليل، وإن أخرت فالى شطر الليل، ولاتكن من الغافلين)نماز عشاء تہائی رات کے اندر اندر پڑھنا۔ اگر تاخیر کے ساتھ پڑھنا ہو تو نصف شب تک اورغا فلوں میں سے نہ ہونا۔الموطأ للإمام مالك:حدیث:8ترقيم فؤاد عبدالباقی و معاني الآثار1/158) نیز البانینے تمام المنة، ص:142میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس صحیح موقوف اثرسے ثابت ہوا کہ نماز عشاء نصف اول سے پہلے پڑھ لینی چاہیے وگرنہ اس کے بعدغافلین میں شمار ہوگا۔
امام مالک کےایک قول کے مطابق نماز عشاء کا آخری وقت نصف شب تک ہے۔ دیکھیے(بدايةالمجتهد:1/181)امام ابن العربی نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھیے : (القبس:1/ 57) مزید یہ کہ امام مالک والے یہاں(حديث عمر لا کر) ایک تنبیہ فرمانا چاہتے ہیں وہ یہ کہ جب کی حدیث کی تائید یا موافقت میں کسی خلیفہ راشدکاعمل مل جائے تو اس سے مزید تسلی اور تقویت حاصل ہوتی ہے۔ یہ ترجیح کا ایک قرینہ ہوتا ہے۔ (بتصرف)علامہ عبدالرحمن مبارکپوری نے عارضة الاحوذی کے حوالے سے امام ابن العربی کا اس موقف کے بارے میں کلام نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں قد ثبت عن النبي ﷺ فعلا أنه أخرها إلى شطر الليل، وقولا له، قال: وقت العشاء إلى شطر الليل في صحيح مسلم فلا قول بعد هذا والله أعلم) نبی اکرم ﷺسے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فعلا نماز عشاء آدھی رات تک موخر کی ہے اور قولا بھی آپ سے یہ ثابت ہے فرمایا: ” نماز عشاء کا وقت نصف شب تک ہے۔( صحیح مسلم ) لہذا اس قول رسول ﷺ کے بعد کسی قول کی گنجائش نہیں ۔ (تحفة الأحوذي:1/431)شوافع میں سے امام ابوسعید اصطخری کی رائے بھی یہی ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی آدھی رات کے بعد نماز عشاءپڑھے گا تو وہ قضاء شمار ہوگی ۔ (المجموع: 3/ 39)امام شوکانی نے اسی موقف کو ترجیح دی ہے فرماتے ہیں( وآخره نصف الليل)عشاء کاآخری وقت نصف لیل ہے۔ (السيل الجرار:1/408)الدررالبہیۃ میں بھی یہی موقف ہے جبکہ نواب صدیق حسن خاں نے "الروضة الندية، میں اس موقف پران کی تائید فرمائی ہے۔ دیکھیے : (الروضة الندية مع التعليقات الرضية:1/230)بہر حال مذکورہ معروضات سے واضح ہوتا ہے کہ عشاء کا آخری وقت نصف شب تک ہے اور ان شاء اللہ یہی حق ہے۔ جمہور کے نزدیک طلوع فجر تک ہے لیکن دلائل کمزور اور غیر صریح ہیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں( ولم أرفي امتداد وقت العشاء إلى طلوع الفجر حديثا صريحا یثبت) نماز عشاء کے وقت کے طلوع فجر تک متمد (وسیع )ہونے کی میں نے کوئی ایسی صریح حدیث نہیں دیکھی جو پایہ ثبوت کو پہنچتی ہو۔ (فتح الباري:2/52تحت حدیث:572)حاملین موقف ثانی اور ان کے دلائل کا مختصر جائزہ :جمہور علمائے کرام کے نزدیک ماسوائےاحناف کے ( کیونکہ ان کے ہاں ثلث اللیل تک مستحب وقت ہے) عشاء کا مستحب وقت نصف اول تک ہے اور وقت جواز و ادا طلوع فجر صادق تک۔ ان کے دلائل میں کوئی صریح حدیث موجودنہیں ، مجمل احادیث سے استدلال ہے۔ علامہ طحاوی نے شرح معانی الآثار میں اس موضوع کی روایات ذکر کی ہیں ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔پہلی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے نصف اللیل کے بعد بھی نماز عشاء پڑھنا ثابت ہے اوردرج ذیل احادیث سے استدلال ہے۔1۔ و حدیث ابو برزہ( كان يبالي بعض تأخيرها قال: يعني العشاء إلى نصفي الليل) ’’آپ ﷺنصف اللیل تک عشاء مؤخر کرنے کی پروا نہ کرتے تھے۔ (صحیح البخاري حديث:572معلقة وموصولا ومختصر صحيح البخاري للألباني:1/186وصحيح مسلم المساجد حديث:647واللفظ له)2۔سیدنا انس فرماتے ہیں(اخر النبیﷺصلاة العشاء إلى نصف الليل، ثم صلی)نبی اکرم ﷺایک رات نماز عشاء نصف شب تک لیٹ کر دی پھر نماز پڑھائی ۔ (صحيح البخاري، مواقيت الصلاةحديث: 572)لیکن ان احادیث سے بصراحت یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز عشاء پہلے نصف کے بعد پڑھائی بلکہ مقصود یہ ہے کہ نصف شب تک فراغت ہو چکی تھی ۔ اس طرح قول اور فعلی احادیث میں تعارض پیدا نہیں ہوتا ۔ دیگر طرق یا احادیث کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت انس کا ایک اندازہ تھا۔ انھی سے مروی بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں : [اخر رسول للهﷺ و العشاء ذات ليلة إلى شطر الليل، أو كاد يذهب شطرالليل) رسول اللہﷺنے ایک رات عشاء نصف شب تک موخر کی یا قریب تھا کہ آدھی رات بیت جاتی۔(صحیح مسلم المساجد حديث:640) مزید یہ الفاظ بھی منقول ہیں(نظرنا رسول اللهﷺليلة حتى كان قريبا من نصف الليل)ایک رات ہم نے رسول اللہﷺ کا انتظار کیا یہاں تک کہ وقت نصف شب کے قریب قریب ہوگیا۔(حوالہ مذکور)حضرت ابوسعید خدری سے منقول ہے(حتى ذهب نحو من شطر الليل )یعنی آپ ﷺ نے اتنی تاخیر فرما دی کہ نصف رات کے قریب قریب وقت بیت چکا تھا۔(مسند أحمد:3/5 وسنن أبي داود الصلاةحديث:422 وصحيح سنن النسائي للألباني حديث:537)نسائی کے محولہ مقام (حتی ذهب شطر الليل) کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ اس کے بعد ابوسعید خدری فرماتےہیں(فجاء فصلی بنا وقال: لولا ضعف الضعيف وسقم السقيم وحاجة ذی الحاجة لاخرت هذه الصلاۃ إلى شطر الليل)پھر آپ تشریف لائے اور ہمیں نماز پڑھائی پھر فرمایا: اگر کمزور کی کمزوری بیمارکی بیماری اور ضرورت مند کی ضرورت کا مجھے خیال نہ ہوتا تو میں نماز نصف شب تک موخر کرتا (حوالہ مذکور)یہ روایت بالکل واضح ہے اور اس بات کی صریح دلیل ہے کہ رسول اللہﷺ نے انھیں نصف شب سے پہلے پہلے نماز پڑھا دی تھی۔ اگر یہ پہلے نصف کے بعد شروع کی ہوتی یا اس کے بعد فراغت ہوتی تونبی اکرم ﷺقطع یہ کلمات نہ فرماتے (لاخرت هذہ الصلاة إلى شطر الليل)شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں( وهذا كلام مفسر من النبيﷺ یقضى به على ماسواه من الحكايات المحتملة) نبی اکرم ﷺ کا یہ کلام مفسر ہے (تفسیر مجمل کی حیثیت رکھتاہے) لہذا دیگرمحتمل حکایات وروایات کا اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا ۔“ (شرح العمدة از شیخ الإسلام ابن تيمية:2/178)الغرض احناف اور جمہور کا اس قسم کی مجمل غیرصریح روایات سے استدلال غیر قوی ہے۔ امام طحاوی نے حضرت انس وغیرہ کی روایات سے بایں الفاظ استدلال کیا ہے:(في هذي الآثار أنه صلاها بعد مضي نصف الليل) ’’ان آثار و احادیث میں یہ دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے نصف شب گزرنے کے بعد نماز عشاء پڑھی ہے۔ (شرح معاني الآثار:1/158) لیکن مذکورہ معروضات کی روشنی میں یہ استدلال درست نہیں ہے۔امام طحاوی کے اس اور دیگر استدلالات کے متعلق محدث مبارکپوری فرماتے ہیں(لاشك في أن كلام الطحاوي هذا حسن،لو كان في هذا حيث مرفوع صحيح ولكن لم أجد حديثا مرفوعا صحیحا) ”بلاشبہ امام طحاوی کا یہ کلام عمدہ ہے اگر اس موضوع پر کوئی مرفوع صحیح حدیث ہوتی، لیکن مجھے کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملی۔ (یعنی جو بصراحت طلوع فجر تک وقت عشاء کے ممتد ہونے پر دلالت کرتی ہو۔) (تحفةالأحوذي:1/430 طبع دار الكتب العلمية)دوسری دلیل : حضرت عائشہ ؓ کی وہ حدیث ہے جس میں وہ فرماتی ہیں(أعتم النبی ﷺذات ليلة حتى ذ هب عامه الليل)نبی اکرم ﷺ نے ایک رات تاخیر فرما دی تھی کہ رات کا کافی حصہ بیت گیا ۔‘‘(صحیح مسلم المساجدحديث:(218)۔638)احناف وغیرہ کا اس حدیث سے محل استشہاد یہ ہے کہ یہاں [عامة الليل)کے الفاظ آئے ہیں جس کے معنی ہیں : رات کا اکثر حصہ بیت گیا۔ اس مفہوم کے پیش نظر یقینا یہ لازم آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نصف شب کے بعد نماز عشاء پڑھی ہے۔ لیکن یہاں مذکورہ الفاظ کے یہ معنی غلط ہیں یعنی عامتہ اللیل کثیر کے مفہوم میں ہے نہ کہ اکثر اللیل کے معنی میں۔امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: (ذهب عامة الليل أي كثير منه وليس المراداكثره ولا بد من هذا التأويل لقوله ﷺإنه لوقتها، ولا يجوز أن يكون المراد بهذا القول ما بعد نصف الليل، لأنه لم يقل أحد من العلماء أن تأخيرها إلى مابعد نصف الليل أفضل ذهب عامه الليل)کے معنی ہیں: رات کا کثیر (کافی) حصہ بیت گیا نہ کہ یہ مراد ہے کہ اس کا اکثر حصہ کی تاویل ضروری ہے کیونکہ( اس کے بعد) آپ ﷺ یہ فرمان:’اس نماز کا اصل وقت یہ ہے‘اس تاویل کی دلیل ہے لہذا عائشہؓ کےاس قول ذهب عامة اللیل سے نصف شب سے بعد کا وقت مراد لینا درست نہیں کیونکہ علماء میں سے کسی ایک کابھی قول نہیں کہ آدھی رات کے بعد عشاءکا افضل وقت ہے۔دیکھیے(شرح صحیح مسلم:2/193حدیث:638)امام نووی کے اس جواب کے بعد مذکورہ استدلال کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اس لیے امام طحاوی کا اس حدیث سے یہ استدلال کرنا: ( في هذا أنه ها بعد مضى أكثر الليل معاني الآثار:1/ 158) اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ نے رات کا اکثر حصہ گزرنے کے بعد نماز عشاء پڑھائی ہے درست نہیں لہذا عشاءکا وقت طلوع فجر تک ممند نہیں ہے۔تیسری دلیل: بواسطہ حبیب بن ابی ثابت نافع بن جبیر سے حضرت عمر فاروق کا وہ مکتوب ہے جو انھوں نے بنام ابوموسیارسال فرمایا تھا۔ اس میں ہے(وصل العشاء أي الليل شئت ولا تغفلها) رات کے جس حصے میں نماز عشاء پڑھنا چاہو پڑھ لولیکن اس میں غفلت کا شکار نہ ہونا۔ (شرح معاني الآثار: 1/ 159)اس کے بعد امام طحاوی فرماتے ہیں(ففي هذا أنه جعل الليل کله وقتالها. ..) اس اثر میں یہ دلیل ہے کہ حضرت عمر پوری رات کو اس کی ادائیگی کا وقت ٹھہرایا ہے۔لیکن عمر فاروق سے منقول یہ اثر اس سیاق کے ساتھ نا قابل حجت ہے کیونکہ اس کی سند میں حبیب بن ابوثابت تیسرے طبقے کا مدلس راوی ہے اور وہ عن سے بیان کر رہا ہے۔ اس درجے کے راوی کی روایت اس وقت قابل قبول ہوتی ہے جب روایت میں اپنے شیخ سے سماع یاتحدیث کی صراحت کرے۔ یہاں یہ بات مفقود ہے۔ مزیددیکھیے:(تحفة الأحوذي:1/430)دوسرا یہ کہ یہ بات حضرت عمر سے منقول صحیح اثر کے مخالف بھی ہے جس میں عشاء کی تجدید پہلے نصف تک ہے۔ اس کے بعد وہ غافلین میں شمار ہو گا۔ اس طرح مذکورہ اثر شاذ بھی قرار پاتا ہے۔ بہرحال ان وجوہ کے سبب یہ اثرساقط الاعتبار ہے۔
چوتھی دلیل : حضرت ابو ہریرہ کا وہ فتوی ہے جس میں وہ طلوع فجر تک نماز عشاء نہ پڑھنے کوافراط (حد سے تجاوز) قرار دیتے ہیں۔ (شرح معاني الآثار:1/159)صاحب تحفة الأ حوزی اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ حضرت ابو ہریرہ نے یہ بات حدیث ابوقتادہ کے عموم کے پیش نظر کہی ہو۔ دیکھیے : (تحفة الأحوذي:1/431) حدیث ابوقتاده مع جواب آئندہ سطور میں ذکر ہوگی ان شاء اللہ۔دوسرایہ کہ اس اثر کی حیثیت ایک فتوے یا ذاتی اجتہاد کی ہے وہ نبیﷺ کا قول یا فعل تو بیان نہیں فرما رہے جبکہ اس کے مقابلے میں امیر المومنین عمر فاروق اور عبداللہ بن عمرو کی بھی اپنی اپنی رائے یا ذاتی رجحان ہے اب اختلاف رائے کے وقت تر جیح کس صحابی کے قول وفعل کو ہوگی؟ یقینا اسی کی رائے او فعل کو ہوگی جس کی تصدیق وتوثیق حدیث رسول ﷺسے ہوتی ہو اور یہاں صریح احادیث کی روشنی میں فتوائے عمر وغیرہ ہی قابل ترجیح ہے۔ ارشادباری تعالی ہے(فان تنازعتم في شئ فردوه إلى الله والرسول(النساء59:4) اگر تم کسی چیز میں باہم اختلاف کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔ ‘‘پانچویں دلیل: حضرت ابوقتا دہ کی حدیث ہے جس میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کے طویل سفر کا بیان ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے: ہوا یوں کہ صحابہ رسول اللہ ﷺکے ہمراہ ساری رات چلتے رہے آخر شب میں قدرے آرام کا پروگرام بنایا گیا تمام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈال دیا اور کچھ استراحت کے لیے لیٹ گئے سب پر نیند غالب آگئی آپ ﷺ کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں نمودار ہوئیں، صحابہ کرام بھی اٹھے اور اس صورت حال سے گھبرا گئے ۔ آپ ﷺ نے طلوع آفتاب کے بعد نماز فجر پڑھائی لیکن نماز پڑھنے کے باوجود صحابہ کے اندر اضطراب کی سی کیفیت تھی۔ تب آپ نے فرمایا: کیا تمہارے لیے میرے عمل میں نمونہ نہیں؟، پھر فرمایا(أما إنه ليس في النوم تفريط، إنما التفريط على من لم يصل الصلاة حتى يجي وقت الصلاة الأخرى) نیندکی وجہ سے کوتاہی نہیں ہوتی ، غفلت و کوتاہی تو صرف اس صورت میں ہے کہ آدمی (عمدأ) نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہو جائے ۔ (صحیح مسلم المساجد حديث:681)اس حدیث سے احناف وغیرہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ ایک نماز کا دوسری نماز تک وقت جواز مع الکراہت یا مطلقا جواز رہتا ہے۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ یہ حدیث مجمل ہے اور بیان اوقات میں نص نہیں۔ اگر نبیﷺ نے اس غرض کے لیے یہ فرمایا ہوتا تو یقینا نماز عشاء وغیرہ کی طرح نماز فجر کا وقت بھی نماز ظہر تک ممند ہوتا اور اس کا کوئی قائل نہیں اسی لیے جمہور نے اسے مستثنی قرار دیا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں حدیث عبداللہ بن عمر وتحدید اوقات میں نص ہے پھر اصولی طورپر بھی نماز فجر کا استثنادرست نہیں ‘اس لیے کہ تاخیر کایہ مسئلہ نماز فجر کاوقت ہی پیش آیا‘ لہذا اس حکم کےتحت اسے دخول اول حاصل ہے اسے اس سےخارج نہیں کیا جاسکتا جس کےصاف معنی یہ ہے کہ قائلین ہذا کو نماز فجر کاوقت بھی نماز ظہر تک تسلیم کرنا ہوگا۔
الحاصل : اس حدیث میں صرف عمدا تاخیر کرنے والے کے گناہ اور تفقیر کا بیان ہے۔ اوقات کےبیان تحدید کے لیے عبد الله بن عمرو کی حدیث ہی نص صریح اور حجت قاطعہ ہے۔ والله أعلم.حافظ ابن حزم اس کے جواب میں فرماتے ہیں: یہ حدیث ان کے قول پر قطعا دلالت نہیں کرتی کیونکہ یہ ائمہ بھی ہمارے ساتھ اس بات پرمتفق ہیں کہ نماز فجر کا وقت ظہر تک ممند نہیں ہے لہذا یہ بات درست ٹھہری کہ ہرنماز کا وقت ما بعد نماز کے ساتھ متصل نہیں۔ اس میں تو صرف اس شخص کے گناہ کا ذکرہے جو ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت تک مؤخر کرتا ہے اور بس۔ اس کا وقت دوسری نماز سے متصل ہو یا نہ ہو پھر اس حدیث میں اس بات کا بھی تو ذکر نہیں کہ اگر کوئی اس حد تک تاخیر کر دے کہ اس نماز کا وقت تو نکل جائے لیکن دوسری کا وقت ابھی تک نہ ہو۔ اس حدیث میں اس حوالے سے خاموشی ہے جبکہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے کہ اس کا وقت نکل جاتا ہے.. ...(محلی ابن حزم:3/179)محدث العصر علامہ البانی فرماتے ہیں(و إذا قد ثبت أن الحديث لا دليل فيه على امتداد وقت العشاء إلى الفجر فإنه يتحتم الرجوع إلى الأحاديث الأخرى التي هي صريحة في تحدید وقت العشاء مثل قولهﷺ : وقت صلاة العشاء إلى نصف الليل الأوط ....)رواه مسلم وغيره) جب یہ ثابت ہو گیا کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں کہ وقت عشاء فجر تک ممند ہے تو پھر یقینا ان احادیث کی طرف رجوع کرنا لازمی ٹھہرتا ہے جن میں صراحتاا وقت عشاء کی تحدید موجود ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ یہ فرمان ہے:’’نماز عشاء کا وقت پہلے نصف تک ہے ....‘‘ (تمام المنة:141۔142) ان معروضات کی روشنی میں پتا چلتا ہے کہ عبد الله بن عمرو وغیرہ کی احادیث میں اوقات مستحبہ ہی کا بیان نہیں بلکہ اس میں بلا ابہام صراحتا اوقات کی تحدید ہے اس لیے حدیث میں وارد الفاظ : (إلى نصف الليل )سے مراد عشاء کا وقت مختارنہیں جیسا کہ امام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا ہے۔(شرح صحیح مسلم:5/155) بلکہ اس کے برعکس اس میں انتہائے وقت عشاء کی تحدید ہے جیسا کہ امام بخاری کے ترجمۃ الباب سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں: (باب وقت العشاء إلى نصف الليل ، (صحيح البخاري المواقيت رقم الباب :25 والله أعلم.بالفرض اگر اس نقطہ نظر کے حاملین کی یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ ہر نماز کا وقت دوسری نماز تک ممند ہے لیکن فجر اس سےمستثنی ہے کیونکہ دیگر صریح دلائل کی روشنی میں طلوع آفتاب تک اس کی تحدیدہے تو کیایہی استثناوتخصیص دیگر دلائل کی رو سے نماز عشاء میں نہیں کی جاسکتی؟ بہر حال مذکور و گزارشات کی روشنی میں راجح یہی ٹھہرتا ہے کہ وقت عشاء طلوع فجر تک ممند نہیں بلکہ اس کا وقت ادا نصف شب تک ہے۔ ہاں مجبوری اور اضطرار کی صورت میں جب بھی ممکن ہو نماز عشاء پڑھی جاسکتی ہے۔ (لايكلف الله نفسا إلا و سعها) والله أعلم۔