تشریح:
(1) پہلی دو تجویزوں کو رد کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس میں غیرمسلموں سے مشابہت تھی جبکہ دینی امور میں غیرمسلموں سے مشابہت درست نہیں بلکہ دنیوی امور میں بھی ان سے امتیاز چاہیے۔
ّ(2) ناقوس ایک لکڑی ہوتی تھی جسے دوسری لکڑی پر مارتے تھے تو آواز پیدا ہوتی تھی، پھر لوہے یا پیتل پر لکڑی مارنے لگے۔
(3) قرن سینگ کی شکل کا ایک آلہ ہے جس کے ایک طرف پھونک ماری جائے تو دوسری طرف سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ آج کل کا سائرن بھی قرن جیسی آواز پیدا کرتا ہے، اسی طرح ناقوس کی موجودہ صورت گھنٹی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنی عبادات کے موقع پر گھنٹی یا سائرن سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(4) حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اعلان کا حکم دینا اذان کی مشروعیت سے قبل کی بات ہے۔ وہ گلیوں میں [الصلاةُ جامِعةٌ] ”نماز تیار ہے“کی آواز دیتے تھے۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن زید اور بعض دیگر صحابہ کو خواب میں اذان دکھایئ گئی تو پھر بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنےپر مقرر کیا گیا۔ یہ بعد کی بات ہے۔ اگر اس اعلان سے اذان مراد ہو تو یہ روایت مختصر ہوگی جس میں اس سے قبل کافی عبارت حذف ہے مگر یہ بعید توجیہ ہے، پہلی بات درست ہے۔
(5) بعض روایات میں آگ کی تجویز کا بھی ذکر ہے مگر اسے بھی رد کر دیا گیا کیونکہ یہ مجوس کا مذہبی نشان ہے، نیز آگ ہر وقت نظر نہیں آتی اور نہ بارش وغیرہ میں اسے جلانا ممکن ہے۔
(6) اہم امور باہمی مشورے سے طے کرنے چاہئیں۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں اور مشورہ دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ صحیح صحیح مشورہ دے۔
(7) اذان کھڑے ہوکر دینا مشروع ہے۔