تشریح:
(1) معلوم ہوا آدمی اکیلا ہو اور بستی سے باہر ہو، تب بھی اذان کہے کہ یہ مسلمانوں کا شعار بن چکا ہے، نیز ممکن ہے وہاں قریب کوئی اور چرواہا یا مسافر ہو تو وہ بھی مل جائے گا اور نماز باجماعت پڑھی جائے گی اور اگر وہاں کوئی بھی موجود نہ ہو تو اس کے پیچھے دیگر مخلوقات، یعنی فرشتے وغیرہ نماز ادا کرتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، فائدہ حدیث: ۶۶۸)
(2) اذان، تلبیہ اور تکبیر، یعنی جس میں اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان ہو، جس قدر بھی بلند آواز سے ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔ اذان تو ویسے بھی لوگوں کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے ہے، اس لیے ہر ممکن حد تک بلند آواز سے ہونی چاہیے تاکہ دور دور تک اطلاع ہوسکے، نیز قیامت کے دن تمام چیزیں اس مؤذن کے ایمان کی گواہی دیں گی، مؤذن کو اور کیا چاہیے!
(3) جن بھی بنی آدم کی آواز سنتے ہیں۔
(4) مخلوق بھی ایک دوسرے کے حق میں گواہی دے گی۔